حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین سید علیرضا تراشیون نے ایک سوال و جواب کے سلسلے میں “وسواس کو دور کرنے کے مؤثر طریقے” پر گفتگو کی، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
سوال: میرا چودہ سالہ بیٹا تقریباً سات آٹھ ماہ سے وسواس کا شکار ہے۔ وہ نہ صرف صفائی اور دھلائی میں حد سے زیادہ احتیاط کرتا ہے بلکہ پڑھائی کے پروگرام میں بھی حد سے زیادہ وسواس دکھاتا ہے۔ اپنے مطالعے کا شیڈول بہت ترتیب سے بناتا ہے، پھر دوبارہ سب کچھ نئے سرے سے کرتا ہے اور ہر چیز کو ایک ایک کر کے دراز میں رکھتا ہے۔
کبھی کبھی اس میں غیر معمولی حرکات بھی نظر آتی ہیں، مثلاً چلتے چلتے اچانک رک جاتا ہے اور کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔ میں اسے سمجھاتی ہوں کہ ایسا نہ کرو، لیکن کوئی اثر نہیں ہوتا۔
براہِ کرم بتائیں کہ اس سے کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟
جواب: ایسی کیفیت کا علاج صرف باتوں سے ممکن نہیں۔ جیسے آپ بخار والے بچے کو بٹھا کر بار بار کہیں کہ “بیٹا، بخار ٹھیک نہیں ہوتا، یہ نقصان دہ ہے” — وہ سمجھ بھی لے کہ بخار نقصان دہ ہے، مگر اس سے بخار کم نہیں ہوگا۔
بچوں کے مسائل حل کرنے میں ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم یہ نہ سمجھیں کہ صرف نصیحت اور باتوں سے ان کے مسائل ختم ہو جائیں گے۔
آپ کے بیٹے کی یہ حالت عام طور پر دو وجوہات رکھتی ہے — یا یوں کہیے دو جڑیں ہیں:
پہلی جڑ: اضطراب (Anxiety)
اکثر وسواس کی اصل وجہ اضطراب ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص بےچینی یا دباؤ محسوس کرتا ہے تو وہ اس دباؤ کو وسواسی حرکات کے ذریعے ظاہر کرتا ہے۔
البتہ یہ فیصلہ کہ آیا بچہ واقعی وسواس کا مریض ہے یا نہیں، صرف ماہرِ نفسیات یا مشیر کے مشاہدے سے ہی ممکن ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کسی ماہر سے رجوع کریں۔
دوسری جڑ: بیکاری (خالی وقت)
اضطراب کے ساتھ اگر بیکاری بھی شامل ہو جائے تو وسواس بڑھ جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ ایسے عوامل کم کریں جو بچے میں اضطراب پیدا کرتے ہیں۔
کبھی والدین خود انجانے میں بچوں کو اضطراب منتقل کر دیتے ہیں، جیسے بار بار کہنا: “امتحان قریب ہے، پڑھائی کرو، وقت ضائع ہو رہا ہے، ابھی بہت کچھ باقی ہے!”
ایسی باتیں بچے کے ذہنی دباؤ کو بڑھاتی ہیں۔ اسی طرح بیکاری بھی نقصان دہ ہے۔ بعض بچے فطری طور پر باریک بین اور حساس ہوتے ہیں؛ اگر انہیں مصروف نہ رکھا جائے تو ان کی حساسیت وسواس میں بدل جاتی ہے۔
لہٰذا بہتر ہے کہ بچے کو سرگرم اور مصروف رکھا جائے — ایسی مشغولیات دیں جو جسم اور دماغ دونوں کو مصروف رکھیں۔
مثلاً اگر بچہ گھر میں آدھے گھنٹے تک غسل خانے میں بیٹھا رہتا ہے، تو ممکن ہے اسکول میں اس کے رویّے ایسے نہ ہوں، کیونکہ وہاں وہ مصروف ہوتا ہے۔
آخر میں ایک اہم نکتہ:
اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس کا وسواس کم ہو تو اسے بار بار ٹوکتے نہ رہیں۔ اکثر مائیں کہتی ہیں: “میں سمجھاتی ہوں، وہ مانتا بھی ہے، لیکن پھر بھی نہیں بدلتا!”
اصل میں یہی بار بار سمجھانا اور تذکرے کرنا بچے کے ذہن میں اس مسئلے کو گہرا کر دیتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں اور زیادہ حساس اور وسواسی ہو جاتا ہے۔









آپ کا تبصرہ