بدھ 3 دسمبر 2025 - 06:14
خدا نے ابلیس کو کیوں پیدا کیا؟

حوزہ/ شیطان کی پیدائش کے بارے میں شبہے کا جواب تب واضح ہوتا ہے جب ہم سمجھ لیں کہ خدا نے کوئی بدذات مخلوق نہیں بنائی، بلکہ مخلوق کو اختیار دیا۔ ابلیس بھی اپنی ہی پسند سے راستِ حق سے دور ہوا، تاکہ انسان بھی انتخاب کے میدان میں اپنے ایمان کی قدر اور روحانی ترقی کو ظاہر کر سکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I جب بھی شیطان کا نام لیا جاتا ہے، بہت سے لوگوں کے ذہن میں ایک پرانا اور بنیادی سوال جاگ اٹھتا ہے: اگر خدا رحمان و حکیم ہے تو اس نے ایسے وجود کو پیدا ہونے کی اجازت کیوں دی؟ کیا خدا کا مقصد انسان کو گمراہ کرنا تھا؟

یہ سوال اگر سطحی انداز میں دیکھا جائے تو انسان کو غلط فہمی میں ڈال سکتا ہے، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ روشن ہے: خدا نے کوئی بدذات یا شرور مخلوق پیدا نہیں کی۔ جیسے تاریکی کوئی مستقل وجود نہیں بلکہ روشنی کا نہ ہونا ہے، اسی طرح شر بھی کوئی اصل حقیقت نہیں، بلکہ اختیار رکھنے والے کی غلط انتخاب کا نتیجہ ہے۔

ابلیس بھی ابتدا میں پاک، عبادت گزار اور مقرب بندوں میں شمار ہوتا تھا۔ وہ طویل عرصہ فرشتوں کے ساتھ عبادت کرتا رہا؛ لیکن جب اسے اختیار ملا تو اس نے تکبّر کا راستہ اپنایا اور خود اپنے انتخاب سے گمراہی کی طرف بڑھا۔ خدا نے شر پیدا نہیں کیا، بلکہ مختار مخلوق پیدا کی اور ابلیس نے اپنی مرضی سے برائی کا راستہ چُنا۔ اب سوال یہ ہے کہ وسوسہ اور گمراہ کرنے کی صلاحیت کیوں رکھی گئی؟ وجہ یہ ہے کہ اگر زندگی میں کوئی غلط راستہ موجود نہ ہو تو انسان کبھی اختیار، آزادی اور اخلاقی ذمہ داری کا تجربہ ہی نہ کر پاتا۔ نیکی اُس وقت با ارزش بنتی ہے جب برائی کا امکان موجود ہو؛ پاکدامنی اُس وقت معنی رکھتی ہے جب آلودگی کا راستہ بھی سامنے ہو؛ اور استقامت کی قدر اُس وقت سمجھ آتی ہے جب کوئی وسوسہ انسان کو ڈگمگا سکتا ہو۔

اسی تناظر میں شیطان کا وجود تباہی کے لیے نہیں، بلکہ انسان کے اختیار، امتحان اور روحانی ترقی کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ جیسے ورزش کرنے والا شخص وزن کے ذریعے مضبوط ہوتاہے، ویسے ہی وسوسے انسان کی شخصیت اور ارادے کو مضبوط بناتے ہیں۔

شیطان کسی کو مجبور نہیں کر سکتا؛ اس کا کردار صرف "دعوت" اور "وسوسہ" تک محدود ہے۔ نہ وہ ہاتھ پکڑ کر کسی کو برائی پر مجبور کر سکتا ہے اور نہ کسی کی تقدیر لکھ سکتا ہے۔ انسان عقل، فطرت اور خدا کی ہدایت سے لیس ہے، اور چاہے تو آسانی سے ان وسوسوں پر غالب آ سکتا ہے۔

خدا ہر چیز جانتا ہے، مگر اس کا علم انسان کو مجبور نہیں کرتا؛ جیسے کسی ماہر کو معلوم ہو کہ ایک بے احتیاط ڈرائیور آگے جا کر حادثہ کرے گا، تو اس کا علم ڈرائیور کو مجبور نہیں کرتا فیصلہ ڈرائیور کا ہی ہوتا ہے۔آخرکار، شیطان کے وجود کی حکمت واضح ہو جاتی ہے: نہ شر پھیلانا مقصد تھا، نہ تباہی، بلکہ انسان کے اختیار، امتحان اور شعوری بندگی کو ظاہر کرنا۔ اگر وسوسہ نہ ہوتا تو تقویٰ بے معنی رہتا؛ اگر خطا کا امکان نہ ہوتا تو شعوری عبادت پیدا نہ ہوتی؛ اور اگر تاریکی نہ ہوتی تو نور کی قدر نہ سمجھ آتی۔

خدا نے شر کو نہیں، بلکہ آزادی کو پیدا کیا ہے؛ اور اسی آزادی میں خیر اور شر دونوں راستے موجود ہیں۔ انسان اپنے انتخاب سے ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرتا ہے۔ یوں شیطان کا وجود خدا کے اُس بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس میں انسان کی رشد، کمال اور اختیار کی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha