حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام سید علیرضا تراشیون، خاندان اور ازدواج کے ماہر اور مشاور نے اپنے ایک خطاب میں "انسانی تربیت پر ہم نشینی کے اثرات" کے موضوع پر گفتگو کی، جسے آپ معزز قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
آج کی دنیا میں، "ٹیکنالوجی اور سہولیات میں تبدیلی کی رفتار" ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ان تیز رفتار تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں تربیت کے میدان میں بھی اپنے طریقوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہماری تربیت کے طریقے اس دور اور حالات کے مطابق ہونے چاہئیں جن میں ہم رہ رہے ہیں۔
تربیت کے میدان میں ایک بہت اہم نکتہ جس کی احادیث میں بھی تصدیق کی گئی ہے، وہ "ہم نشینی" کا موضوع ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ "المرء علی دین خلیله و قرینه" یعنی انسان اپنے ہم نشین کے دین اور اخلاق پر ہوتا ہے۔ یہ بیان، ہم نشین اور تربیتی ماحول کے کردار کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔
اسی بنیاد پر، والدین اور بالعموم مربیوں کو "تربیتی زندگی" گزارنی چاہیے۔ یعنی انہیں شعور ہونا چاہیے کہ ان کے تمام اعمال، حرکات، گفتار اور یہاں تک کہ جذباتی ردعمل بھی بچوں کی سیکھنے کی نظر میں ہیں۔
خاص طور پر مائیں، جنہیں بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا ہوتا ہے، انہیں اپنے رویوں کے بارے میں تربیتی نقطہ نظر رکھنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ ان کا چھوٹا سے چھوٹا عمل بھی ان کے بچے کی شخصیت پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔
· تربیت آنکھ سے، نہ کہ زبان سے
ہم عام طور پر تربیت کے لیے دو راستے بیان کرتے ہیں:
ایک "زبانی تربیت"
اور دوسری"عملی تربیت"۔
پہلے طریقے میں، والدین مسلسل اپنے بچوں سے بات کرتے ہیں، انہیں نصیحت کرتے ہیں، اور اچھے اعمال، اچھے اخلاق، بڑوں کے ادب اور والدین کی عزت کی تلقین کرتے ہیں۔
لیکن دوسرے طریقے میں، بچہ دیکھنے اور مشاہدے کے ذریعے نمونہ لیتا ہے۔ درحقیقت، والدین "بچے کی آنکھوں کے دریچے" کے ذریعے اس کے ذہن، سوچ اور عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں، کچھ تحقیقات کے نتائج ایک دلچسپ نکتہ ظاہر کرتے ہیں: جب انسان کوئی تصویر دیکھتا ہے، تو وہ تصویر تقریباً تیس سال تک اس کے ذہن میں رہ سکتی ہے، جب کہ ایک سنی ہوئی بات یا جملہ عام طور پر صرف سات سے دس سیکنڈ تک یاد رہتا ہے۔
لہٰذا دیکھنے کا اثر سننے سے کہیں زیادہ گہرا اور پائیدار ہوتا ہے۔ ایک مشہور مقرر کہا کرتے تھے: "اگر آپ بہترین تقریر بھی کریں، تو چند گھنٹے بعد سامعین سے پوچھیں کہ حاجی صاحب نے کیا کہا، تو جواب میں وہ کہیں گے کہ اچھی باتیں کیں، لیکن اگر پوچھا جائے کہ بالکل کیا کہا، تو شاید وہ ایک گھنٹے کی تقریر کے دو جملے بھی ٹھیک سے نہ بتا سکیں!"
بعض اوقات سننے میں غلطی بھی ہو جاتی ہے۔ ایک عالم کی حکایت مشہور ہے کہ تقریر کے بعد ایک شخص ناراضگی سے ان کے سامنے آیا اور بولا: "آپ نے یہ کیسی بدعت بیان کی کہ بچھڑے کو غسل دینا، کفن پہنانا، نماز پڑھنا اور دفن کرنا چاہیے!"
