۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
تربیت اولاد

حوزہ| بچے بے نظم ہوتے ہیں وہ گھر پھیلاتے ہیں اس میں غصہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اکثر ہمارے بچے خَلّاق کیوں نہیں ہیں کیونکہ ہم بچوں کو ڈسٹرب کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

تقریرِ درس:عالمہ فاضلہ محترمہ رقیہ شہیدی صاحبہ
بقلم: سیده نازیہ علی نقوی

دینی لحاظ سے ہم اپنے بچے کی تربیت کیسے کریں؟ایک ماں اگر اپنے بچے کی اچھی تربیت کرے تو وہ جنت میں لے کر جا سکتی ہے اور اگر اچھی تربیت نہیں کرے تو وہ جہنم بھی لے جاسکتی ہے وہ ماں جو اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتی ہے وہ عظیم ہے اور خدا اس پر درود و سلام بھیجتا ہے ضروری ہے ہم اپنے بچوں کی اچھی سے اچھی تربیت کرے ۔
ہمیں اپنے بچوں کی تربیت زور زبردستی سے نہیں کرنا چاہیے ہمیں اپنے بچوں کی تربیت باغبان کی طرح کرنی چاہیے ۔
بعض بچے "درون گرا" ہوتے ہیں اپنی بات کسی سے بتاتا نہیں چاہتے وہ اپنے اندر رکھے رہتے ہیں اور بہت جلدی کسی کے دوست نہیں بنتے۔جب کہ کچھ بچے "برون گرا" ہوتے ہیں وہ جلدی سے سب کے دوست بن جاتے ہیں۔
تو ہمیں چاہیے سات سال میں اپنے بچوں کی شناخت کریں پہچانیں میرا بچہ کیسا ہے کس طرح کا ہے اسی کے حساب سے اس کی تربیت میں دلچسپی لیں؛اس میں کیا خصوصیت ہے اسی کے حساب سے اپنے بچے کی تربیت کریں پہلے بچے کی شناخت بہت ضروری ہے والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی اچھے سے پہچان کریں "پہلے سات سالوں میں بچہ سید ہے" تو والدین کی کیا ذمہ داری ہے وہ اپنے بچوں کو کیا کرنے دیں زور زبردستی کرنے سے بچے کی صلاحیت دب جاتی ہے ۔
صحیح تربیت کریں زور زبردستی مار پیٹ والی روش کامیاب نہیں ہوئئ فیل ہو گئی اس میں بچوں پر بہت زیادہ فشار تھا "اپنے زمانے میں وہ تم سے بہت آگے ہیں اپنے بچوں کی اپنی طرح تربیت نہ کرو "وہ اپنے زمانے میں تم سے بہت آگے ہیں ۔
جب تک طرفِ مقابل قبول نہ کرے ممکن نہیں ہم تربیت کر سکیں ہم تربیت نہیں کر سکتے ہیں کہ میرا بچہ ڈاکٹر ، انجینیر بنے کیونکہ میرے بچے میں شوق نہیں تو وہ بچہ کبھی بھی ڈاکٹر انجینئر نہیں بن سکتا ہم اپنے حساب سے اپنے بچے کی تربیت نہیں کرسکتے جب تک وہ قبول نہ کریں۔
تربیت قابل اِجرا نہیں ہے فشار میں زبردستی میں کبھی تربیت نہیں ہو سکتی اپنے بچے پرفشار نہ ڈالیں مخصوصا مذہبی گھرانے میں بچے جب تک والدین کے ساتھ ہوتے ہیں بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کو موقع ملتا ہے بہت ہی خراب ہو جاتے ہیں لہٰذا تربیت کرنے میں زور زبردستی نہ کریں ایک چیز ذہن میں ر ہے تربیت فِشار سے ممکن نہیں ہے سات سال آپ کا بچہ سید ہے اس کو آزاد رکھیں سات سال سے لے کر 14 سال تک بچہ نوکر ہے اسکے بعد وہ وزیر ہے 14 سال کے بعد وہ وزیر ہے اس سےمشورہ لیں۔
بچے بے نظم ہوتے ہیں وہ گھر پھیلاتے ہیں اس میں غصہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اکثر ہمارے بچے خَلّاق کیوں نہیں ہیں کیونکہ ہم بچوں کو ڈسٹرب کرتے ہیں بچے کی ذات میں بے نظمی ہے ، ہم اپنے بچوں سے ہمیشہ الجھتے رہتے ہیں ۔
ہمیں اپنے بچوں کی تربیت ایک مالی کی طرح کرنی ہے کسی کوزہ بنانے والے کی طرح نہیں۔شروع کے سات سال۔۔ اچھا کھلاؤ۔ اچھا پہناؤ۔اچھا کھیلنے دو۔والدین کی ذمہ داری ہے ۔(جاری)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .