حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ بنتُ الہُدیٰ ہریانہ کی جانب سے گوگل میٹ کے آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے ہفتہ وار درسِ اخلاق کا ایک بامقصد، منظم اور روحانی پروگرام کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا، جس میں مختلف مقامات سے خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور اخلاقی و دینی معارف سے استفادہ کیا۔
موجودہ دور کے فکری انتشار، اخلاقی کمزوری اور سماجی بے حسی کے ماحول میں ہفتہ وار درسِ اخلاق کی نشستیں ایک اہم دینی و تربیتی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ دروس نہ صرف فرد کی اصلاحِ نفس کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ معاشرے میں باہمی احترام، حقوق کی پاسداری اور ذمہ دارانہ طرزِ عمل کو فروغ دیتے ہیں۔ بالخصوص آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے منعقد ہونے والے دروسِ اخلاق نے دور دراز علاقوں تک دینی تعلیمات کی ترسیل کو سہل بنایا ہے، جس سے ایک وسیع حلقہ فکری و اخلاقی رہنمائی حاصل کر رہا ہے۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، جس کی سعادت خواہر سیدہ جانشین فاطمہ، ہریانوی کو حاصل ہوئی۔ آپ کی خوش الحان تلاوت نے محفل کو روحانی فضا عطا کی۔
اس کے بعد نعتِ رسولِ مقبول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم پیش کی گئی، جو خواہر علیشاہ فاطمہ، بڈولی (شاملی) نے نہایت عقیدت اور سوز کے ساتھ پیش کی، جس سے سامعین کے دل محبتِ رسول سے سرشار ہو گئے۔
نعت کے بعد خواہر سیدہ سمانہ خاتون، ہریانوی نے نہایت سنجیدہ اور فکری انداز میں تقریر پیش کی، جس میں اخلاقی ذمہ داریوں کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔
پروگرام کی نظامت کے فرائض خواہر درخشاں فاطمہ جعفری، جمنانگر نے انجام دیے۔ آپ کی باوقار، مربوط اور سلیقہ مند نظامت نے پروگرام کے حسن میں اضافہ کیا۔
مرکزی نشست میں عالمہ فاضلہ محترمہ تنظیم فاطمہ زیدی صاحبہ، دہرادون نے موضوع “حقوقُ العباد” پر جامع، مدلل اور مؤثر خطاب فرمایا۔ آپ نے قرآنِ مجید اور اہلِ بیتِ اطہارؑ کی تعلیمات کی روشنی میں حقوقُ العباد کی اہمیت، معاشرتی ذمہ داریوں اور عملی زندگی میں ان کی پاسداری پر سیر حاصل گفتگو کی۔ یہ خطاب علمی ہونے کے ساتھ ساتھ اصلاحِ نفس اور عملی تربیت کا مؤثر ذریعہ بھی ثابت ہوا۔ ذیل میں درسِ اخلاق کا مکمل متن ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد المصطفیٰ ﷺ،
وعلیٰ اہلِ بیتہٖ الطاہرین، الذین أذھبَ اللہ عنہم الرجس وطہّرہم تطہیراً
محترم اساتذۂ کرام، معزز طالباتِ علومِ دینیہ اور گوگل میٹ کے ذریعے شریک تمام محترم سامعات!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں دل کی گہرائی سے منتظمینِ اس نشست کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس ہفتہ وار درسِ اخلاق میں گفتگو کا موقع عطا فرمایا۔ آج جس موضوع پر چند گزارشات پیش کرنا چاہتی ہوں، وہ ہماری دینداری کے بنیادی معیار سے تعلق رکھتا ہے، اور وہ ہے حقوقُ العباد۔
معزز سامعات! جب ہم اپنے حالات پر غور کرتے ہیں تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ہم واقعی متقی ہیں یا محض عبادت گزار؟ اہلِ بیتِ اطہارؑ نے ہمیں بارہا متنبہ کیا ہے کہ عبادت، اخلاق اور معاشرت ایک دوسرے سے جدا نہیں۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:
"شیعتنا من صدق الحدیث، وأدّى الأمانة، وحَسُنَ خُلُقُهُ مع الناس"
یعنی ہماری شیعت وہ ہے جو سچ بولے، امانت ادا کرے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے۔
یہ روایت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ انسانوں کے ساتھ حسنِ سلوک ہی دینداری کی اصل پہچان ہے۔
حقوقُ العباد صرف مالی یا ظاہری حقوق تک محدود نہیں، بلکہ اس میں دلوں کے حقوق بھی شامل ہیں۔ کسی کو حقیر سمجھنا، نیت پر شک کرنا یا کسی کی خاموشی کا مذاق اڑانا— یہ سب وہ امور ہیں جو بظاہر معمولی مگر میزانِ الٰہی میں نہایت سنگین ہیں۔
امیرالمؤمنین علیؑ فرماتے ہیں:
"أعظمُ الذنوبِ عند اللہ ذنبٌ استهان بہ صاحبُه"
یعنی اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ وہ ہے جسے انسان خود معمولی سمجھے۔
امام زین العابدینؑ کی رسالۃ الحقوق حقوقُ العباد کا ایک جامع اخلاقی منشور ہے، جس میں یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ زبان کا حق یہ ہے کہ اسے پاک رکھا جائے اور اس کے ذریعے کسی کا دل نہ دکھایا جائے۔
امام حسن مجتبیٰؑ کا حلم اور امام حسینؑ کا میدانِ کربلا میں دشمن کو پانی پلانا اس بات کی روشن مثالیں ہیں کہ حقوقُ العباد دشمنی اور حالات کے بدلنے سے ساقط نہیں ہوتے۔
خصوصاً طالباتِ علومِ دینیہ کے لیے یہ پیغام ہے کہ علمِ اہلِ بیتؑ کے ساتھ ان کے اخلاق کا وارث بننا بھی ضروری ہے۔ امام باقرؑ کا فرمان ہے:
"کونوا لنا زیناً ولا تکونوا علینا شیناً"
ہمارے لیے زینت بنو، باعثِ ننگ نہ بنو۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ بیتِ اطہارؑ کے ماننے والوں میں صرف نام سے نہیں بلکہ کردار سے شامل فرمائے، اور ہماری وجہ سے کسی کا حق پامال نہ ہو۔
وما علینا إلا البلاغ
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آخر میں دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔ شرکائے محفل نے اس بابرکت آن لائن درسِ اخلاق کو نہایت مفید، فکری اور روحانی قرار دیا اور اس طرح کے علمی و اخلاقی پروگراموں کے تسلسل کی خواہش کا اظہار کیا۔









آپ کا تبصرہ