۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
عائلی زندگی میں اخلاق و ادب کا کردار

حوزہ/استحکام ادب کے ذریعے سے ہے یعنی تم نے اپنے کام کو کتنے اچھے طریقہ سے انجام دیا یہی تمہارا حسن ہے یہی تمہاری قیمت ہے دنیا اور آخرت میں۔ جتنا زیادہ ہوگا تمہارا علم اور جتنا زیادہ ہوگا تمہارا ادب تمہاری قیمت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا ۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

نگارش: سیدہ نازیہ علی نقوی

استاد: حجۃ الاسلام والمسلمین علی سرور صاحب زید عزہ

انسان کی قیمت اسکا وجود نہیں ہے اسکی استعداد نہیں ہے بلکہ انسان جتنا اپنے استعداد اور وجود سے جتنا فایدہ اٹھاتا ہے وہ اسکی قیمت ہے اوراسی کا نام ادب ہے اس دنیا میں کوئی ملکہ ہے کوئی غلام ہے کوئی نوکر ہے لیکن انعام اسے ملے گا جو اپنا کام اچھے سے انجام دے رہا ہو ہمیں بھی خداوند عالم نے اس دنیا میں بھیجا ہے ہر ایک کے اندر مختلف صلاحیتیں دی ہیں کوئی پیسہ والا ہے کوئی فقیرہے کوئی خوبصورت ہے کوئی ظاہری لحاظ سے بدصورت ہے کوئی سالم اعضا رکھتا ہے کسی کے اعضاء ناقص ہیں کسی کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے کسی کو نہیں ان تمام چیزوں پر حساب کتاب نہیں ہے حساب کتاب اس پر ہے کہ خدا نے جو صلاحیتیں دی ہیں ہم نے اس سے اپنے لیے اور معاشرے کو کیا نتیجہ دیا یہ ہماری قیمت ہے اب یہ کہنا پیسہ نہیں ماحول نہیں ملا یا ہم مجبور تھے بچے زیادہ تھے یا شوہر اچھا نہیں تھا یہ سب تمام چیزیں بہانہ ہیں اصل چیز خدا نے جو تمہیں اصل موقع دیا ہے اس سے آپ نے کیا موقع اٹھایا قرآن مجید میں ارشاد ہورہا ہے ایّکم احسنُ عملا کون اپنے عمل کو احسن طریقے سے انجام دیتا ہے انسان کی قیمت وہی ہے جو انسان کام کو اچھے طریقہ سے انجام دیتا ہے ایک آدمی بہت سے کام کرتا ہے کوئی معیاری نہیں ہے کام کرنا انسان کی قیمت نہیں ہے بلکہ جس کام کو انجام دے رہے ہیں اسکو احسن طریقے سے انجام دیں۔ا ایک آدمی بہت سا کام کرتا ہے لیکن کوئی معیاری نہیں لیکن ایک آدمی معیاری طریقے سے کام کو انجام دیتا ہے وہ اسکی قیمت ہے ۔انسان کی جتنی ہمت ہوگی اتنی اسکی قدرو منزلت ہوتی ہے ۔ تمہارا استحکام ادب کے ذریعے سے ہے یعنی تم نے اپنے کام کو کتنے اچھے طریقہ سے انجام دیا یہی تمہارا حسن ہے یہی تمہاری قیمت ہے دنیا اور آخرت میں۔ جتنا زیادہ ہوگا تمہارا علم اور جتنا زیادہ ہوگا تمہارا ادب تمہاری قیمت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔علم ایک میراثِ کریمانہ ہے اورادب جو اسکے اوپر لباس ہے کبھی پرانے نہیں ہوتے ہمیشہ نکھار آتے رہتے ہیں آپ ہر روز اسمیں ترقی کرسکتے ہیں ۔خدا وند عالم نے جو استعداد دی ہے جو عقل دی ہے اس پر شکر کریں اسکو زیادہ کرنیکی کوشش نہ کریں بلکہ اسکو سنوارنے کی کوشش کریں ادب کے ذریعے تو عقل بھی بہتر ہوجائے گی اپنی عقل کو زیادہ کرنیکی کوشش نہ کریں بلکہ ان میں نکھار لانے کی کوشش کریں جسکو ہم ادب کہتے ہیں۔جب ہم عقل اور ادب کو دیکھتے ہیں تو ہمارے پاس روایت ہے عقل اگر مجسم ہوتی ہے تو ادب بن کے آتی ہے ۔ ہر چیز محتاج ہے عقل کی لیکن خود عقل محتاج ہے ادب کی ۔اس کے پاس کوئی ادب نہیں جس کے پاس عقل نہیں یعنی عقل ریشہ ہے اور اس پر جو نکھار آرہا ہے وہ ادب ہے وہ چیز جو آپ دوسروں میں پسند نہیں کرتے خود بھی اجتناب کریں ۔جو چیز اپنے لیے پسند کرتے ہوں وہی دوسروں کے لیے پسند کریں یہ ہے ابتدائے ادب ۔ افضل ترین ادب وہ ہے کہ اپنی تربیت کا آغازاپنی ذات سے شروع کریں جوادب اپنی ذات سے شروع ہوگاوہ افضل ہے اپنے نفس کو کنٹرول کرنا ان چیزوں سے جس میں انسان کو رغبت ہوتی ہےیا وہ چیز جن سے انسان دور بھاگتا ہے اگر انسان کنٹرول کرتا ہے تو یہ افضل ترین ادب ہے افضل ترین ادب یعنی ہم اپنی ذمہ داری اور نفس کی طرف توجہ دیں اور نفس پہ کنٹرول کریں اسی کو جہاد اکبر کہتے ہیں نفس کو روکنا ضروری ہےاشجاع ترین انسان وہ ہے جو اپنے نفس پر کنٹرول کرتا ہے اپنے نفس کی تہذیب میں جو انسان مشغول رہتا ہے ہے یہ بہترین کام ہے قوی ترین انسان وہ نہیں ہے جو دوسروں کو مغلوب کرلیتا ہے بلکہ قوی ترین انسان وہ ہے جو اپنے نفس پر کنٹرول حاصل کرتا ہے جو انسان اپنی خواہشات نفسانی پر کنٹرول کرلیتا ہے وہ شجاع ترین شخص ہوگا حضرت علیؑ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہے دوسروں کے لئے رہنما بنے تو اسکو چاہئےپہلے اپن نفس پرکام کرے ۔ لوگوں کو زبان کے ذریعے سے ادب سکھانے سے بہتر ہے کہ اپنے کردار سے تعلیم دے،وہ شخص جو اپنے نفس کی تربیت کررہا ہے وہ کئی گنا بہتر ہے اس شخص سے جو لوگوں کی رہنمائی کرنا چاہ رہا ہے ۔امام حسینؑ اپنے ہی باغ میں گئے آپ نے اپنے غلام صافی کو دیکھا وہ بیٹھا ہوا کھانا کھا رہا ہے اسی کے ساتھ ایک کتا بیٹھا ہوا ہے آدھی خود کھا رہا ہے آدھی کتے کو دے رہا ہے امام حسین ؑ خاموشی سے دیکھتے رہے تاکہ اسے احساس نہ ہو جب وہ اس کام سے فارغ ہوگیا امام حسین ؑ آگے بڑھے اس نے کہا مولا معاف کیجے گا میں آپ کو دیکھ نہیں پایا احترام کے لیے آگے نہیں بٹرھ سکا ۔امام نے کیا جملہ فرمایا اے صافی مجھے معاف کرنا میں تمہارے باغ میں تمہاری اجازت کے بغیر داخل ہوگیا جبکہ باغ امام کا ہی تھا اس نے کہا مولا یہ آپ کا فضل و کرم ہے ورنہ میری حیثیت کچھ بھی نہیں ہے امام نے فرمایا یہ تم کیا کھا رہے تھے ایک لقمہ خود ایک لقمہ کتے کو دے رہے تھے اس نے کہا یہ کتا ہے یہ میری طرف دیکھ رہا تھا جب میں کھانا کھا رہا تھا مجھے اس سے حیا محسوس ہوئی میں نے سوچا یہ بھی آپ کے باغ کی رکھوالی کرہا ہے تو میں نے سوچا میں آپ کا غلام یہ بھی آپ کا غلام ہے ہم دونوں غلاموں نے ملکر آپ کا ہی رزق کھایا ہے ۔

کتنے با ادب طریقے سے اپنی چیز کو پیش کررہا ہے ۔ یہ وہ شخص ہے جس نے امام حسینؑ کو رونے پر مجبور کردیا امام رونے لگے اور فرمایا تم راہ خدا میں آزاد ہواور دو لاکھ دینار عطا فرمایا۔ اس نے کہا اگر آپ نے مجھے آزاد کردیا ہے اور میں آزاد انسان بن گیا ہوں تو بھی میں یہی چاہتا ہوں اس باغ میں آپ کا غلام بن کر رہوں ۔ امام حسین ؑ نے فرمایا اگر کوئی بات کرے تو اپنی بات پر قائم رہے اور اپنے عمل سے تصدیق کرے ۔جب میں داخل ہوا تھا میں نے تم سے کہا تھا کہ میں تمھارے باغ میں داخل ہوا ہوں تمہاری اجازت کے بغیر میں نے کہہ دیا تو تمہارا باغ ہے آزاد بھی کردیا باغ بھی دیدیا میں اپنے قول کی خود تصدیق کرتا ہوں باغ کواور جو کچھ ہے باغ میں تمہیں ہدیہ دیتا ہوں بس تم سے ایک گذارش ہے کہ میرے کچھ دوست آئیں گے تاکہ کھجور پھل کھا سکیں۔ میرے مہمان کو اپنا مہمان سمجھنا میری خاطر میرے مہمان کا اکرام کرو خدا تمہارا اکرام کرےگا قیامت کے دن ۔ یہی چیز ہمیں سکھا رہی ہے امام حسین ؑ نے کربلا کی زمین خریدا اورپیسہ واپس کردیا اور فرمایا یہاں پر میرے مہمان آنے والےہونگے۔ تم لوگ ا ن کی مہمان نوازی کرنا تین دن تک کی مہمان نوازی کا انتظام کرکے جارہے ہیں کھانے پانی کا انتطام کرکے جارہے ہیں ۔

اب یہاں ہمیں ادب سمجھ میں آتا ہے ۔آداب کسے کہتے ہیں ۔ایک شخص امام حسین ؑ کے پاس آیا اور اس نے سوال کرنا چاہا سوال کرنے کا انداز دیکھیے کیا ہے میں نے آپ کے نانا سے سنا ہے جب تم کسی سے کوئی چیز طلب کرو تو چار طرح کے افراد سے مانگنا :1:وہ عربی شریف ہو ۔2:کریم ہو مولا ہو ۔3:حامل قرآن ہو۔4:یا اسکا چہرہ روشن ہو ۔

عرب کو شرافت آپ کے جد نے دی ہے کرم آپ کا دستور عمل ہے قرآن آپ کے گھر میں نازل ہوا ہے اور جسکا روشن چہرہ ہو میں نے پیغمبر ﷺ سے سنا کہ پیغمبرﷺ نے فرمایا اگر تم مجھے دیکھنا چاہ رہے ہو میری زیارت کرنا چاہ رہے ہو حسن ؑ اور حسین ؑ کی زیارت کرلیا کرو اس سے بہتر کون سا چہرہ ہو سکتا ہے جو شبیہ پیغمبر ﷺ ہو ۔ امام حسین ؑ نے فرمایا تمہاری حاجت کیا ہےجو روایت میں آیا ہے اس نے زمین پر لکھا منہ سےنہیں کہا ہے۔ حیا آئی ہے اسکو شرم محسوس ہوئی ہے اس نے اپنی حاجت کو اتنے اچھے انداز سے پیش کیا ہے اب امام حسین ؑ چاہتے تو جواب دے دیتے ۔لیکن فرمایا جس طرح اس نے ادب کے ساتھاایک چیز کو پیش کیا ہے اب امام حسینؑ بھی اسی انداز سے جواب دے رہے ہیں ۔میں نے اپنے والد سے سنا ہر انسان کی قیمت وہ ہے جو اسکے اندر حسن پایا جاتا ہے جو جتنا اچھا انداز سے کام کو پیش کرتا ہے وہ اسکی قیمت ہوتی ہے ۔سوال کو بہت اچھے انداز سے پیش کیا ۔میں نے اپنے نانا سے سنا اگر کسی کی مدد بھی کرنا ہے تو اسکی معرفت کے مطابق کرنا کہ اس میں کتنی معرفت پائی جاتی ہے ۔میں تمہاری معرفت کا امتحان لینے کے لئے کچھ سوال کروں گا ۔اگر تم نے ایک سوال کا جواب دیا تو ایک سو اور اگر دو سوال کا جواب دیا تو دو سو اور اگر تین سوال کا جواب دے دیا تو سب حاجت پوری کردوں گا ۔اس نے کہاآپ سوال کیجیئے قوت اللہ کے ہاتھ میں ہے مجھے معلوم ہوا تو جواب دے دوں گا اور اگر نہیں معلوم ہوا تو آپ سے پوچھ کے استفادہ کرلوں گا دیکھیے ادب کا خیال رکھا ۔ اچھے انداز سے جواب دیا ۔

امام نے سوال کیا 1: سب سے بہترین عمل کون سی چیز ہے ؟اس نے کہااللہ پرایمان لانا بہت اچھی چیز ہے 2: کون سی چیز انسان کو ہلاکت سے نجات دیتی ہے؟اس نے کہاخدا پریقین رکھنا ۔3:کس چیز سے انسان کو زینت ہوتی ہے؟اس نے کہا ایسا علم ہونا چاہیے جس کے ساتھ حلم و تحمل بھی ہو۔ عربی زبان میں جاہلو ں کوتحمل کرنے کو حلم کہتے ہیں پٹرھے لکھوں کو تحمل کرنے کو اخلاق کہتے ہیں ۔امام نے پوچھا فرض کیجے اگر یہ چیز نہ مل سکے تو کیا کرنا چاہیے کہا مال ہو مگر کریمانہ طریقے سے اس کے پاس کرم بھی ہونا چاہیے ۔ کہا اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو فقر ہو جس کے ساتھ صبر بھی ہونا چاہیے ۔ امام نے پوچھا اگر یہ بھی نہ ہو تو اس نے کہا آسمان سے صاعقہ گرے اور اسکو جلا دے۔

اب جب اس نے اس طرح سے سوالات کے جواب دیئے تو امام نے اسکا پورا ہدیہ ادا کردیا اس کے علاوہ اسکو اپنی ایک انگوٹھی بھی اس کو دی ۔ یہاں پر امام حسین ؑ نے تین سوال کیوں کیے ۔امام حسین ؑ نے کس طرح اس کو عطا کیا ۔یہ طریقہ ہے کریم کا کہ اس کی شرمندگی کو بھی مٹا دیتے ہیں ۔ اس نے مؤدب طریقے سے سوال کیا اور امام نے بھی اس کا امتحان لیا اورکہا اگر تم کامیاب ہوگئے تو تمہارا حق تم کو مل جائے گا اور تم اپنا حق لے لینا ۔ تو کوئی بھی استاد شاگرد کو فیل نہیں کرنا چاہتا ہے خدا وند عالم بھی جو ہم سے امتحان لینا چاہتا ہےتو اسکا ہدف ہمیں رسوا کرنا نہیں ہے اسکا ہدف ہمیں ترقی دلانا ہے ۔وہ جو لوگ سمجھتے ہیں وہ لوگ امتحان کا انتظار کرتے ہیں ۔یعنی ہماری عزت کررہا ہے ہمارا احترام کررہا ہے جس کو جناب زینب( س) نے فرمایا خداوند عالم نے جو ہمارا امتحان لیا ہمیں اس پر فخر ہے ما رایت الا جمیلا کہ خدا نے ہمیں اس لائق سمجھا کہ ہم سے یہ امتحان لیا پہلا مرحلہ کہ ہم پریشانی کو پریشانی سمجھتے ہیں اور ناشکری کرتے ہیں اور دین سے نکل جاتے ہیں اپنا نقصان کررہے ہوتے ہیں ۔

