منگل 16 ستمبر 2025 - 16:22
کیا آپ کا ایمان آپ کی جائے پیدائش کا نتیجہ ہے؟

حوزہ/ دنیا کے کسی بھی کونے میں زندگی انسان کو ایک پس منظر فراہم کرتی ہے، لیکن اصل راستہ صرف ماحول سے طے نہیں ہوتا۔ آخرکار انسان کی سوچنے اور انتخاب کرنے کی قوت ہی اس کا حقیقی راستہ متعین کرتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I اکثر لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر انسان اپنے خاندان اور ملک کو خود نہیں چنتا، تو کیا اس کا ایمان اور عقیدہ بھی زبردستی اسی کے مطابق طے ہو جاتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ پیدائش کی جگہ صرف ایک ابتدائی پس منظر فراہم کرتی ہے، لیکن اصل راستہ انسان کے شعوری فیصلے اور انتخاب سے بنتا ہے۔

انسان اپنی جائے پیدائش اور خاندانی ماحول کو خود نہیں چنتا، یہ درست ہے۔ لیکن یہ حقیقت کسی بھی طرح انسان کو مجبور نہیں کرتی کہ وہ عقیدے میں بھی جبر کا شکار ہو۔ دین اور فلسفے کی منطق یہ ہے کہ ماحول ایک اثرانداز عامل تو ہے، لیکن ایمان کے تعین میں واحد اور قطعی شرط نہیں۔

انسان کو وراثت اور ماحول کے ساتھ ساتھ عقل اور اختیار بھی عطا ہوا ہے۔ یہی عقل اور اختیار انسان کو ذمہ دار اور مکلف بناتے ہیں۔ اس لیے ماحول صرف "زمینہ" فراہم کرتا ہے، لیکن "سرنوشت قطعی" نہیں لکھ دیتا۔ اصل فیصلہ انسان کی تلاشِ حقیقت اور اس کا اپنا انتخاب ہے۔

ماحول اور انتخاب کا فرق

ماحول یقیناً اثر ڈالتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی یہودی، مسیحی یا لامذہب گھرانے میں پیدا ہو، تو ابتدا میں وہ انہی تعلیمات کو قبول کرے گا۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان میں سوال کرنے اور انتخاب کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بار بار غور و فکر اور عقل استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہے: «أَفَلا یَعْقِلُونَ؟» کیا یہ عقل سے کام نہیں لیتے؟

یعنی خدا کی حجت صرف ماحول نہیں، بلکہ عقل بھی ہے۔

ذمہ داری اور آگاہی

عدلِ الٰہی کے مطابق ہر انسان اپنی شعور اور حالات کے مطابق ذمہ دار ہے۔ اگر کوئی ایسے ماحول میں پرورش پائے جہاں سچائی بالکل چھپی ہوئی ہو اور اس تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہ ہو، تو خدا بھی اسے اسی حد تک جواب دہ ٹھہرائے گا۔

لیکن اگر کبھی اس کے سامنے حق کی نشانی آئے، کوئی بات یا دلیل سننے کو ملے اور پھر بھی وہ بے پروائی کرے، تو اس پر ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے۔ چنانچہ خدا کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا: «لا یُکَلِّفُ اللّهُ نَفسًا إِلا وُسعَها»

تاریخی مثالیں

سلمان فارسی زرتشتی گھرانے میں اور اسلام سے دور علاقے میں پیدا ہوئے، لیکن تلاشِ حقیقت نے انہیں حق کے راستے تک پہنچا دیا۔

اس کے برعکس، ابولہب نبی اکرمؐ کے گھر کے قریب، ماحولِ اسلام کے اندر تھا، لیکن ضد اور دنیا پرستی کی وجہ سے باطل کا انتخاب کیا۔

یہ مثالیں آج بھی دہرائی جا رہی ہیں: کچھ لوگ سخت ترین حالات میں بھی حق کی جستجو کرتے ہیں، اور کچھ بہترین ماحول کے باوجود غافل رہتے ہیں۔

اسی طرح آج فلسطین کے مسئلے پر دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک جیسے امریکہ، فرانس اور برطانیہ میں ایسے لوگ ہیں جو مسلمان نہیں، لیکن اپنے ضمیر اور عقل سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انہیں اسرائیلی ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ وہ نوکری کھونے یا یونیورسٹی سے نکالے جانے جیسے خطرات بھی برداشت کرتے ہیں، لیکن حق پر قائم رہتے ہیں۔

دوسری طرف بعض مسلمان ملکوں میں ایسے لوگ ہیں جنہیں بچپن سے ہی مظلوم کی حمایت کا درس دیا گیا، لیکن وہ یا تو خاموش ہیں یا پھر ظلم کا جواز پیش کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ ماحول اکیلا فیصلہ کن نہیں، بلکہ اصل چیز انسان کا اپنا انتخاب ہے۔

وضاحت

فرض کریں ایک ہی یونیورسٹی میں دو طلبہ پڑھتے ہیں:

ایک مشکل شعبے میں کم وسائل کے باوجود محنت سے کامیاب ہو جاتا ہے۔

دوسرا بہترین وسائل اور اساتذہ کے باوجود سستی سے پیچھے رہ جاتا ہے۔

دونوں کا ماحول مختلف اثرات ڈال سکتا ہے، لیکن اصل فیصلہ ان کی اپنی کوشش اور ارادے کا تھا۔

اسی طرح بعض بچے بدکردار گھرانوں میں پرورش پا کر نیک بن جاتے ہیں، جبکہ کچھ مذہبی یا تعلیم یافتہ خاندانوں میں پیدا ہو کر بگڑ جاتے ہیں۔

مختلف ماحول کا فلسفہ

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ماحول اتنا اثرانداز ہوتا ہے، تو خدا نے سب کو مومن خاندان میں کیوں پیدا نہیں کیا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ اور امتحان تبھی معنی رکھتا ہے جب حالات مختلف ہوں۔ عدلِ الٰہی یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کے اپنے حالات کے حساب سے پرکھا جائے۔

جیسے ایک استاد طلبہ کو مختلف سوالات دیتا ہے، لیکن نمبر اسی حساب سے دیتا ہے کہ کس کو کتنا مشکل سوال ملا تھا۔

آخرالزمان کی مثال

روایات کے مطابق جب امام مہدیؑ ظہور کریں گے:

کچھ لوگ جو ظاہری طور پر مسلمان، عبادت گزار اور عالم ہوں گے، امام کے مقابلے میں کھڑے ہو جائیں گے۔

جبکہ کچھ کفار یا غافل افراد حق کو دیکھ کر اپنی راہ بدل لیں گے اور امام کے مددگار بن جائیں گے۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصل فیصلہ ماحول نہیں بلکہ انسان کا اپنا انتخاب ہے۔

نتیجہ

پس چاہے کوئی اسرائیل میں پیدا ہو یا ایران، یورپ یا کہیں اور، یہ اس کی تقدیر کو جبراً طے نہیں کرتا۔ ماحول راستے کو آسان یا مشکل بنا سکتا ہے، لیکن فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہے۔

خاندان، معاشرہ اور میڈیا اہم ہیں، مگر سب سے بڑھ کر انسان کا اپنا انتخاب ہے۔ خدا ہر شخص کو اسی پیمانے پر پرکھتا ہے جو اس کے حالات اور صلاحیت کے مطابق ہو۔

لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ "میں فلاں جگہ پیدا ہوا، اس لیے میں سچائی تک نہیں پہنچ سکتا تھا"۔ کیونکہ انہی جگہوں پر ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے حقیقت تلاش کی اور اسے پا لیا۔

خدا کا وعدہ ہے: «وَالَّذینَ جاهَدوا فینا لَنَهدِیَنَّهُم سُبُلَنا»

جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم لازماً ان کے لیے اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔ یعنی، محیط اور پس منظر راستہ بنا سکتے ہیں، لیکن انجام اور سرنوشت انسان کے اپنے انتخاب سے طے ہوتے ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha