جمعرات 30 اکتوبر 2025 - 13:34
خاندانی تعلیم و تربیت | بچوں کی ضدی عادتوں کو کیسے سنبھالیں؟

حوزہ/ بچے کی ضد پر قابو پانے کے لیے توجہ کا مرکز گھر کا ماحول اور خاندانی تعلقات ہونے چاہییں: گھر پُرسکون اور محبت بھرا ہو، والدین کے درمیان تعلق احترام اور ہم آہنگی پر مبنی ہو، اور بچے کو چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں انتخاب کا حق دیا جائے۔ زیادہ سختی یا چیخ و پکار کا الٹا اثر ہوتا ہے، کیونکہ تربیت باغبانی کی مانند ہے، نہ کہ مکمل کنٹرول کا عمل۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین رضا یوسف‌زادہ، خاندانی امور کے ماہر و مشیر نے "محبت کے ذریعے بچوں کی ضد پر قابو پانے" کے موضوع پر مفصل گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

سوال: میرا سات سالہ بیٹا بہت ضدی اور نافرمان ہے۔ وہ تقریباً ہر کام میں، چاہے کپڑے پہننا ہو، کھانا کھانا ہو یا سونا ہو، میری ہدایت کے برعکس عمل کرتا ہے۔ نہ ڈانٹنے یا سزا دینے سے کوئی اثر ہوتا ہے، اور نہ ہی تعریف یا انعام سے دلچسپی لیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ حالات میرے قابو سے باہر ہیں اور میں اکثر چیخنے لگتی ہوں۔ اس کا کوئی سائنسی اور عملی حل ہے؟

جواب:

اس مسئلے کو دو پہلوؤں سے دیکھنا ضروری ہے:

1. خاندانی ماحول اور باہمی تعلقات

2. والدین، خصوصاً ماں کی شخصی خصوصیات

پہلے پہلو سے آغاز کرتے ہیں۔

روایت میں آیا ہے: "الولد الصالح ریحانة من ریاحین الجنة"

(نیک اولاد جنت کے پھولوں میں سے ایک خوشبو دار پھول ہے۔)

یہ مثال بہت بامعنی ہے۔ جیسے پھول کے لیے اچھی مٹی، مناسب پانی اور کافی روشنی ضروری ہے، ویسے ہی بچے کی تربیت کے لیے بھی ایک متوازن ماحول ضروری ہے۔

مٹی دراصل ماں باپ کے آپسی تعلقات ہیں۔

اگر شوہر اور بیوی کے درمیان کشیدگی، غصہ یا بداعتمادی ہو تو وہ گھر کی فضا کو اس قدر خراب کر دیتے ہیں کہ وہاں "اچھی تربیت" ممکن نہیں رہتی۔

گھر کو ایک "آبی ٹینک" یا "ایکواریئم" سمجھیں؛ اگر اس کا پانی بہت ٹھنڈا یا بہت گرم ہو تو سب سے پہلے چھوٹی مچھلیاں متاثر ہوتی ہیں۔

اسی طرح، اگر گھر میں تنازعہ یا تناؤ ہو تو سب سے پہلے بچے اس کے اثرات کا شکار بنتے ہیں۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بچے کی تربیت کا سب سے پہلا اصول، والدین کے تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔

اگر ماں باپ کا رشتہ سرد، سخت یا جھگڑالو ہو، تو اس کا براہِ راست اثر بچے کے رویّے میں نظر آتا ہے۔

کوئی پھول نمکین زمین میں نہیں اگ سکتا، اسی طرح کوئی بچہ بھی لڑائی جھگڑوں اور دباؤ والے ماحول میں پرسکون اور متوازن نہیں رہ سکتا۔

روایات میں آیا ہے کہ بچے کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باپ ماں کی عزت کرے اور ماں باپ دونوں ایک دوسرے کو خوش رکھیں۔

دیکھیے، حدیث اسے "بچے کا حق" قرار دیتی ہے، کیونکہ ماں باپ کے تعلقات کا اثر براہِ راست بچے پر منتقل ہوتا ہے۔

اگر گھر میں لڑائی ہو تو بچے کے لیے وہ منظر اس کے چھوٹے سے جہاں میں ایک جنگِ عظیم کی مانند ہوتا ہے، جس کا نتیجہ ضد، نافرمانی اور بے چینی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اب دوسرا پہلو: ماں کی شخصیت اور طرزِ عمل۔

اکثر والدین اس وقت بے بس محسوس کرتے ہیں جب وہ بچے پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں۔

حالانکہ تربیت "سفال گری" (یعنی زبردستی شکل دینا) نہیں، بلکہ "باغبانی" کی طرح ہے، آپ کو بس نشوونما کے لیے مناسب حالات پیدا کرنے ہیں۔

پانی: یعنی بچے سے محبت۔

روشنی: یعنی انتخاب کی آزادی اور تجربے کا موقع۔

خاک: یعنی ماں باپ کا پرامن اور محبت بھرا رشتہ۔

جب یہ تین عوامل درست ہوں تو بچہ خودبخود متوازن رویہ اختیار کرتا ہے۔ لیکن اگر سختی اور کنٹرول بڑھا دیا جائے تو بچہ مزاحمت کے طور پر مزید ضدی بن جاتا ہے۔

عملاً کیا کرنا چاہیے؟

حکم دینے اور چیخنے چلانے کے بجائے: گھر میں سکون اور محبت بھرا ماحول پیدا کریں، شریکِ حیات کے ساتھ مثبت تعلق برقرار رکھیں، اور بچے کو چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں انتخاب کا حق دیں۔

جب یہ بنیادیں مضبوط ہوں گی تو بچے کی ضد اور نافرمانی بتدریج کم ہو جائے گی،

اور وہ محبت و اعتماد کے ماحول میں خود بخود سنجیدہ اور فرمانبردار بن جائے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha