اتوار 5 اکتوبر 2025 - 11:42
نوجوانوں کو کب نجی زندگی کا حق ملنا چاہیے؟

حوزہ/ نوجوانوں کی نجی زندگی مکمل آزاد نہیں بلکہ ہدایت یافتہ ہونی چاہیے۔ والدین کمرے اور ڈیجیٹل آلات کے استعمال کی واضح حدبندی کرکے، نجی جگہیں بننے سے روک کر، اور بتدریج نگرانی کے ذریعے نہ صرف بچے کی خودمختاری کو پروان چڑھا سکتے ہیں بلکہ اس کی ذمہ داری اور صحت مند نشوونما بھی یقینی بنا سکتے ہیں، اور ساتھ ہی والدین کی تربیتی نگرانی کا حق بھی برقرار رہتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق خاندانی امور کے ماہر حجت الاسلام والمسلمین تراشیون نے اپنے ایک اجلاس میں والدین کی جانب سے بچوں کی نجی زندگی پر نگرانی کے موضوع پر اہم سوال کا جواب دیا۔

سوال:

میرا بارہ سالہ بچہ گھنٹوں موبائل فون لے کر اپنے کمرے میں بیٹھا رہتا ہے اور ہمیں اندر آنے کی اجازت نہیں دیتا۔میں اس کی نجی زندگی اور والدین کی نگرانی کے درمیان مناسب توازن کیسے قائم کروں؟

جواب:

سب سے پہلے ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ"بچوں کی نجی زندگی" کے غلط تصور میں پھنس جانا سنگین تربیتی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

کچھ مشاور یا ثقافتی رجحانات نجی زندگی کا ایسا تصور پیش کرتے ہیں جو عملاً والدین کو نگرانی اور تربیتی کردار سے روکتا ہے، جس کے نتیجے میں بچوں کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

مذہبی نقطہ نظر سے قرآن کریم واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ بچوں کو تین مواقع پر والدین کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینی چاہیے، لیکن والدین کے لیے بچوں کے کمرے میں داخل ہونے کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کی بچوں پر نگرانی اور ذمہ داری خاص ہے۔ لہٰذا، والدین کا بچے کو کمرہ مکمل طور پر دے دینا اور پھر اندر آنے کے لیے اجازت مانگنا درحقیقت تربیتی غفلت ہے جو خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔

مشاورتی تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ بچوں کو کمرے یا مواصلاتی آلات کی مکمل ملکیت دینا بعض اوقات انتہائی خطرناک نتائج کا باعث بنتا ہے۔

مثال کے طور پر، کوئی نوجوان والدین کی جانکاری کے بغیر خفیہ تعلقات قائم کر سکتا ہے یا ایسے کام کر سکتا ہے جس کا خاندان کو بالکل علم نہ ہو۔

معاشرتی سطح پر بھی اس کے پریشان کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی نرم اور لاپرواہ تربیتی پالیسیوں کے نتیجے میں خاندانی ڈھانچے میں سنگین بحران پیدا ہوئے ہیں۔

راہ حل:

1. کمروں کے استعمال کی واضح وضاحت: کمرے کا مخصوص استعمال ہونا چاہیے، جیسے سونے یا کپڑے بدلنے کے لیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کمرہ مکمل طور پر بچے کے "حوالے" کر دیا جائے۔ والدین کو کمرے کے ماحول اور وہاں ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ بچے کو یہ حق نہیں کہ وہ گھنٹوں کمرے میں بیٹھا رہے اور خاندان کے لیے دروازہ بند کر دے۔

2. بچوں کی آلات اور جگہوں پر مکمل ملکیت سے پرہیز: ایسی کوئی بھی ملکیت جو بچے کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ ہو، اسے نہ دی جائے۔ یہ اصول موبائل فون، کمپیوٹر اور یہاں تک کہ کمرے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، جیسے ٹی وی خاندان کی مشترکہ ملکیت ہے، اسی طرح کمپیوٹر یا ٹیبلیٹ بھی خاندانی استعمال میں ہونا چاہیے۔ اسے بیٹھک یا مشترکہ جگہ پر رکھنا بہتر ہے تاکہ بچے کا استعمال نظر میں رہے۔

3. بچے کے لیے "نجی جگہ" بنانے سے گریز: والدین کی موجودگی اور نگرانی کے بغیر بچوں کے لیے بند اور ذاتی جگہیں مختص کرنا پوشیدہ اور نقصان دہ رویوں کو جنم دے سکتا ہے۔ بچہ ابھی اس مقام پر نہیں پہنچا ہے کہ وہ تنہا صحت مند رویوں کی حدود کو manage کر سکے، اس لیے اسے والدین کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

4. آزادی کے تصور کا بتدریج انتظام: بچے کی آزادی ہدایت یافتہ اور بتدریج طریقے سے پروان چڑھنی چاہیے، مکمل آزاد چھوڑ دینے سے نہیں۔ اگر بچے کو شروع سے ہی ہر شعبے میں آزاد چھوڑ دیا جائے تو پھر والدین کی تربیت کے لیے کوئی جگہ نہیں رہتی۔

لہٰذا، والدین کو چاہیے کہ بچے کی عزت و وقار کو برقرار رکھتے ہوئے نجی زندگی کے غلط تصورات کے جال میں نہ پھنسیں۔ باخبر اور منظم نگرانی نہ صرف بچے کی صحت مند نشوونما کے منافی نہیں، بلکہ والدین کے تربیتی فرائض کا ایک لازمی حصہ ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha