جمعہ 26 دسمبر 2025 - 05:00
بچوں کے سوالات کا درست جواب کیسے دیا جائے؟ سات مؤثر طریقے

حوزہ/ بچے اپنی فطری جستجو اور تخیل کے ذریعے اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین اگر صبر، احترام اور سادہ و قابلِ فہم طریقے اختیار کریں تو وہ بچوں کے سوالات کا بہترین انداز میں جواب دے سکتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بچوں کی فطری جستجو حیرتوں کی دنیا کا دروازہ ہے۔ والدین اگر شعور، محبت اور دلنشیں زبان کے ساتھ جواب دیں تو وہ اپنے بچوں کے فکری معمار بن سکتے ہیں۔

تمہید

بچوں کا ذہن ایک نوخیز باغ کی مانند ہوتا ہے، جہاں ہر سوال ایک نئی شاخ اگاتا ہے۔ وہ بے پناہ تجسس اور زندہ تخیل کے ساتھ، دنیا میں نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی ہر چیز کے معنی اور وجہ تلاش کرتے ہیں۔

ان کے بظاہر سادہ سوالات اکثر گہری سوچ اور پیچیدہ مفاہیم کو سمجھنے کی جستجو کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ والدین اگر سکون، سچائی اور بچے کے ذہن کے احترام کے ساتھ ان سوالات کا جواب دیں تو وہ اس سفر میں بہترین ساتھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

بچوں کے سوالات سے نمٹنے کے طریقے

۱۔ جواب دینے سے پہلے واقعی سنیں

بعض اوقات بچے سوال اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں فوراً جواب چاہیے، بلکہ اس لیے کہ وہ خود کو محفوظ اور سمجھا ہوا محسوس کرنا چاہتے ہیں۔

اگر بچہ پوچھے: “اگر خدا مہربان ہے تو جنگ کیوں ہوتی ہے؟”

تو فوراً جواب دینے کے بجائے کہیں: “تم نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے، خود تم کیا سوچتے ہو؟”

پھر غور سے سنیں تاکہ اس کی اصل فکر کو سمجھ سکیں۔

۲۔ روزمرہ مثالوں سے بات سمجھائیں

اگر بچہ ویڈیو گیمز یا موبائل گیمز کا شوقین ہے تو مثال دیں: “دیکھا ہے نا، جب گیم خراب ہو جائے تو ایک پروگرامر اسے ٹھیک کرتا ہے؟

اسی طرح اس دنیا کا نظم بھی کسی بنانے والے نے قائم کیا ہے۔ جس طرح گیم کا ایک مقصد ہوتا ہے، زندگی کا بھی ایک مقصد ہے۔”

۳۔ طنز اور تحقیر سے پرہیز کریں

ایسے جملے جیسے: “تم دین کیا سمجھو گے؟” یا “بچوں کو ایسے سوال نہیں پوچھنے چاہئیں”

بچے کو سوال چھپانے اور ضد پر اتر آنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

۴۔ اگر جواب نہ آئے تو ساتھ دیں، ٹالیں نہیں

اگر بچہ پوچھے: “کچھ لوگ بے دین ہوتے ہوئے بھی کامیاب کیوں ہوتے ہیں؟”

اور آپ کے پاس جواب نہ ہو تو صاف کہیں: “یہ واقعی اچھا سوال ہے، آؤ ہم مل کر اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔” اس طرح بچہ سیکھتا ہے کہ سوال کرنا کوئی عیب نہیں۔

۵۔ آسان اور معتبر ذرائع استعمال کریں

بچے مختصر اور تصویری باتوں کو پسند کرتے ہیں۔

اگر سوال ذرا پیچیدہ ہو تو دو منٹ کی اچھی ویڈیو دکھا دیں، ایک گھنٹے کا لیکچر مت سنائیں۔

۶۔ گھر میں محفوظ مکالمے کا ماحول بنائیں

اگر بچے کو یہ احساس ہو جائے کہ ہر سوال پر ڈانٹ پڑے گی تو وہ سوال گھر کے بجائے باہر لے جائے گا،

اور ممکن ہے وہاں اسے ایسا جواب ملے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو۔

۷۔ سادہ زبان استعمال کریں

بچوں کو وہی بات سمجھ آتی ہے جو آسان اور ان کی سطح کے مطابق ہو۔

مشکل اصطلاحات اور ثقیل الفاظ سے پرہیز کریں۔

ایک اہم تربیتی نکتہ

والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سوالات پر صبر سے کام لیں اور درج ذیل طریقے اپنائیں:

بچے کے علم کو جانچیں:

اس سے پوچھیں کہ وہ اس موضوع کے بارے میں کیا جانتا ہے۔

سوچ کو متحرک کریں:

پوچھیں: “تم خود کیا سوچتے ہو؟ تمہاری نظر میں کیا ہونا چاہیے؟”

مختلف صورتوں کا تصور کروائیں:

سوال کریں: “اگر ایسا ہو جائے تو کیا ہوگا؟”

ایک مثال

بچوں کا عام سوال ہوتا ہے:

“امی! رات کو اندھیرا کیسے ہو جاتا ہے؟”

سیدھا جواب دینے کے بجائے سوالات کریں:

جب اندھیرا ہوتا ہے تو کیا کیا چیزیں بدل جاتی ہیں؟

آسمان میں کیا نظر آنے لگتا ہے؟

چاند اور ستارے ہمیں کب دکھائی دیتے ہیں؟

اس طرح بچے کا ذہن زیادہ سرگرم ہوتا ہے۔

تربیت میں جتنا زیادہ ذہن متحرک ہو، اتنا ہی فائدہ ہوتا ہے۔

فوراً جواب دے دینا دراصل بچے کے ساتھ ناانصافی ہے۔

بچے کو خود سوچنے، جانچنے اور نتیجہ نکالنے کا موقع ملنا چاہیے۔

چند عام سوالات اور آسان جوابات

۱۔ خدا کہاں ہے؟ میں اسے کیوں نہیں دیکھ سکتا؟

جواب: “کیا تم ہوا کو دیکھ سکتے ہو؟ نہیں!

لیکن تم جانتے ہو کہ وہ ہے کیونکہ تم سانس لے رہے ہو۔

خدا بھی ہمیشہ موجود ہے، چاہے ہمیں نظر نہ آئے۔

وہ ایسے ہے جیسے پردے کے پیچھے ایک تیز روشنی۔”

۲۔ خدا کیسا ہے؟ اس کی شکل کیسی ہے؟

جواب: “وہ مہربانی اور خوشی جیسا ہے۔

تم اسے محسوس کر سکتے ہو، مگر آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔

اگر خدا انسان جیسا ہوتا تو ہر جگہ موجود نہ ہو سکتا۔”

۳۔ امی! ہمیں خواب کیوں آتے ہیں؟ کیا خواب سچے ہوتے ہیں؟

جواب: “خواب ایسے ہوتے ہیں جیسے دماغ رات کو خود فلمیں بنا لیتا ہے۔ کبھی ہنسی والے، کبھی عجیب۔ یہ حقیقت نہیں ہوتے، لیکن ہمارے دل کی کچھ باتیں ان میں چھپی ہوتی ہیں۔”

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha