حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین سید علیرضا تراشیون، ماہرِ امورِ خاندان و مشاور، نے "بچوں میں موبائل فون کے استعمال پر قابو پانے" کے موضوع پر والدین کے ایک سوال کا تفصیلی جواب دیا ہے۔
سوال: میرا بچہ دو سال اور تین ماہ کا ہے اور اسے موبائل فون سے غیر معمولی لگاؤ ہو گیا ہے۔ اس رویے کی وجہ کیا ہے اور اسے کن عملی اور سائنسی طریقوں سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
جواب: بچے فطری طور پر تقلید کرنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتے ہیں، بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تجزیہ کیے، ویسا ہی کرنے لگتے ہیں۔
جب بچہ دیکھتا ہے کہ ماں ہمیشہ موبائل میں مصروف رہتی ہے، باپ کا دھیان بھی موبائل میں ہوتا ہے، بڑا بھائی بھی فون استعمال کر رہا ہوتا ہے، اور حتیٰ کہ مہمانوں کے ہاں بھی سب کے ہاتھوں میں فون ہیں — تو ظاہر ہے وہ بھی اسی عمل کی نقالی کرے گا۔
لہٰذا اس مسئلے کا پہلا حل خود والدین کے طرزِ عمل میں تبدیلی ہے۔
والدین کو دو بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہیے:
1. موبائل استعمال کے لیے "ممنوعہ مقامات" مقرر کریں
یہ طے کیا جائے کہ کن جگہوں یا موقعوں پر فون کا استعمال منع ہے۔
مثلاً کھانے کے وقت میز پر موبائل نہ لایا جائے۔
سوچئے، اگر گھر کا کوئی فرد ایک ہاتھ میں چمچ اور دوسرے میں فون پکڑے کھانا کھا رہا ہو، تو بچہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ نارمل رویہ ہے، اور وہ بھی یہی کرے گا۔
اسی طرح بیڈ روم میں یا اس وقت جب سب گھر والے آپس میں بیٹھے ہوں، موبائل کے استعمال پر پابندی ہونی چاہیے۔
2. موبائل استعمال کے لیے "مخصوص اوقات" مقرر کریں
اگر والدین کو فون استعمال کرنا ہی ہو، تو بہتر ہے اس کے لیے وقت طے کر لیا جائے۔
مثلاً وہ آدھا گھنٹہ فون استعمال کریں، لیکن اس وقت جب بچہ سو رہا ہو یا کھیل میں مصروف ہو —
نہ کہ اس وقت جب بچہ والدین کو براہِ راست دیکھ رہا ہو۔
ورنہ وہ اس طرزِ عمل کی نقالی کرے گا۔
اسی طرح بہتر ہے کہ فون ہمیشہ بچے کی نظر کے سامنے نہ رکھا جائے۔ کچھ گھرانوں نے اس کے لیے تخلیقی طریقہ اختیار کیا ہے:
مثلاً دروازے کے پاس ایک ڈبہ رکھا ہے جہاں گھر میں داخل ہوتے وقت سب اپنے فون رکھ دیتے ہیں۔ اس سے گھر کا ماحول پرسکون رہتا ہے اور بچہ غلط رویے کی نقل سے بچ جاتا ہے۔
3. گھریلو تعلقات میں فون سے زیادہ انسان اہم ہو
یہ بھی ذہن میں رہے کہ گھر میں ترجیح ہمیشہ انسانوں کو ہونی چاہیے، نہ کہ فون کو۔
افسوس کہ آج کل اکثر لوگ فون کی گھنٹی بجتے ہی سامنے بیٹھے شخص سے گفتگو چھوڑ کر فوراً کال اٹھا لیتے ہیں۔ یہ رویہ دراصل اُس شخص کے لیے بے ادبی کے مترادف ہے جو سامنے بیٹھا ہے۔
اگر کال اہم ہوگی تو دوبارہ آ جائے گی، ورنہ آپ بعد میں بھی بات کر سکتے ہیں۔
اب ذرا سوچیے، اگر بچہ اپنے والد یا والدہ سے بات کر رہا ہو اور فون بج جائے، تو والدین فوراً فون اٹھا لیں، تو بچہ یہ پیغام لیتا ہے: "فون مجھ سے زیادہ اہم ہے۔"
نتیجہ یہ کہ وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور بڑے ہو کر وہ بھی فون کو والدین سے زیادہ اہم سمجھنے لگتا ہے۔ اس لیے والدین کو اپنے عمل سے یہ دکھانا چاہیے کہ گھر میں سب سے بڑی ترجیح اہلِ خانہ ہیں، خاص طور پر چھوٹے بچے۔ کیونکہ وہ ابھی سوچنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، صرف وہی دہراتے ہیں جو دیکھتے ہیں۔ اگر وہ صحیح نمونہ دیکھیں گے تو درست عمل سیکھیں گے، اور اگر غلط نمونہ دیکھیں گے تو وہی غلطی آگے بڑھائیں گے۔
بالآخر، بچوں میں موبائل کے استعمال کا نظم دراصل والدین کی ذمہ داری، شعور اور خوداحتسابی سے وابستہ ہے۔









آپ کا تبصرہ