حوزہ نیوز ایجنسیl
جمع و ترتیب: سیدہ نازیہ علی نقوی
استاد: حجۃ الاسلام والمسلمین علی سرور صاحب زید عزہ
عقل ،حیا ،محبت،ادب یہ وہ چیزیں ہیں جو انسانی زندگی کا زیور ہیں، ان چیزوں میں سب سے اہم جو چیز ہے اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے وہ عقل ہے اگر عقل نہیں ہے تو ان تینوں کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے ۔
عقل:جو دو اچھایئوں میں سے بہتر کو دو برائیاں میں سے کمتر کوتشخیص دے سکے اور فیصلہ کرے،جسکے پاس عقل نہیں اسکے اوپر تکلیف ساقط ہے کوئی ذمہ داری نہیں اگر انسان دوسرے دن ترقی محسوس نہ کرے تو وہ خسارے میں ہے جو اپنے نفس میں ترقی محسوس نہیں کررہا ہے اسکا دنیا سے چلا جانا بہتر ہے ۔
عاقل وہ ہے جسکی ترقی جاری و ساری ہے، مردہ وہ ہے جسکی ترقی رک چکی ہو، عربی زبان میں اسے احمق سے یاد کیا جاتا ہے۔
حیا:حیاکلِّ دین ،پاکدامنی ،عفت ،جو مردوں و خواتین دونوں میں ہونا چاہیے۔
احادیث میں ہے کہ جسکے پاس حیا نہ ہو اسکےپاس ایمان نہیں ہے۔ایمان اور حیا دونوں ایک ساتھ رہنے والی چیزیں ہیں۔
اگر ان میں سے ایک بھی چلی جائے دوسرا خود بخود چلی جائے گی، عفت اور پاکدامنی کا سبب ہے کہ انسان کے اندر جتنی حیا ہوگی اتنی پاکدامنی بھی ہوگی ۔زیادہ عقلمند شخص وہ ہے جو جتنا باحیا ہے ، عقلمند ترین وہ ہوگا جو زیادہ حیا رکھتا ہوگا۔
حُب(محبت): دین محبت کا نام ہے، محبت دین کا نام ہے، رسول اللہﷺ سے ایک شخص محبت کرتا تھا تو رسول اللہ ﷺنے کہا یہ جنتی ہے کیونکہ جو جس سے محبت کرے گا اس کے ساتھ محشور کیا جائے گا ۔ایک بے نمازی نے رسول خداﷺ سے کہا کہ میں نمازی سے محبت کرتا ہوں خود نماز نہیں پڑھتا فرمایا، تم اس کے ساتھ محشور کئے جاؤ گے ۔محبت میں سب سے بہترین محبت وہ ہےجو کوئی شخص اللہ کے لیے کسی سے محبت کرتا ہے اور خدا کے لئے کسی سے بغض رکھتا ہے تو خدا کے نزدیک یہ وہ شخص ہے جس کا ایمان کامل ہے ۔ صرف محبت کافی نہیں ہے بلکہ اعضا جوارح سے اس کا اظہار کرنا ضروری ہے۔نماز صدقہ ساری چیزیں انسان کے لیے ہے یعنی اس کا فائدہ خود انسان کو پہنچے گالیکن روزہ خدا کے لیے ہے۔
امام محمد باقر فرماتے ہیں اگر تم چاہتے ہو کہ دیکھو تمھارے اندر کوئی خوبی پائی جارہی ہےیا نہیں تو تم اپنے دل کی طرف دیکھو تم اطاعت خدا کو پسند کرتے ہو اور اہل معصیت کو برا سمجھتے ہو تو تمھارے اندر خیر موجود ہے تو اللہ تمھیں پسند کرتا ہے ۔ امام علی فرماتے ہیں :اگر ہم اچھائی کو اچھا سمجھتے ہیں تو ہم مؤمن ہیں اور ہمیں شفاعت مل سکتی ہے ۔انسان اگر مخلوق کو غلط راستے سے ہٹا کے اچھے راستے پر لائےتو خداوند لوح محفوظ میں اسکا نام لکھتا ہے ۔جو غلط راستے پر چلا گیا ہو اسکو صحیح راستہ پر لانا خدا کو بہت پسند ہے تاکہ ہمارا نام لوح محفوظ میں حمید ہو ۔
ایک شخص امام حسین کے پاس آتا ہے شادی کے سلسلے میں امام ؑنے فرمایا :تم اسے پسند کررہے ہو کہ نہیں ،عقل ہے کہ نہیں ،ادب ہے کہ نہیں۔اگر تینوں چیز موجود ہے زندگی خوشگوار گزرےگی لیکن اگر پسند ہے عقل ہے ادب نہیں ہے تو بھی شادی کرلو کیونکہ عقل کہ ذریعہ ترقی ہوسکتی ہے ۔ اگر پسند ہے اور عقل و ادب نہیں ہے تو بھی شادی کرلو زندگی اچھی گذرےگی لیکن ترقی نہیں ہوگی کیونکہ پسند ہے۔
پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا :کیا میں تمہیں خبر دوں ایسی قوم کے بارے میں جو شہداء بھی نہیں ہے لیکن ان کے مراتب قیامت کے دن خدا کے نزدیک کچھ یوں ہوں گے کہ انھیں نور کے منبر عطا ہوں گے جسے لوگ دیکھ کر رشک کریں گے غبطہ کھائیں گے اور کہیں گے اے کاش ہمیں بھی یہ مرتبہ ملتا ۔لوگوں نے سوال کیا وہ لوگ کون ہیں ، فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو بندگان خدا کو اللہ سے محبت کرنا سکھاتے تھے لوگوں کو امر کرتے ہیں ہر اس چیز کا جسکو خدا پسند کرتا ہے اور ان چیزوں سے روکتے ہیں جن سے خدا وند کراہت کرتا ہے جب لوگ ان باتوں کی پیروی کرتے ہیں تو اللہ بھی ان سے محبت کرنے لگتا ہے یہ مرتبہ اس سے بڑھکر ہے جس طرح تمہیں اپنی کھوئی ہوئی چیز ملنے پر خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے بھی جب کھویا ہوا گمراہ بندہ صحیح راستے پر آجاتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔
حضرت موسیؑ دعا کررہے تھے کہا خداوندا میں نے تجھے ہر نام سے پکارا تو نے ایک بار لبیک کہا لیکن جب گنہگار بندے کے بطور تجھے پکارا تو تونے نے 2بار لبیک کہا وجہ ؟
خدا فرماتا ہے میرا ایک بندۂ مؤمن جب میرے پاس آتا ہے تو اسکے پاس کچھ امیدیں ہوتی ہیں کچھ خوبیاں ہوتی ہیں لیکن جب گنہگار بندہ میرے پاس آتا ہے تو اسکے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ حسرت سے آرہا ہوتا ہے تو میں اسے 2 دفعہ لبیک کہتا ہوں تمھارے آنے سے مجھے جتنی خوشی ہورہی ہے شاید تمہیں انداذہ بھی نہیں ہے ۔
اگر آپ نے ایک انسان کو زندہ کردیا تو آپ نے پوری انسانیت کو زندہ کردیا ۔
خدا نے انسان کو حق پر پیدا کیا ہے فطرت اصلی پر پیدا کیا ہے لیکن معاشرہ یا باہر کے عوامل ہمیں اپنی فطرت سے ہٹا دیتے ہیں۔
انسان کی قیمت یہ ہے کہ وہ اپنی چیز کو کتنے احسن طریقے سے پیش کرتا ہے جتنا بڑا ہدف ہوگا جتنی بڑی فکر ہوگی جتنا اچھے انداز سے چیز کو پیش کرنا ہوگا جتنا با ادب ہوگا وہ انسان کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔
ادب:جسکی ہمت جتنی با شرف ہوگی اسکی قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی جسکی ہمت کم ہوگی فضیلت بھی اتنی ہی کم ہوگی یعنی جتنا انسان با ادب ہوگا اسکی قیمت اتنی زیادہ ہوگی جتنا بے ادب ہوگا اپنی قیمت کو اتنا ہی گراتا چلا جائے گا ۔
اے مومن یہ ادب تمھارے نفس کی قیمت ہے اسکو تعلیم دینے میں آراستہ دینے کی کوشش کرو جتنا تمھارے علم میں اضافہ ہوگا اتنا ہی تمھاری قدروقیمت میں اضافہ کا سبب بنے گا ۔
انسان کی اصل بنیاد، انسان کی قدرو منزلت اسکے ادب کی وجہ سے ہے عقل میں ہم محنت نہیں کرسکتے یہ جڑ ہے ۔لیکن ادب میں ہم محنت کرسکتے ہیں کوشش کرسکتے ہیں جس سے ہم سے سوال کیا جائے گا ۔
انسان کی قدرو منزلت اس کے ادب کی بنا پر ہے ادب ہماری زندگی میں بہت ضروری ہے۔