ہم صبر و تحمل کرتے ہیں جب ہم صبر کرتے ہیں تو مشکل ہماری آسان ہو جاتی ہے اور جب شکر کی منزل پر آتے ہیں کی خداوند عالم نے ہمیں اس قابل سمجھا ہے کہ ہم سے امتحان لے رہا ہے تو یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب ہم کمال کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں ترقی کی طرف جارہے ہیں تو یہ سب ہمیں ادب سکھا رہا ہوتا ہے ۔ہماری اصل قیمت ادب میں ہے ۔

اگر ہم تقسیم بندی کریں ادب اگر مرد میں دیکھیں گے تو کیسے دیکھیں گے خواتین میں ادب دیکھیں گے تو کیسے دیکھیں گے ۔مردوں میں ان کی نمایاں خصوصیت انکی عقل و تدبیر ہے تو مردوں کا حسن نظر آئے گا ان کی تدبیر اور عقل پر اگر خواتین میں ادب اور سلیقہ دیکھنا چاہیں گے تو وہ ہمیں انکی چیزوں کو پیش کرنے کے اندر ان کے حسن کے اندر ان کے نکھار کے اندر چاہے وہ نکھار انکا اپنا ہو چاہے وہ چیز جسکو پیش کرتی ہیں ۔مردوں کا ادب ظاہر ہوتا ہے انکے تدبیر کے ذریعے سے اور خواتین کا ادب انکے ظاہری سلیقہ کے ذریعے سے جس کو روایت نے دوسرے انداز سے پیش کیا ہے خواتین کی عقل انکے جمال اور حسن میں پائی جاتی ہے اور مردوں کا حسن انکی عقل کے اندر پایا جاتا ہے ۔خواتین کے لئے خوشی کب ہوتی ہے ور مردوں کے لئے خوشی کب ہوتی ہے خواتین کو خوشی اس وقت ہوگی جو چیز آپ نے انکے سامنے پیش کی ہے آپ اس کی تعریف کریں ۔مردوں کی پلانگ اور تدبیر کی اگر تعریف کریں تو انکو خوشی ہوگی ۔نظام کے لحاظ سے جب ایک مرد گھر آتا ہے تو تھکا ہوا ہوتا ہے مشکلات میں ہوتا ہے ذہنی تھکاوٹ میں ہوتا ہے جب گھر میں داخل ہوتا ہے آدھا پاگل ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں خاتون جو گھر میں بچوں کی مصروفیات میں ہوتی ہے آدھی پاگل ہوتی ہے جب شام کو دو دیوانے ملتے ہیں تو انکو لڑائی کرنا چاہیے جنگ کرنا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہوتا ہے اگرآپ وہیں خانم کی تعریف کردیں تو ان کی تھکن دور ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح اگر خانم اور بچوں نے بڑھ کے استقبال کر لیا تو مرد کی ذہنی تھکن دور ہو جاتی ہے اور زندگی بالکل نارمل طریقہ سے شروع ہو جاتی ہے۔

یہاں پر صرف محبت ہونا کافی نہیں ہے توجہ بھی ضروری ہے اور صرف توجہ ضروری نہیں بلکہ اظہار محبت بھی ضروری ہے ۔اگر شوہر نے کہہ دیا ہم تم کو بہت چاہتے ہیں تو یہ چیز کبھی اسکے ذہن سے نہیں نکلتی ہے ۔اسکا بہت اثر ہوتا ہے زن و شوہر پر تو اگر ہم چاہتے ہیں ہماری زندگی خوشگوار گزرے تو خوش اخلاق بنیں ۔اچھے جملہ کا بہت اثر پڑتا ہے کتنا اثر پڑتا ہے اچھے اخلاق کا ۔اگر ہم چاہتے ہیں ہماری گھریلو زندگی خوشگوار گزرے تو کیا صرف آپ پر اسکا اثر پڑتا ہے جانور پر بھی اسکا اثر پڑتا ہے ماحول پر بھی آپ کی بات کا اثر پڑتا ہے یہ انسان کائنات کا نچوڑ ہے اسکی خوشی کائنات میں جاتی ہے اسکا غم کائنات میں جاتا ہے لہٰذا ان نِکات پر اشد توجہ کی ضرورت ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .