۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ/ متعدد قرآنی اور احادیثی شواہد کے مطابق  والدین پر لازم ہے کہ وہ اس طرح کے تدابیر کا اہتمام کریں کہ ان کے بچے بالغ ہونے کے بعد  مذہبی قوانین کے پابند ہوں اور شرعی احکامات کی مخالفت نہ کریں تا کہ  ان کو آخرت کے عذاب کا سامنا  کرنا نہ پڑے۔ 

تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

خلاصہ:

حوزہ نیوز ایجنسی انسان کی دوسری خصوصیات  کی طرح  جنسی غریزے اور خواہشات نفسانی کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے جنسی تعلیم و تربیت  کا مطلب جنسی غریزہ کی رشد اور نشوونما  اس طرح سے کرنا ہے کہ عفت جنسی اور  صحت جنسی دونوں حاصل ہو۔ دینی نقطہ نگاہ سےجنسی تعلیم و تربیت  بلوغت سے قبل اور تقریبا انسان کی پیدائش سے ہی شروع ہوتی ہے۔ بچوں کی جنسی تعلیم  و تربیت ،تعلیم  و تربیت  کا ایک اہم اور حساس حصہ ہے۔ کیونکہ یہ بچے کی  مستقبل  میں سعادت اور شقاوت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔بچوں کی جنسی تربیت کر کے بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کا بڑی حدتک خاتمہ کرسکتاہے اور درندہ صفت افراد کو  آسانی  کے ساتھ کیفر کردار تک  پہنچایا جاسکتا ہے۔ والدین  بچوں کی جنسی تربیت کرکے یہ شعور دیں کہ ان کے جسم کے کچھ ذاتی حصوں کو  کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے۔ کسی بھی دست درازی کی صورت میں بچے کو اس سے نمٹنے کے طریقے سکھانا، ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ذہن میں پیدا ہونے والی خواہشات اور ان کو لگام دینے کے اسباب  کی تعلیم،غیر شرعی طریقہ سے جنسی تعلقات کے  دینی اور دنیوی نقصانات بھی مناسب عمر میں انہیں  بتانا یہ سب  درحقیقت تربیت جنسی ہے۔

اسلامی احکامات  کے مطابق بچے کی جنسی تعلیم و تربیت اس کی زندگی کے تین اہم حصوں سے متعلق ہیں

۔۱۔ پیدائش کے بعد اور ممیز ہونے سے پہلے{ صحیح اور غلط کی شناخت کا مرحلہ}

۲۔ ممیز ہونے کے بعد اوربالغ ہونے سے پہلے

۳۔بالغ ہونے کے بعد کا مرحلہ 

متعدد قرآنی اور احادیثی شواہد کے مطابق  والدین پر لازم ہے کہ وہ اس طرح کے تدابیر کا اہتمام کریں کہ ان کے بچے بالغ ہونے کے بعد  مذہبی قوانین کے پابند ہوں اور شرعی احکامات کی مخالفت نہ کریں تا کہ  ان کو آخرت کے عذاب کا سامنا  کرنا نہ پڑے۔ 

جنسی تعلیم  و تربیت  کے مختلف طور و طریقے ہیں

۔۱۔ مستقیم طریقہ:اپنےبچوں کو ایک یاد دہانی کے بطور خاندان میں معاشرتی اور تعامل کا صحیح طریقہ سکھائیں ، خاندان میں مخالف جنس کے ساتھ تعلقات کی حد  کیا ہے اور کس حد تک برقرار رکھنا ہے 

۔۲۔غیر مستقیم طریقہ:بالواسطہ طریقہ کار میں ، لڑکوں کے کمرے کو لڑکیوں سے علیحدہ کرنا جس کی  دین  اسلام میں سفارش کی گئی ہے۔ لہذا  والدین اورمربی کو بچوں  کی جنسی تعلیم و تربیت کے لئے براہ راست اور بالواسطہ طریقے استعمال کرنا چاہیے۔

جنسی خواہشات کو تحریک  کرنے والے اسباب کی روک تھام

یہ تصور  حقیقت   کے برخلاف ہیں  کہ ایک بچہ بلوغت تک جنسی خواہش نہیں رکھتا اور یہ کہ اس کے سامنے جو بھی کرے اس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ جنسی خواہشات انسان میں پیدائش سے ہی موجود  ہوتاہے۔  دانشمندوں کے نزدیک بچے  بھی جنسی طور پر تحریک ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ بعض کے مطابق{ orgasm} کی حد تک  بھی پہنچ جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ جنسی خواہشات کی قبل از وقت تحریک، بچے کو صحیح وقت سے پہلے ہی اس چیز سے آگاہ کر دیتا ہے، اور پھر اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس مسئلے کی تصدیق دین اسلام نے کی ہے اور جو روایات اس سلسلے میں کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ،اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بچوں میں بھی جنسی خواہشات ہوتی ہے ، لہذا  بچوں کے جنسی خواہشات کو وقت سے پہلے تحریک کرنے سےپرہیز کرنا چاہئے ۔بچوں کےجلد بلوغ ہونے  کے منفی نتائج سےوالدین کو آگاہی حاصل کرنے   کی ضرورت ہے تاکہ وہ یہ جان لیں کہ اپنے بچوں کو  کیسےانحرافات اور فساد اخلاقی سے  بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے جو مناسب روش اورطریقہ کار ہیں وہ یہ ہیں:

مناسب روش اور طریقہ کار

1۔ بچوں کے بستر کو الگ کرنا

ممیز بچوں کے ایک ہی بستر میں سونے کی وجہ سے ممکن ہے کہ بچے جلد بالغ ہو اور ممکن ہے  کہ ناجائز تعلقات بھی پیدا کرے۔اس لئے دین اسلام نے اس آسیب سے بچنے کے لئے دستور دیا ہے کہ بھائی اوربہن کے بستروں کو الگ کریں   ۔

 ہمارے پاس اس سلسلے میں روایتوں کی تین قسمیں ہیں جن میں بسترکو الگ کرنے کا عمر  چھ ، سات اور دس سال  بیان کیا  گیاہے ۔ ایک حدیث میں امام علی علیہ السلام  فرماتے ہیں: {انه یفرق بین الصبیان فی المضاجع لست سنین}۱      چھ سال کے بچوں کا بستر الگ ہونا چاہئے۔

ایک اور حدیث میں ، امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: { يَثَّغِرُ الصَّبِيُ لِسَبعٍ، ويُؤمَرُ بِالصَّلاةِ لِتِسعٍ، ويُفَرَّقُ بَینهم فِي المَضاجِعِ لِعَشرٍ }۲ سات سال کی عمر میں ، بچہ اپنے دانت کھو دیتا ہے اور نو سال کی عمر میں اسے نماز پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، اور دس سال کی عمر میں ، ان کے بستر الگ ہوجاتے ہیں۔

رسول  خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: :{ إذا بَلَغَ أولادُكُم سَبعَ سِنینَ فَفَرِّقوا بَینَ فُرُشِهم...}۳جب آپ کے بچے سات سال کے ہو جائیں تو ان کا بستر الگ کریں۔اسی محتوی کو ایک  اورعبارت میں یوں فرماتے ہیں: {فرقوا بین اولادکم فی المضاجع اذا بلغوا سبع سنین}۴  جب آپ کے بچوں کی عمر سات سال سے زیادہ ہو تو ان کے بستر کو  الگ کریں۔

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:{ الصَّبِيُ وَالصَّبِيُ، وَالصَّبِيُ وَالصَّبِیَّةُ، وَالصَّبِیَّةُ وَالصَّبِیَّةُ يُفرَّقُ بینَهم في المَضاجِعِ لِعَشرِ سِنینَ}۵ دس سال کے بچوں کا بستر ، چاہے وہ لڑکے کے ساتھ لڑکا ہو ، یا لڑکا لڑکی ہو ، یا لڑکی لڑکی ہو ، الگ الگ ہونا چاہئے۔  امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: يُفَرَّقُ بَینَ الغِلمانِ وَالنِّساءِ فِي المَضاجِعِ اذا بَلَغوا عَشرَ سِنینَ۶۔ جب لڑکے دس سال کی عمر میں پہنچ جاتے ہیں تو ان کا بستر خواتین سے الگ ہوجاتا ہے۔

2۔ بچوں کے جنسی اعضاء کو ہاتھ نہ لگانا

بچوں کو جنسی  انحرافات سے  روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان کے شرمگاہ کو چھو نے سے گریز کریں۔ چھ سال سے زائد عمر کے بچوں میں جنسی طور پر تحریک ہونے کا زیادہ احتمال  پایا جاتا ہے   ، اور اس عمر کے بچوں کے جنسی اعضاء  کو  چھونے سے جنسی انحرافات کا زمینہ فراہم ہوتا ہے  ۔ اسی بات کی نشاندہی کرتے ہوئے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: {مُباشَرَةُ المَرأَةِ ابنَتتها اذا بَلَغَت سِتَّ سِنینَ شُعبَةٌ مِنَ الزِّنا}۷چھ سال کی عمر تک پہنچنے  کے بعد عورت کا اپنی بیٹی کے شرمگاہ کو چھونا ایک قسم کی زنا ہے۔

اس طرح کی روایات میں زنا سے مراد اس کا  عام معنی مراد ہے  یعنی اس میں طرح طرح کے جنسی انحرافات شامل ہیں جیسے: مشت زنی ، ہم جنس پرستی اور زناوغیرہ ۔جب ماں اپنی بیٹی کے شرمگاہ کو چھوتی ہے تو  اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ بچی جوانی میں مشت زنی اور ناجائز تعلقات کی طرف رجوع کرے ۔ لہذا بچپن میں ماں کا یہ فعل اس کے جوانی میں جنسی انحرافات کے لئے زمینہ  فراہم کرتا ہے۔ اسی وجہ سے  امام علی علیہ السلام  نے اس فعل کی قباحت کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے زنا سے تعبیر کیا ہے۔

۳۔ بچے اوربچیو ں کا بوسہ لینا

اس بات کے باوجود کہ  دین اسلام میں بچوں  کے ساتھ پیار و محبت کی تاکید کی گئی ہے لیکن یہی عمل کسی خاص معینہ عمر کے بعد نامحرم افراد کے لئے ممنوع  قرار دیاہے ۔ اگرچہ ہم نے کسی روایت میں یہ نہیں دیکھا کہ بلوغت سے پہلے ہی لڑکیوں کو  حجاب اور خاص لباس پہننے پر مجبور  کرنے کا حکم  موجودہو لیکن کچھ ایسے تعلقات جیسے: بوسہ لینا اور نامحرم افراد کا بچیوں کو گود میں اٹھانا اورگلے لگانا وغیرہ ان چیزوں کی نہی کی گئی ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: {إذا أتَت عَلَى الجارِيَةِ سِتُّ سِنینَ لَم يَجُز أن يُقَبِّلها رَجُلٌ لَیسَ هی بِمَحرَمٍ لَهُ ، ولا يَضُمها إلَیهِ }۸جب لڑکی چھ سال کی عمر میں پہنچ جائے تو کسی نامحرم افراد  کے لئے اسے  بوسہ دینا  یا اس کو گلے لگانا جائز نہیں ہے۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص امام سے پوچھتا ہے: ایک نامحرم لڑکی خودمیرے آغوش میں بیٹھ جاتی  ہے اور میں اسے اٹھا کر اس کا بوسہ لیتا ہوں  ،اس کا کیا حکم ہے؟امام نے جواب  میں فرمایا: {إذا أتی علیها ست سنین فلا تضعها علی حجرک.}۹اگر لڑکی چھ سال کی  ہو جائے تو اسے اپنے پاؤں پر مت بیٹھاو۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت  نقل ہے کہ آپ نے فرمایا: {إذا بَلَغَتِ الجارِيَةُ سِتَّ سِنینَ فَلا تُقَبِّلها ، وَالغُلامُ لا يُقَبِّلُ المَرأَةَ إذا جاوَزَ سَبعَ سِنینَ }۱۰ جب کوئی لڑکی چھ سال کی عمر میں پہنچ جائے  تو کسی لڑکے کے لئے اس کا بوسہ لینا جائز نہیں ہے ، اور جب لڑکا سات سال کی عمر میں پہنچ جائے تو کسی نامحرم عورت کے لئے اس کا بوسہ لینا   جائز نہیں ہے۔لڑکیوں کی جلد بلوغت کی وجہ سے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکوں سے ایک سال پہلے لڑکیوں کی عمر کا تذکرہ کیا ہے کیونکہ لڑکیاں لڑکوں سے پہلے ہی ان امور سے واقف ہوجاتی ہیں ۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس طرح کی ہدایات  فرما کر  درندہ صفت افرادکے لئے سو استفادہ کرنے کا راستہ بند کر دیتے ہیں جو بچوں  اوربچیوں کے ساتھ  پیار اورمحبت کے نام سےاپنی جنسی خواہشات کی تسکین کے درپے ہوتے ہیں۔ بڑے بچے اوربچیوں کے  ہونٹوں کا بوسہ لینا غالباجنسی تحریک کا  باعث بنتا ہے  اسی لئے  امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: {لیس القبله علی الفم الا للزوجه والولد الصغیر}۱۱ چھوٹے بچے اور بیوی کے  علاوہ کسی اور کےہونٹوں کا بوسہ لینا جائز نہیں ہے۔ لہذا   والدین اور دوسرے تمام افراد  کو چاہیے کہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ پیار و محبت کرتے وقت  نہایت ہی احتیاط اورآگاہی کے ساتھ  پیار و محبت کا اظہار کرے۔ 

۴۔ والدین کا مخفی طور پر جنسی تعلقات قائم کرنا

 بچوں کو جلدی  جنسی تحریک  سے روکنے  کا ایک طریقہ یہ ہے کہ والدین  اپنے بچوں سے مخفی طور پر ہمبستری انجام دیں اور یہ حکم بچے کی پیدائش سے لے کر نوجوانی تک کے لئے ہے۔ یعنی والدین اپنے بچوں کے سامنے جنسی تعلقات  قائم کرنےسے اجتناب کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:{ وَالَّذي نَفسي بِیَدِهِ ، لَو أنَّ رَجُلاً غَشِيَ امرَأَتَهُ وفِي البَیتِ صَبِيٌ مُستَیقِظٌ يَراهما ويَسمَعُ كَلامهما ونَفَسسهما ما أفلَحَ أبَدا ؛ إذا كانَ غُلاما كانَ زانِیا ، أو جارِيَةً كانَت زانِیَةً}  

اس ہستی کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہیں   اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ اس حالت میں جنسی تعلقات قائم کرے   کہ اس کے گھر میں ایک بچہ انہیں دیکھ رہا ہوں یا  ان کی آواز اور سانسیں  سن رہا ہو  تو وہ کبھی بھی ہدایت نہیں پائیں گے  چاہے لڑکا ہویا لڑکی ، وہ زنا کار ہو گا ۔

امام صادق علیہ السلام  فرماتے ہیں :{لا يُجامِعِ الرَّجُلُ امرَأَتَهُ ولا جارِيَتَهُ وفِي البَیتِ صَبِيٌ ؛ فَإِنَّ ذلِكَ مِمَّا يورِثُ الزِّنا}۱۲ بچوں کے سامنے اپنی بیویوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم مت کرو  ، کیونکہ یہ ان بچوں کے زناکار ہونے کا باعث بنتا ہے۔

 بچے کی موجودگی میں میاں بیوی کا جنسی تعلقات قائم کرنا ان عوامل میں سے ہیں جس کی وجہ سے جنسی انحرافات کا شکار ہوسکتاہے۔ کیونکہ والدین کے اس طرز عمل کو دیکھ کر بچے کا تجسس بڑھ جاتا ہے اور  پھر وہ اپنے دوست کے ساتھ اسی طرز عمل کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے  مطابق بھی اس عمل کا بچے پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: { نهی رَسولُ اللّه صلى لله علیه و آله أن يُجامِعَ الرَّجُلُ امرَأَتَهُ وَالصَّبِيُ فِي المهد يَنظُرُ إلَیهما}۱۳ رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حالت میں  مرد کو اپنی بیوی سے جماع کرنے سے منع فرمایا جب کوئی بچہ گہوارے میں ہو اور انہیں دیکھ  رہا ہو۔  اس حدیث میں بھی  بچوں کو جنسی  انحرافات سے روکنے کے   اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ میاں بیوی ایسی جگہ جنسی تعلقات قائم نہ کریں جہاں بچہ والدین کو دیکھ رہا ہو یا ان کی آواز  سن رہا ہو ۔