عالم مسکرائے اور بولے: "میں نے بچھڑا نہیں کہا تھا؛ میں نے کہا تھا کہ دو سالہ بچے کو غسل دو!" سننے میں ہونے والی یہ غلطی ظاہر کرتی ہے کہ سنی ہوئی بات کو سمجھنے میں بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ بچے دیکھ کر سیکھتے ہیں، نصیحت سن کر نہیں۔
· بچے معاشرے کو بھی دیکھتے ہیں، صرف گھر کو نہیں
میں نے مشاورت کے سیشنز میں بارہا دیکھا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی والدین کے رویوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ایک دن ایک پانچ سالہ بچے نے مجھ سے کہا: "انکل، میں اپنی امی کا کیا کروں؟"
جب میں نے وجہ پوچھی تو بولا: "وہ بہت غصے والی ہیں!" یہ ظاہر کرتا ہے کہ بچہ ماں کے غصے کو سمجھتا ہے اور اس سے متاثر ہوا ہے۔
لہٰذا اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ محض ماں کی نصیحتوں پر عمل کرے، جب کہ ماں کا عمل کچھ اور بتا رہا ہو۔
آج تربیت کے میدان میں ہماری ایک اہم فکر یہ بھی ہے کہ "معاشرے کا ماحول" بھی تربیتی ہونا چاہیے۔
افسوس کی بات ہے کہ بعض اوقات والدین بچے کی تربیت کے لیے اپنی پوری کوشش کرتے ہیں، لیکن معاشرتی ماحول، اسکول، یونیورسٹی یا یہاں تک کہ گلی محلوں میں ایسے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں جن سے وہی بچہ متاثر ہوتا ہے اور اس کی تربیت کا رخ بدل جاتا ہے۔ بچہ معاشرے کو بھی دیکھتا ہے، صرف گھر کو نہیں۔
· کیا ہمیں معاشرتی ماحول میں "بصری آلودگی" پھیلانے کا حق ہے؟
ہم نے مشاورتوں میں بارہا دیکھا ہے کہ اس قسم کے مناظر نوعمروں میں نفسیاتی، جذباتی اور جنسی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں معاشرتی ماحول میں "بصری آلودگی" پھیلانے کا حق ہے؟
یہ معاملہ صرف افراد کی ظاہری شکل تک محدود نہیں۔ بعض اوقات کسی دکان پر فروش کا رویہ، جیسے بداخلاقی یا بے احترامی، ان نوعمروں کے لیے غلط نمونہ بن سکتا ہے جو اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
حالانکہ اگر اسی فروش سے پوچھا جائے کہ بداخلاقی بری چیز ہے یا نہیں، تو وہ کہے گا کہ ہاں بری ہے؛ لیکن اس کا اصل عمل اس کی بات کے برعکس ہوتا ہے۔
یہاں ہمیں معصوم کی اس بات پر توجہ دینی چاہیے جس میں انہوں نے فرمایا: "کونوا دُعاةَ الناسِ بغیرِ ألسنتکم" یعنی لوگوں کو اپنے عمل کے ذریعے نیکی کی طرف بلاؤ، صرف اپنی زبان سے نہیں۔
ہمیں ایک دینی معاشرے میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارا ہر عمل، چھوٹا ہو یا بڑا، اثر انداز ہوتا ہے۔
ایک سادہ سا مثال: وہ آدمی جو گلی میں سگریٹ پیتا ہے، شاید اسے خیال نہ ہو کہ ایک تین سالہ بچہ اسے دیکھ رہا ہے؛ لیکن اس بچے کی ماں مشاورت میں کہتی ہے: "میرا بچہ گھر واپس آیا تو پینسل کو سگریٹ کی طرح پکڑ کر اس صاحب کی نقل اتارنے لگا!"
اس کا مطلب ہے کہ بچے نے دیکھ کر سیکھا ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ "میں اپنا کام کرنا چاہتا ہوں، اس کا دوسروں سے کوئی تعلق نہیں"۔
ایسے معاشرے میں جہاں لوگ مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ تعامل میں ہیں، ہر ایک کا عمل دوسرے پر اثر ڈالتا ہے۔
اسی وجہ سے یہ جان لینا چاہیے کہ "انسانوں کے سیکھنے کا سب سے اہم ذریعہ اس کی آنکھیں ہیں"۔
اچھے اعمال انسانوں کے دل و دماغ میں گہرائی تک اتر جاتے ہیں اور پائیدار اثرات چھوڑتے ہیں، اور اس کے برعکس، ناپسندیدہ اور آلودہ اعمال بھی افراد کے وجود میں جمع ہو کر منفی اثرات ظاہر کرتے ہیں۔
لہٰذا، انفرادی اور اجتماعی تربیت میں ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ معاشرے کو اس طرف لے جائیں جہاں رویوں اور نظر سے ہونے والے نقصانات کم سے کم ہوں۔
اس اہم کام کے لیے بیداری، خود کنٹرول، اور معاشرے کے تمام افراد کی مشترکہ ذمہ داری کا احساس درکار ہے؛ خاندان سے لے کر اسکول اور عوامی مقامات تک۔ صرف اس صورت میں ہی ایک صحت مند، متوازن اور تربیت پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
· معاشرے کی تربیت میں عمل کی پوشیدہ طاقت
بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ مثلاً آج ملک کے ذمہ داران "تعلیمی فضاء کے تناسب" کو بڑھانے کی کوشش میں ہیں۔
یہ کام بہت قابل قدر اور لائق ستائش ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا ان منصوبہ بندیوں کے ساتھ ساتھ ہم نے کوئی ایسی "ٹیم یا گروپ" بھی تشکیل دی ہے جو معاشرے میں تربیت کے خلاف رویوں کی اصلاح کے بارے میں سوچے؟
یہ بات میں بہت سے دینی اور فکرمند خاندانوں کی جانب سے "درد دل" کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ بارہا ماؤں نے کہا ہے: "حاجی صاحب، میری بیٹی یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے چادر پہنتی تھی، لیکن اب اس کا چادر کی طرف میلان نہیں رہا۔"
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بعض اوقات "دیکھنے کی طاقت" سے غافل ہو جاتے ہیں۔ یہ لڑکی جب نئے ماحول میں جاتی ہے اور وہاں مختلف رویے اور نمونے دیکھتی ہے، تو متاثر ہوتی ہے، کیونکہ ہم نے "ماحول" کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی۔ ماحول کے اثر کی طاقت بہت زیادہ ہے۔
اسی وجہ سے، اجازت دیجیے کہ میں پھر سے گفتگو کے آغاز میں بیان کردہ حدیث کی طرف لوٹوں جس میں امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: "المرء علی دین خلیله و قرینه" یعنی انسان اپنے ہم نشین کے دین اور اخلاق پر ہوتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ انسان ان لوگوں سے متاثر ہوتا ہے جن کے ساتھ وہ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اگر ماحول صحت مند ہو تو انسان پروان چڑھتا ہے؛ لیکن اگر ماحول آلودہ ہو تو انسان اس سے متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا نہ صرف خاندان، بلکہ ذمہ داران، حکومت اور اجتماعی ماحول کے نگران بھی معاشرے کی تربیت کے حوالے سے ذمہ دار ہیں۔
موضوع کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں۔ ٹریفک پولیس جب کسی ڈرائیور کو خطرناک ڈرائیونگ کرتے دیکھتی ہے تو اسے روکتی ہے، اس کی گاڑی ضبط کرتی ہے یا اس پر بھاری جرمانہ عائد کرتی ہے۔
کیوں؟
صرف اس لیے کہ وہ خود نقصان نہ اٹھائے؟
نہیں، بلکہ اس لیے کہ دوسرے بھی اس سے غلط نمونہ نہ لیں۔ کوئی نوجوان جب دیکھتا ہے کہ دوسرا سڑک پر تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا ہے، تو وہ بھی ایسا ہی کر سکتا ہے۔
لہٰذا ہم اسے نہ صرف اس کی اپنی جان بچانے کے لیے، بلکہ معاشرتی ماحول کی سلامتی کے لیے بھی جوابدہ ٹھہراتے ہیں۔
دنیا بھر میں یہی اصول رائج ہے؛ صرف اس کی شکل اور پیمانے ہر معاشرے کے ثقافت اور اقدار کے مطابق مختلف ہوتے ہیں۔
ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں جو الہی اقدار پر قائم ہے، لہٰذا فطری بات ہے کہ ہمیں اس تربیتی ماحول کی حفاظت کرنی چاہیے۔
تربیت میں "نظر کی طاقت" اور "دیکھنے کے اثر" کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ جو ماں چاہتی ہے کہ اس کا بچہ بچپن سے ہی صحیح تربیت پائے، اسے چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ "تربیتی زندگی" گزارے۔ یعنی وہ خود صحیح عمل اور اخلاق کی حامل ہو تاکہ اس کا بچہ اس سے نمونہ لے سکے۔
تربیتی مشاورین ایک بہت خوبصورت جملہ کہتے ہیں: "ہمارے بچے ایسے نہیں بنتے جیسا ہم کہتے ہیں، بلکہ ایسے بنتے ہیں جیسا ہم میں دیکھتے ہیں۔" لہٰذا ہمیں اپنے ساتھ سچا ہونا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم عملاً اپنے بچوں کو کیا دکھا رہے ہیں۔
اگر ماں بے ترتیب ہو، تو وہ کیسے منظم بچہ پیدا کر سکتی ہے؟
میں نے سیشنز میں بارہا ماؤں سے کہا ہے: جب تمہارا بچہ اپنا کمرہ درست کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، تو اس سے کہنے سے پہلے کہ "اپنا کمرہ صاف کرو"، پہلے خود اپنا کمرہ درست کرو۔
اس سے یہ کہنے سے پہلے کہ "باورچی خانے میں صفائی رکھو"، پہلے خود صفائی کے ساتھ پیش آؤ۔
بچے "نصیحت" نہیں چاہتے، بلکہ "عملی نمونہ" چاہتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ دیکھے کہ اس کی ماں دوپہر اور رات کے برتن اکٹھے دھوتی ہے، تو فطری بات ہے کہ جب اسے کہا جائے گا کہ "اپنا بستر تہہ کرو"، تو وہ کہے گا: "کیوں؟ رات کو پھر تو بچھانا ہے!" کیونکہ وہ وہی نمونہ دیکھ رہا ہے جو عمل نہیں کر رہا۔
لہٰذا جب ہم کہتے ہیں کہ تربیتی زندگی گزارنی چاہیے، تو اس کا مطلب ہے کہ بچے میں خامی نکالنے سے پہلے، اپنے اور اس کے اردگرد کے لوگوں کے رویوں کا جائزہ لیں۔
میں نے بارہا مذاق میں ماؤں سے کہا ہے: "آپ اپنے بچے سے کہتی ہیں کہ جو گراؤ وہ اٹھاؤ، لیکن کیا خاندان کا باپ بھی یہ کام کرتا ہے؟"
اگر نہیں، تو پہلے اسے درست کریں۔ بچہ جو دیکھتا ہے اس سے نمونہ لیتا ہے، جو سنتا ہے اس سے نہیں۔
· تربیت ایک طویل اور وقت طلب عمل ہے
لیکن دوسرا نکتہ: تربیت کوئی وقتی اور مختصر المدت عمل نہیں ہے۔ ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ چند دنوں یا ہفتوں میں بچے کی "اصلاح" ہو سکتی ہے۔
تربیت ایک طویل اور وقت طلب عمل ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ منظم ہو، تو ہمیں اس کے لیے سالوں وقت دینا ہوگا۔
تربیت کے لیے "صبر"، "تسلسل" اور "منظم طریقہ کار" درکار ہے۔ دو ڈانٹ ڈپٹ اور دو انعامات سے کوئی منظم نہیں ہو جاتا۔ ہو سکتا ہے کہ بچے کے وجود میں نظم و ضبط کو پنپنے میں بیس سال لگ جائیں۔ تربیت، صبر و تحمل کا کام ہے، جلدی اور ہڑبڑی کا نہیں۔ بچے "سنی ہوئی نصیحت" نہیں چاہتے، بلکہ "دکھائی دینے والا عملی نمونہ" چاہتے ہیں۔
تربیت کی ذمہ داری متعین ہونی چاہیے
لیکن تیسرا اہم نکتہ: "تربیت کی ذمہ داری متعین ہونی چاہیے"۔ بچے کو مختلف لوگوں کے درمیان اِدھر اُدھر نہیں پھرنا چاہیے۔
یہ مقصد نہیں ہے کہ ہمارے بچے کی تربیت ماں، خالہ، چچا، ماموں، استاد، ناظم اور امام جمعہ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں کرے۔
اگر تربیت کا ذمہ دار کوئی ایک نہ ہو، تو یہ عمل انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ گھر میں، تربیت کی بنیادی ذمہ دار ماں ہونی چاہیے۔ دوسرے لوگوں کو اس کی مدد کرنی چاہیے، نہ کہ اس کی جگہ فیصلے کرنے۔
آپ کی سمجھ کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ پرانے زمانے میں، جب بچے رنگین چوزے خریدتے تھے، اگر وہ انہیں مسلسل ہاتھوں ہاتھ پھیرتے رہتے، تو وہ جلد مر جاتے تھے؛ لیکن اگر ایک ہی شخص ان کی دیکھ بھال کرتا، تو وہی کمزور سا چوزا صحت مند مرغی یا مرغ بن جاتا تھا۔
بچے کی تربیت بھی کچھ ایسی ہی ہے؛ اس کی پرورش جذباتی تحفظ کے ساتھ اسی وقت ہو سکتی ہے جب ایک شخص بنیادی ذمہ دار ہو۔
· ائمہ کے تربیتی نمونے میں ماں ہی محور ہونی چاہیے
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے خاندان کا تربیتی نمونہ بھی یہی بتاتا ہے۔ اگرچہ حسنین علیہما السلام الہی تربیت یافتہ تھے، لیکن زمینی نمونے میں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہی اولاد کی تربیت کی ذمہ دار تھیں۔
یہاں تک کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں، انہوں نے امیرالمومنین سے فرمایا: "اپنے لیے ایسی بیوی کا انتخاب کریں جو میرے بچوں کی اچھی تربیت کر سکے۔"
یعنی رخصت ہونے کے وقت بھی ان کا اصل فکر اولاد کی تربیت ہی تھا۔
لہٰذا، ماں کو تربیت کا محور ہونا چاہیے۔ جو ماں اپنے بچے کو ایک گھر سے دوسرے گھر پھنکواتی رہے اور خود تربیت پر توجہ نہ دے، اسے اچھے نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ تربیت کے لیے ماں کی فعال موجودگی ضروری ہے۔
جو مائیں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنا چاہتی ہیں، ان کے لیے پانچ سفارشات ضروری ہیں، اور جو ماں کامیاب ہونا چاہتی ہے، اسے ایک "سپر ماں" بننا ہوگا۔
· کامیاب ماں کی پانچ بنیادی خصوصیات*
1. جسمانی صحت: ماں کو اپنے جسم کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ بچے کی تربیت کے لیے طاقت اور چستی درکار ہوتی ہے۔ بلاوجہ اپنے جسم کو تھکا نہیں دینا چاہیے۔
2. ذہنی و نفسیاتی صحت: ماں کو اپنے آس پاس کے تمام مسائل میں خود کو الجھانا نہیں چاہیے۔ وہ پوری محلے کی "ہمدرد" نہیں بن سکتی۔ اگر اس کا ذہن و دل پریشان ہو، تو اس کے بچے کی تربیت متاثر ہوگی۔ بہت سی مائیں جب پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی دلی دکھیں اپنے ذہن پر لاد لیتی ہیں، تو ان کے پاس اپنے بچے پر توجہ دینے کی ہمت نہیں رہتی۔ ماں کی ذہنی صحت خاندان کی جذباتی سلامتی کی ضامن ہے۔
3. کافی وقت کا مختص کرنا: تربیت ایک وقت طلب عمل ہے۔ انسان کوئی مشین نہیں جو بن کر تیار ہو جائے اور اس کی گارنٹی ہو؛ اس کے ساتھ مسلسل تعلق میں رہنا ضروری ہے۔ اگر ماں کافی وقت نہ دے، تو تربیتی تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔
4. صبر و تحمل: صبر کے بغیر، کوئی بھی تربیتی تبدیلی پائیدار نہیں ہوتی۔
5. منصوبہ بندی: ماں کے پاس تربیت کے لیے ایک واضح منصوبہ اور راستہ ہونا چاہیے۔ بے مقصد اور بغیر منصوبے کے تربیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
یہ پانچ خصوصیات ماں کو "سپر ماں" بنا دیتی ہیں؛ وہ ماں جو اسلام اور تشیع کے معیار کے مطابق نسل تیار کر سکتی ہے۔
· بچے کی تربیت: فضول اور وقت ضائع کرنے والے کاموں سے دوری لازم
بچے کی تربیت کے لیے توجہ، سکون، صحت اور منصوبہ بندی درکار ہے۔ آپ کو اپنی توانائی غیر ضروری اور بے کار کاموں میں ضائع نہیں کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ایک بزرگ عالم نے اپنے شاگرد کو ایک سبق دیا؛ جب ایک طالب علم ان کے پاس آیا اور کہا: "میں آپ کا شاگرد بننا چاہتا ہوں تاکہ کامیاب طالب علم بن سکوں"، استاد نے اس کے کپڑوں پر نظر ڈالی اور کہا: "نہیں، تم کامیاب طالب علم نہیں بن سکتے۔"
شاگرد حیران ہو کر پوچھا: "کیسے؟" استاد نے فرمایا: "تمہارے بٹن بہت زیادہ ہیں، انہیں کھولنے اور بند کرنے میں تمہارا وقت ضائع ہوتا ہے!"
یعنی اصل کام کے لیے وقت نکالنے کے لیے غیر ضروری چیزوں کو کم کرنا چاہیے۔
تربیت میں بھی یہی بات ہے۔ جو ماں ایک قابل انسان تیار کرنا چاہتی ہے، اسے غیر ضروری اور وقت ضائع کرنے والے کاموں سے دور رہ کر اپنی تمام تر توجہ اپنے بچے پر مرکوز کرنی چاہیے۔









آپ کا تبصرہ