حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ بنت الہدىٰ (رجسٹرڈ)، ہریانہ ہندوستان کے زیرِ اہتمام ہفتہ وار درسِ اخلاق و تمرینِ خطابت کا آن لائن اجلاس 4 دسمبر 2025 کو گوگل میٹ پلیٹ فارم پر منعقد ہوا۔ اس روحانی و تربیتی نشست میں ملک کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والی طالبات اور خواہران گرامی نے شرکت کی۔
اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ مجید سے ہوا، جس کی سعادت خواہر سیدہ مصباح بتول ہریانوی نے حاصل کی۔ بعد ازاں سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے نعتِ پاک خواہر شاردہ فاطمہ سہارنپوری نے نہایت خوش الحانی سے پیش کی۔
نشست سے خواہر درخشاں فاطمہ (جمنانگر) نے خطاب کیا، جنہوں نے مقررہ موضوع پر مدلل، رواں اور مؤثر گفتگو کرتے ہوئے حاضرین سے خوب داد حاصل کی۔ اجلاس کی نظامت کے فرائض خواہر مہناز فاطمہ (گجرات) نے نہایت حسنِ ترتیب اور اعتماد کے ساتھ نبھائے۔
اس نشست کا مرکزی حصہ درسِ اخلاق تھا، جو عالمہ فاضلہ محترمہ خواہر شہنور فاطمہ صاحبہ نے بعنوان:
"کردارِ منتظرین برائے ظہورِ امامِ عصرؑ"
انتہائی مؤثر، فکری، دعوتی اور تبلیغی اسلوب میں پیش کیا۔ انہوں نے منتظرین کی عملی ذمہ داریوں، اخلاقی معیار، معاشرتی کردار اور دورِ غیبت میں شعوری بیداری کی ضرورت پر نہایت جامع روشنی ڈالی۔ ان کا خطاب شرکاء کے لیے رہنمائی، فکر انگیزی اور عمل کی دعوت لیے ہوئے تھا۔
نشست کے اختتام پر مدرسہ کی انتظامیہ کی جانب سے حاضرین کا شکریہ ادا کیا گیا اور آئندہ اجلاس میں بھرپور شرکت کی ترغیب دلائی گئی۔
درسِ اخلاق کا مکمل متن ناظرین و سامعین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدللہ رب العالمین، والصلاة والسلام علی محمدٍ و آلِ محمدؑ۔
اللهم عجّل لولیک الفرج، واجعلنا من أنصاره و أعوانه و المستشهدین بین یدیه۔
خواہرانِ محترم!
آج ہم ایک ایسے عنوان پر گفتگو کرنے آئے ہیں جو صرف دلوں کا لمحۂ احساس نہیں، بلکہ پوری زندگی کی سمت متعین کرنے والی حقیقت ہے۔
وہ عنوان جس کے بغیر نہ ایمان کامل ہوتا ہے نہ عبادتوں کو روح ملتی ہے نہ دعائیں اثر رکھتی ہیں:
"کردارِ منتظرین برائے ظہورِ امامِ عصرؑ"
خواہرانِ عزیز!
انتظار لفظ نہیں؛انتظار زندگی ہے،ایک ایسی زندگی جو ہر صبح امامؑ کی یاد سے بیدار ہوتی ہےاور ہر شب ان کی محبت پر ختم ہوتی ہے۔
خواہرانِ محترم!
درسِ اخلاق ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ جس دور کے ہم منتظر ہیں،اس دور کا آغاز کردار سے ہوتا ہے۔زبان سے نہیں!
اہلِ بیتؑ نے ہمیں آواز دی:
"کونوا لنا زیناً… ولا تکونوا علینا شیناً"
یعنی ہمارے لیے زینت بنو… ہماری شرمندگی نہیں۔
یہ ایک جملہ نہیں۔یہ ایک منتظر کی پوری شخصیت کا تعارف ہے۔
خواہرانِ عزیز!
منتظر وہ ہے جس کے چلنے سے خیر پھیلے،جس کی زبان سے دلوں میں نور اترے،جس کی حیا، جس کی شرافت، جس کی عبادت لوگوں کو امامؑ کی یاد دِلائے۔
ہر جمعہ جب ہم دعائے ندبہ پڑھتے ہیں تو اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ:
کیا میں اس قابل ہوں کہ امامؑ کو لبیک کہہ سکوں؟
خواہرانِ محترم!
عصرِ غیبت ہمیں تین صدائیں دے رہا ہے:
پہلی صدا: اپنے دین کو پہچانو!
جس دین کا پرچم امامؑ بلند کریں گے،اس دین کی معرفت منتظر کے دل کا نور ہے۔
دوسری صدا: اپنے امام کو پہچانو!
جس کے دل میں معرفت نہیں، اس کی محبت بھی ادھوری ہے اور اس کا انتظار بھی ادھورا۔
تیسری صدا: اپنی زندگی کو قرآن و اہلِ بیتؑ کے مطابق بنا لو!
کیونکہ ظہور کا دور وہ ہے جہاں دین اپنی اصل صورت میں نافذ ہوگا۔
خواہرانِ عزیز!
منتظر کی پہچان یہ نہیں کہ وہ کتنی دعائیں پڑھتا ہے۔
اصل پہچان یہ ہے کہ وہ کیسا انسان بن رہا ہے۔
جو اپنے گھر میں انصاف نہ کر سکے۔
جو رشتوں میں حق نہ پہچان سکے وہ امامِ عدلؑ کے ظہور کا منتظر کیسے ہو سکتا ہے؟
جو بندوں پر رحم نہ کر سکے،
وہ امامِ رحمتؑ کا استقبال کیسے کرے گا؟
خواہرانِ محترم!
خدمتِ خلق،منتظر کی زندگی کا چراغ ہے۔
یتیم کی دستگیری، بیواؤں کا سہارا،
پڑوسی کا خیال، صلہ رحمی۔
یہ سب مل کر ظہور کے راستے کو روشن کرتے ہیں۔
اور دعا_ دعا تو منتظر کی سانس ہے۔
دعائے فرج، دعائے عہد، دعائے ندبہ۔
یہ امامؑ کے ساتھ روحانی رشتہ استوار کرتی ہیں۔
مگر یاد رکھیے:
دعا بغیر عمل ادھوری
اور عمل بغیر دعا۔ بے روح ہوتا ہے۔
خواہرانِ عزیز!
حقیقی انتظار تین مضبوط ستونوں پر کھڑا ہے:
. خود سازی – نماز، قرآن، حلال و حرام کی پابندی۔
. اخلاقی عظمت – مسکراہٹ، نرمی، خیر خواہی، دل کی وسعت۔
. معاشرتی بیداری – اصلاح، خدمت، اور برائی سے دوری۔
جو شخص خود کو بدل لے۔
وہ دنیا بدلنے کے قابل بن جاتا ہے۔اور انتظار کا اصل مفہوم بھی یہی ہے: خود کو اس امامؑ کے لائق بنانا جس کا ظہور دنیا کا سب سے بڑا انقلاب ہے۔
خواہرانِ محترم!
آئیے! ہر دن اپنے آپ سے یہی سوال کریں:
کیا آج میرے کسی عمل سے میرے امامؑ خوش ہوئے؟
اگر یہ سوال جاگ جائے،تو انتظار عقیدہ نہیں رہتا۔
ایک زندہ حقیقت بن جاتا ہے۔
آخر میں ہاتھ دعا کے لیے اٹھاتے ہیں:پروردگار! ہمیں اپنے امامؑ کے سچے منتظر بنا۔
باعمل، باشعور، بیدار، ثابت قدم۔
ہمارے گھروں اور دلوں کو محبتِ مہدیؑ سے روشن کر دے اور ہمیں اُن خوش نصیبوں میں شامل کر جو ظہورِ مقدس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
ربنا تقبل منا إنک سمیع مجیب۔









آپ کا تبصرہ