حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکزِ تخصصی نماز کے ایک ماہر نے بچوں کو نماز کے لیے بیدار کرنے کے طریقے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیا، جو ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: “ہماری بیٹی کو چند ماہ ہوئے ہیں کہ سنِ تکلیف کو پہنچی ہے، لیکن دوپہر کے وقت بہت زیادہ سوتی ہے، اس کی نیند لمبی ہو جاتی ہے۔ مغرب و عشا کی نماز کے لیے اسے بیدار کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور اسی طرح صبح فجر کی نماز کے لیے بھی بعض اوقات تکرار اور بحث کی نوبت آ جاتی ہے۔ ہم کیا کریں؟”
جواب: دیکھیے، یہاں بنیادی طور پر دو مسئلے ہیں:
پہلا مسئلہ: نیند کا درست انتظام
دوسرا مسئلہ: بچے کے ساتھ ہمارا رویّہ اور طرزِ عمل
1️⃣ نیند کے انتظام کا مسئلہ
دوپہر کی نیند ہر کسی کے لیے ضروری نہیں ہوتی۔ یہ درست نہیں کہ انسان صبح دیر سے اٹھے اور پھر دوپہر میں بھی دو گھنٹے سوئے۔
دوپہر کی نیند اُن لوگوں کے لیے مفید ہوتی ہے جو صبح جلدی اٹھتے ہیں، متحرک رہتے ہیں اور کام کاج کرتے ہیں۔
البتہ دوپہر کی نیند بھی مختصر ہونی چاہیے؛ تقریباً آدھا گھنٹہ سے چالیس منٹ بہترین وقت ہے۔
اگر یہ نیند ایک، ڈیڑھ یا دو گھنٹے تک پہنچ جائے تو اس کے دو بڑے نقصانات ہوتے ہیں:
پہلا نقصان: انسان سستی اور بےدلی کا شکار ہو جاتا ہے دوسرا نقصان: رات کو نیند آنا مشکل ہو جاتا ہے، بستر پر لیٹنے کے باوجود نیند نہیں آتی اور سونے کا وقت بہت دیر سے ہو جاتا ہے
2️⃣ رات کی نیند کی اہمیت
یہ بات طے ہے کہ آدھی رات سے پہلے کی نیند، آدھی رات کے بعد کی نیند سے کہیں زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے آج کے معاشرے میں دیر سے سونے کی عادت عام ہو گئی ہے۔ اکثر لوگ رات بارہ، ساڑھے بارہ بلکہ ایک بجے تک جاگتے رہتے ہیں، حالانکہ بچوں کو عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ دس یا ساڑھے دس بجے تک سو جائیں۔
یہاں والدین کے عمل کا کردار بہت اہم ہے۔
اگر والدین خود آدھی رات تک موبائل یا ٹی وی میں مشغول رہیں تو بچہ کبھی یقین نہیں کرے گا کہ جلدی سونا واقعی فائدہ مند ہے۔ بچے والدین کے عمل کو دیکھتے ہیں، صرف باتوں کو نہیں۔
3️⃣ بچے کے ساتھ رویّے کا مسئلہ
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بچے کو نمازی بنانے کے لیے نہ مارپیٹ کی اجازت ہے، نہ روزانہ لڑائی جھگڑا درست ہے۔
ہمیں نماز کا حکم دینے اور یاد دہانی کرانے کا فریضہ ضرور ادا کرنا چاہیے، لیکن ہر نماز کے وقت بحث، تکرار اور جھگڑا کرنا بالآخر منفی اثر ڈالتا ہے۔
بار بار سختی کرنے سے بچہ نماز سے بددل ہو سکتا ہے اور نتیجہ الٹا نکلتا ہے۔
4️⃣ درست طریقۂ کار
سب سے پہلے ماحول اور حالات کو درست کریں
بچے کی حوصلہ افزائی اور ترغیب بڑھائیں
مثلاً: دوپہر کی نیند کے بعد بچہ جانتا ہو کہ آدھے یا چالیس منٹ بعد اس کے لیے چائے، بسکٹ یا کیک موجود ہوگا، تو وہ خود بیدار ہونے کی کوشش کرے گا
فجر کی نماز کے لیے بیدار کرتے وقت نرمی اور محبت سے کام لیں، سختی سے گریز کریں
5️⃣ تشویق اور انعام کا مؤثر کردار
اس عمر میں تشویق بہت مؤثر ہوتی ہے۔ اگر بچہ جان لے کہ نماز کے لیے باقاعدگی سے بیدار ہونے پر کبھی کبھار اسے تحفہ یا انعام ملے گا تو اس کا اثر مثبت ہوتا ہے۔
یہ بچہ نماز کا مخالف نہیں، نہ ہی نماز چھوڑنا چاہتا ہے؛ اصل مسئلہ صرف نیند سے بیدار ہونے کی دشواری اور سستی ہے، جو ہم سب کو ہوتی ہے۔
لہٰذا: کچھ عرصہ تشویق اور انعام کے ذریعے صحیح وقت پر سونے اور بیدار ہونے کی عادت ڈالیں
مستقل انعام کی عادت نہ بنائیں، بلکہ وقفے وقفے سے حوصلہ افزائی کریں، وقت کے ساتھ یہ عادت پختہ ہو جائے گی اور نماز کے لیے بیدار ہونا آسان ہو جائے گا۔
اللہ آپ کو کامیاب فرمائے۔









آپ کا تبصرہ