حوزہ نیوز ایجنسی I مرحوم آیت اللہ خوشوقت نے اپنے ایک درسِ اخلاق میں "الہی امتحانات کا طریقہ" بیان فرمایا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
أعوذ بالله من الشیطان الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم «وَلَنَبْلُوکُم بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِیبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعونَ».
«اور ہم تمہیں آزمائیں گے کبھی خوف سے، کبھی بھوک سے، کبھی مال، جان اور پھلوں کی کمی سے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ وہ لوگ کہ جب ان پر مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں».
صبر کے بغیر انسان خدا کا محبوب نہیں
امام سجاد علیہ السلام نے جو صفات ایک کامل اور محبوب انسان کے لیے بیان فرمائی ہیں، ان میں سے ایک اہم صفت صبر ہے۔
جس کے اندر صبر نہیں، وہ خدا کا محبوب نہیں ہو سکتا۔صبر نہ ہونے کی وجہ سے انسان کئی غلط کاموں میں پڑ جاتا ہے۔ صبر اور رضا دونوں ساتھ ہونے چاہئیں۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: «الصبر من الإیمان کالرأس من الجسد» "صبر کا ایمان سے وہی رشتہ ہے جو جسم سے سر کا ہوتا ہے۔"
اگر سر نہ ہو تو جسم زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح اگر صبر نہ ہو تو ایمان بھی بے جان ہو جاتا ہے۔
لہٰذا صبر ایسی قوت ہے جو ہر انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہے؛ چاہے وہ مومن ہو یا کافر، امیر ہو یا غریب، زمین پر رہنے والا ہر شخص اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
البتہ لوگوں کے مسائل اور مصیبتیں ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن آزمائش سب کو آتی ہے۔
صبر کے بغیر مقامِ الٰہی نہیں ملتا
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اکرم ﷺ کو فرمایا: "صبر کرو، لیکن یاد رکھو کہ صبر کی طاقت جو تمہارے پاس ہے، وہ اللہ ہی نے دی ہے" (وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ إِلَّا بِاللَّهِ).
جو لوگ سماج میں رہ کر دوسروں کی رہنمائی کرتے ہیں، انہیں زیادہ صبر کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ وہ زیادہ مشکلات اور اعتراضات کا سامنا کرتے ہیں۔
انبیاء اور اوصیاء کو اسی لیے ایمانِ قوی عطا ہوا کہ وہ زیادہ صبر کے ساتھ امتحانات برداشت کر سکیں۔
اللہ نے فرمایا: «إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلَائِکَةُ» "بے شک جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ثابت قدم رہتے ہیں، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ ڈرو نہیں، غم نہ کھاؤ، تمہیں جنت کی بشارت ہے۔"
اگر صبر نہ ہو تو استقامت ممکن نہیں۔ زبان سے تو کہا جا سکتا ہے کہ "ہم اللہ کو مانتے ہیں"، مگر جب دل چاہے تب مانیں اور جب نہ چاہے تب بھلا دیں، یہ ایمان نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا ہر جگہ ہے: خوشی میں بھی، غمی میں بھی، دولت میں بھی، تنگدستی میں بھی، صحت میں بھی، بیماری میں بھی۔
یہ سوچ غلط ہے کہ جب مال ہو تو خدا ہے اور جب غریب ہو جاؤ تو خدا نہیں۔ خدا ہر حال میں موجود ہے۔
صبر: کافر، مومن، امیر اور غریب سب کے لیے ضروری ہے
مشکلات زندگی میں آتی رہتی ہیں۔ ایمان کی وجہ سے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان حرام کام یا ناجائز روزگار قبول نہیں کرتا۔ لیکن اس کے نتیجے میں وقتی طور پر آمدنی کم ہو جاتی ہے۔ ایسے وقت میں صبر ضروری ہے۔ یہ درست نہیں کہ جیسے ہی آمدنی کم ہوئی، فوراً حرام کام کی طرف بڑھ جائے تاکہ زیادہ پیسہ حاصل ہو۔
اگر کوئی ایسا کرے تو گویا اس کا ایمان یہ ہے کہ جب مال ہو تو خدا ہے، اور جب فقر ہو تو خدا نہیں! حالانکہ خدا ہر حال میں موجود ہے۔
اسی لیے امتحان آتا ہے۔ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ کبھی مال، فقر میں بدل جاتا ہے، کبھی فقر، مال میں۔ لیکن ہر حالت میں خدا پر ایمان ہونا ضروری ہے۔ انسان کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جو کام خدا نے منع کیا ہے، اسے ہرگز نہ کرے۔ یہی استقامت ہے اور استقامت کے لیے صبر ضروری ہے۔
خوف کا امتحان
اللہ تعالیٰ بندوں کو مختلف چیزوں سے آزماتا ہے، ان میں سے ایک "خوف" ہے۔ انسان ایسے حالات میں پڑتا ہے جہاں خوف غالب آتا ہے۔
بعض لوگ خوف کی وجہ سے غلط باتیں کہتے اور ایمان سے دور ہو جاتے، لیکن جو صبر کرتے، وہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے۔
انسان کو ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، چاہے خوف ہو۔ یہی اصل امتحان ہے۔ اور بہت سے لوگ اس امتحان میں کامیاب ہوئے، صبر کیا، استقامت دکھائی اور غلط راستے کی طرف نہیں گئے۔
بھوک اور مہنگائی کا امتحان
دوسرا بڑا امتحان "بھوک، قحط اور مہنگائی" ہے۔ ایسے وقت میں اکثر لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں۔ بعض لوگ پیٹ بھرنے کے لیے حرام کھانے پر تیار ہو جاتے ہیں، ظلم کرتے ہیں، دوسروں کا حق چھین لیتے ہیں۔ یہ سب ایمان اور صبر کی کمزوری ہے۔
اگر خدا پر یقین ہو تو انسان جانتا ہے کہ روزی کا حلال راستہ ضرور ہے۔ بس حلال کام کرنا چاہیے اور غلط بیانی یا ظلم سے بچنا چاہیے۔
کبھی امتحان اس وقت آتا ہے جب کوئی عزیز دنیا سے چلا جائے۔ بعض لوگ اس وقت خدا پر اعتراض کرتے ہیں: "یا رب! میرا بیٹا کیوں لے لیا؟" لیکن صبر کرنے والا کہتا ہے: یہ سب خدا کے فیصلے ہیں اور ہمیں اس دن کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ موت بھی ایک قدرتی حقیقت ہے، جیسے باقی حالات آتے ہیں۔
نعمتوں کا امتحان
کبھی اللہ نعمتوں میں بھی امتحان لیتا ہے۔ مثال کے طور پر کھیتی میں سردی یا اولے لگنے سے ساری فصل برباد ہو جاتی ہے۔ ایسے وقت میں صبر کرنے والا کہتا ہے: یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ لیکن جو بے صبر ہو، وہ خدا سے ناراض ہو جاتا ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے: «یعبدون الله علی حرف»"وہ اللہ کی عبادت ایک ہی طرف سے کرتے ہیں۔" یعنی جب حالات اچھے ہوں تو کہتے ہیں خدا ہے، لیکن جب مشکل آئے تو خدا کو بھول جاتے ہیں۔
دنیا میں ہمیشہ مشکلات اور آزمائشیں رہیں گی۔ اگر ہم صبر نہ کریں تو شیطان ہمیں سیدھے راستے سے ہٹا دیتا ہے۔ لیکن اگر صبر کریں تو تقویٰ اور ایمان باقی رہتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اللہ کی مدد سے ہمیشہ صبر کا سہارا لیں، تقویٰ پر قائم رہیں، اور اپنی زندگی اس طرح گزاریں کہ ہم بھی راضی ہوں اور خدا بھی راضی ہو۔









آپ کا تبصرہ