حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بعض اوقات ایک چھوٹی سی روک ٹوک بھی بڑے نقصان سے بچانے کے لیے ڈھال بن جاتی ہے۔
انسان بعض حقائق کو درد کے ذریعے سمجھتا ہے جنہیں نصیحت کے ذریعے نہیں سمجھ پاتا۔ بعض اوقات تنبیہ، تعلیم و تدریس سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
تنبیہ کا فلسفہ یہ ہے کہ بچے کو بیدار کرنے کے لیے اس کے کیے ہوئے عمل کے فقط «کچھ حصے» کا اسے احساس کرایا جائے۔ مقصد بچے کی اصلاح ہو نہ کہ باپ کی دل ٹھنڈک یا ماں کی آسودگی۔
جب بچے کو کہیں کہ یہ ہیٹر ہے، ہاتھ جلا دیتا ہے تو وہ شاید زیادہ توجہ نہ کرے۔ لیکن خود ہیٹر اسے سبق دے دیتا ہے، جب وہ ہیٹر پر ہاتھ رکھتا ہے تو پھر اس کی واقعی تکلیف سہنے کے بعد اس پر دوبارہ ہاتھ نہیں رکھتا۔
بعض اوقات باپ بھی اسی طرح کرتا ہے کہ بچے کا ہاتھ پکڑ کر ہیٹر کے «قریب» لے جاتا ہے تاکہ تھوڑا سا جلے تاکہ بعد میں ہاتھ پر بڑا چھالہ نہ آئے۔ یعنی اسے ایک عملی تجربہ دکھاتا ہے۔ تمام تنبیہات اسی نوعیت کی ہیں کہ بچے کو کم تکلیف دے کر بڑے نقصان سے محفوظ رکھا جائے۔
مآخذ: آیت اللہ حائری شیرازی، مربی و تربیت، ص ۲۱۷ و ۲۱۸









آپ کا تبصرہ