 حقیت میں یہ حکم عمومیت رکھتا ہے اور ہر اس مورد کو شامل ہوتا ہے  جو جنسی تحریک کا باعث بنتا ہے چاہے کسی  فحش فلموں کو دیکھ کر ہو یا والدین  کی طرف سے  بےاحتیاطی کی بناپر انہیں کوئی تحریک آمیز منظر دیکھنے کو ملے  لہذا  جو والدین  غفلت کی وجہ سے بچوں کو ایسی فلمیں دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں ، یا ان کے ہاتھوں میں موبائیل دیتے ہیں اور کبھی  یہ چیک نہیں کرتے کہ  بچے کن کن چیزوں کو مشاہدہ کرتاہے ،  تو ایسے والدین  کو مستقبل میں سنگین نتائج  کا سامنا کرنےکے لئے تیار رہنا چاہیے ، کیونکہ اس چیز   کا ذمہ دار خود ان کے  والدین کےسوا  اورکوئی نہیں ہے۔

5. والدین کے مخصوص کمرے میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کرنا

 والدین  رات کو سونے کے لئے جو لباس پہنتے ہیں  اسی طرح ان کے سونے کے انداز  کو دیکھ کر بچے کا ذہن مختلف چیزوں کی طرف مشغول ہو جاتا ہے اور یہی منظر بچے کے جنسی تحریک کا سبب بھی بن سکتاہے اس لئے خدا وند متعال نے بچوں کو یہ حکم دیا ہے کہ والدین کے کمرے میں داخل ہوتے وقت ان سے اجازت طلب کریں۔

يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لِيَسْتَذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكمُ‏ وَ الَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُواْ الحْلُمَ مِنكمُ‏ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِّن قَبْلِ صَلَوةِ الْفَجْرِ وَ حِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَ مِن بَعْدِ صَلَوةِ الْعِشَاءِ  ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ  لَيْسَ عَلَيْكمُ‏ وَ لَا عَلَيْهِمْ جُنَاحُ  بَعْدَهُنَّ  طَوَّافُونَ عَلَيْكمُ بَعْضُكُمْ عَلىَ‏ بَعْضٍ  كَذَالِكَ يُبَينِ‏ اللَّهُ لَكُمُ الاَيَاتِ  وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ.وَ إِذَا بَلَغَ الْأَطْفَلُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَذِنُواْ كَمَا اسْتَذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ  كَذَالِكَ يُبَينِ‏ اللَّهُ لَكُمْ ءَايَتِهِ  وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔۱۴

اے ایمان والو! ضروری ہے کہ تمہارے مملوک اور وہ بچے جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں تم سے اجازت لے کر آیا کریں، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور ان پر، اللہ اس طرح تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

اور جب تمہارے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اجازت لیا کریں جس طرح پہلے (ان کے بڑے) لوگ اجازت لیا کرتے تھے، اس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے بیان کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

آیہ کریمہ کے بارے میں موجود  احتمالات

آیہ کریمہ کے بارے میں تین احتمالات موجود ہیں۔پہلا احتمال یہ ہے کہ نابالغ بچوں کا والدین کے کمروں میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینا ایک قسم کی تمرین ہے ۔ یہ ایک شرعی اور لازمی{ مولوی }حکم  نہیں ہے کہ اگر اس کے خلاف عمل کریں تو  آخرت میں سزا درکار ہو۔کچھ افراد کا خیال ہے کہ نابالغ افراد پر کوئی شرعی ذمہ داری نہیں ہے اس لئے بچوں پر واجب نہیں ہے  بلکہ والدین پر واجب ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس چیز کی تعلیم دیں۔ ۱۵

دوسرا احتمال یہ ہے کہ امر کا صیغہ یہاں شرعی  اور لازمی حکم{مولوی}  کو بیان کر رہاہے جو نابالغ افراد پر  لازم قرار دے رہا ہے کہ وہ اپنے والدین کے کمروں میں جاتے وقت ان سے اجازت طلب کریں۔۱۶

تیسرا احتمال یہ ہے کہ یہ ایک شرعی  حکم ہے اوربچوں پر  والدین کے کمرے میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کرنے کو واجب قراردیتا ہے لیکن  ادلہ رفع قلم  کی  بنا  پر نابالغ افراد کے لئے والدین کے کمرے میں داخل ہوتے وقت اجازت  طلب کرنا مستحب ہے۔  

 ان تینوں احتمالات میں سے تیسرا احتمال زیادہ قوی ہے  یعنی نابالغ بچوں  کے لئے والدین کے کمرے میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینا مستحب ہے ۔لیکن نابالغ افراد اس عمل کو ترک کر دیں تو وہ مستحق عقاب نہیں ہوں گے لیکن اگر کوئی اس عمل کو انجام دیں تو وہ مستحق ثواب  ہوگا ۔ پس نابالغ  افراد کے لئے اجازت طلب کرنا مستحب ہے لیکن بالغ افراد کے اوپر لازم ہیں کہ وہ اپنے والدین کے کمرے میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب کریں۔

قرآن مجید نے ان تین اوقات میں اجازت طلب کرنے کی جو علت  بیان کی ہے وہ یہ  ہے کہ یہ تین اوقات پردے کے ہیں یعنی والدین  اپنے جنسی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں  لہذا اگر ان تین اوقات کے علاوہ بھی ان کے  آرام اور جنسی تسکین کا وقت شمار ہو تو اس وقت بھی یہی حکم ہے  ۔اسی طرح جغرافیائی اختلافات اور ثقافتی اختلافات کی وجہ سے دنیا میں موجود تمام افراد کے تنہائی کا وقت صرف ان تین اوقات کے ساتھ محدود نہیں ہےلہذا  باقی اوقات  کا بھی یہی حکم ہے کہ  بچے اپنے والدین کے کمرے میں جاتے وقت ان سے اجازت طلب کریں۔پس آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ والدین  جب آرام کر رہے ہوں اور اپنے کپڑے اتارے ہوئے ہو ں یانازک کپڑے پہنے ہوئے ہوں  اور ممکن ہے کہ  وہ جنسی تعلقات استوار کررہے ہوں تو ان اوقات میں  بچوں کو ان کے کمرے میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ ۱۷

ایک حدیث میں آیاہے کہ ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا:{ قُلتُ لِأَبي عَبدِ اللّه علیه السلام: الرَّجُلُ يَستَأذِنُ عَلى أبیهِ؟ }کیا  کسی فردکو اپنے والد کے پاس جانے کے لئےاجازت طلب کرنی ہوگی؟ امام نے فرمایا: {قالَ : نَعَم، قَد كُنتُ أستَأذِنُ عَلى أبي ولَیسَت اُمّي عِندَهُ، وإنَّما هی امرَأَةُ أبي ، تُوُفِّیَت أُمِّي وأنا غُلامٌ ، وقَد يَكونُ مِن خَلوَتهما ما لا اُحِبُّ أن أفجَأَهماعَلَیهِ، ولا يُحِبّانِ ذلِكَ مِنّي، وَالسَّلامُ أصوَبُ وأحسَنُ}۱۸ ہاں ، میں بھی اپنے والد کے پاس جانے کے لئے اجازت طلب کرتا تھا ، جب کہ میری والدہ فوت ہوگئی تھیں اور میرے والد نے دوسری شادی کرلی تھی اور میں نوجوان تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ  اپنےذاتی زندگی میں کچھ ایسے عمل میں  مصروف ہوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ  کوئی انہیں  اس حالت میں ڈسٹرپ کر دیں اور وہ    میرے اس عمل  کو پسند بھی نہیں کرتے ہیں۔ لہذا  صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان سے اجازت طلب کریں اور انہیں سلام کریں۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: { السنن الكبرى عن عطاء بن يسار: أنَّ رَسولَ اللّه صلى لله علیه و آله سَأَلَهُ رَجُلٌ فَقالَ : أستَأذِنُ يا رَسولَ اللّه عَلى اُمِّي؟ فَقالَ : نَعَم. فَقالَ : إنِّي مَعها فِي البَیتِ فَقالَ : اِستَأذِن عَلَیها فَقالَ الرَّجُلُ : إنّي خادِمها فَقالَ : أتحِبُّ أن تَراهاعُريانَةً؟ قالَ : لا. قالَ : فَاستَأذِن علیها}۱۹ کسی نے خدا کے نبی سے پوچھا: اے اللہ کے نبی: کیا میں اپنی والدہ کے پاس جانے کے لئے اجازت طلب کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس شخص نے کہا: میں اس کے ساتھ  ایک گھر میں رہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اس کےپاس وارد ہونے کے لئے اجازت طلب کرو۔ اس شخص نے کہا: میں اس کا خادم ہوں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا: کیا تم اسے ننگے دیکھنا پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا: پس اس کے پاس وارد ہونے کے لئے اجازت طلب کرو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{يَستأذِنُ الرَّجُلُ إذا دَخَل عَلَى أبیهِ ، ولا يَستَأذِنُ الأَبُ عَلَى الابنِ.قالَ : ويَستأذِنُ الرَّجُلُ عَلَى ابنَتِهِ واُختِهِ إذا كانَتا مُتَزَوِّجَتَینِ}۲۰کسی بھی شخص کے لئے اپنے باپ کے پاس وارد ہونے کے لئے اجازت طلب کرنا لازم ہے لیکن باپ  کے لئے لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے پاس وارد ہونے کے لئے اجازت طلب کرے۔ اسی طرح باپ  پر لازم ہے کہ وہ اپنی شادی شدہ بیٹی اور بہن کے پاس جائیں تو ان سے اجازت طلب کرے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق بھی اگر کوئی بچہ اپنے   والدین  کوجنسی تعلقات قائم کرتے ہوئے مشاہدہ کر  لیں تو اس کے ذہن میں بہت زیادہ منفی اثر ات پڑتے ہیں ۔

۶۔ دوسروں کی شرمگاہوں کی طرف دیکھنے سے پرہیز کرنا

بچوں کے سامنے کپڑے اتارنے سےدو طرح سے ان پر منفی اثر پڑتا ہے: ایک طرف  یہ ان کی شرم  اورحیاء کو ختم کردیتا ہے اور دوسری طرف  یہ عمل بچوں کو جنسی طور پرتحریک کرتا ہے۔ یہ مسئلہ بچوں کے کپڑے اتارنے اور ان کے شرمگاہ کو دیکھنے کے حوالے سے بھی  ہے۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: {بئس البیت الحمام یهتک الستر و یبدی العورة و نعم البیت الحمام یذکر حر النار و من الآداب أن لا یدخل الرجل ولده معه الحمام فینظر إلی عورته}۲۱ گھر کا بدترین حصہ حمام ہے کیونکہ غسل خانہ میں شرمگاہیں آشکار ہو جاتی ہیں ۔ دوسری جہت  سے گھر کا بہترین جگہ غسل خانہ  ہے کیونکہ جہنم کی آگ یاد دلاتا  ہے۔ادب اور  شائستگی کا تقاضا ہے  کہ باپ  اپنے بیٹے کو حمام اورغسل خانے میں   اپنےساتھ نہ لے جائیں تا کہ بیٹے کی نظر باپ کی شرمگاہ پر نہ پڑے۔ اس حدیث میں  امام صادق علیہ السلام بچوں کی  جنسی اشتعال کو روکنے کے لئے ایک اور طریقہ فرما رہے ہیں ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ والدین  اپنے بچوں کو غسل خانے میں ساتھ  نہ لے جائیں  اور ان کے سامنے کپڑے اتارنے سے پرہیز کریں۔

امام صادق علیہ السلام  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں : {لایدخل الرجل مع ابنه الحمام فینظر إلی عورته، و قال: لَیسَ لِلوالِدَينِ أن يَنظُرا إلى عَورَةِ الوَلَدِ ، ولَیسَ لِلولَدِ أن يَنظُرَ إلى عَورَةِ الوَالِدِ.}۲۲  باپ کو اپنے بیٹے کے ساتھ   حمام میں  نہیں جانا چاہیے تاکہ بیٹے  کی نظر باپ کی شرمگاہ پر نہ پڑے۔ والدین کو اپنے بچے کی شرمگاہ کو دیکھنے کا  کوئی حق نہیں ہے ، اور بچوں کے لئے بھی یہ حق حاصل  نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کی شرمگاہ کی طرف نگاہ کریں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی سلسلے میں فرماتے ہیں: { المستدرك على الصحیحین عن محمد بن بیاض : رُفِعتُ إلى رَسولِ اللّه صلى لله علیه و آله في صِغَري وعَلَيَ خِرقَةٌ وقَد كُشِفَت عَورَتي ، فَقالَ : غَطُّوا حُرمَةَ عَورَتِهِ فَإِنَّ حُرمَةَ عَورَةِ الصَّغیرِ كَحُرمَةِ عَورَةِ الكَبیرِ، ولا يَنظُرُ اللّه إلى كاشِفِ عَورَةٍ..}۲۳مجھے بچپن میں  رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کی خدمت میں لے جایا گیا۔میرے جسم پر لباس کا  ایک ٹکڑا تھا جس کی وجہ سے میری شرمگاہیں ظاہر ہوگئی۔ آپ نے فرمایا: اس کےشرمگاہوں کو ڈھانپ دو ، کیونکہ  بچے کے شرمگاہ  کی حرمت بھی  بڑے افرادکی شرمگاہوں کی حرمت کی طرح ہیں  اور خدا وند متعال  ایسے افرادکی طرف نظر نہیں کرتا جو اپنی شرمگاہوں کو ظاہر کرتا ہے۔

امام  محمد باقر علیہ السلام  فرماتے ہیں:{ كانَ عَلِيُ بنُ الحُسَینِ علیه السلامإذا حَضَرَ وِلادَةُ المَرأةِ قالَ : أخرِجوا مَن فِي البَیتِ مِنَ النِّساءِ ؛ لا تَكونُ المَرأَةُ أوَّلَ ناظِرٍ إلى عَورَتِهِ}۲۴ امام زین العابدین علیہ السلام   ہمیشہ جب بھی ان کی شریک حیات کی  وضع حمل قریب ہوجاتی ، تو  فرماتے تھے  کہ کمرے میں موجود خواتین باہر  نکل جائیں تاکہ  خواتین  کی پہلی نظر شرمگاہ کی طرف نہ ہو۔

۷۔ بچوں کو مناسب لباس پہنانا

امام علی فرماتےہیں: ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ بقیع  میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک عورت کسی سواری  پر سوار ہو کر وہاں سے  گزر رہی تھی کہ اچانک وہ سواری سے زمین پر گر پڑی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنا چہرہ  دوسری طرف کر دیا۔آپ کو کہا گیا کہ اس عورت نےشلوار پہن رکھی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: یااللہ ، تیری مغفرت اور بخشش ان عورتوں کو شامل  کر دیں جو شلوار پہن لیتی ہے۔ اے لوگو: شلوار ڈھانپنے کے لئے بہترین کپڑا ہے۔ تمہاری بیویاں گھر وں سےسے نکلتے وقت شلوار پہن کر اپنی حفاظت  کیاکریں۔

جسمانی خصوصیات کے اعتبار سے لڑکیوں کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے لڑکوں کا مناسب لباس پہنانا نہایت ہی ضروری ہے۔ والدین اپنےبچوں کو اس بات کی تعلیم دیں کہ انہیں کس قسم کا لباس لباس زیب تن کرنا چاہیے اورکس قسم کا لباس زیب تن نہیں کرنا چاہیے تاکہ   بچے صحیح لباس کا انتخاب کریں ۔آج کل یہ بات فیشن بن چکی ہے کہ مرد اورعورت دونوں نازک اور ٹائیٹ لباس پہن لیتے ہیں جس سے جسم کے تمام اعضاء ظاہر ہوتے ہیں  اور یہی چیز دوسرے افراد  کے  جنسی خواہشات کو ابھارنے کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ ہر دن  ریپ میں اضافہ ہو  رہا ہے۔  یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اغوا کر کے اپنی جنسی تسکین کا نشانہ بناتےہیں ۔یہ سب والدین کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لباس کے انتخاب میں ایسی چیزوں کو مد نظر نہیں رکھتے بلکہ وحشی  اوردرندہ صفت افراد کے لئے اپنے بچوں کو  اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے بھیج دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی برائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو یہ بات سکھا دیں کہ معاشرے میں لڑکی  کو کیا لباس پہنا چاہیے اورلڑکے کو کیا لباس زیب تن کرنا چاہیے۔ بچوں کے لئے بچیوں کا لباس یا لڑکیوں کے لڑکوں کا لباس پہنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ لڑکیوں کو  چھوٹے عمر میں ہی چادر اور اسکارف پہننے کی عادت ڈالنا انہیں مستقبل میں ہر قسم کی اخلاقی برائیوں سے دور رکھتا ہے  اور حجاب اس کا محافظ بن جاتا ہے۔

تربیتی نکات

1. والدین پر واجب ہے کہ وہ  اپنےبچوں کی جنسی تربیت کریں اوران کی جنسی خواہشات کو صحیح سمت کی طرف  راہنمائی کریں اور ان کے جنسی خواہشات کو جائز طریقہ سے پورا کرنے کے لئے ان کی مدد کریں۔ 

2. بچوں کی جنسی تربیت کے وجوب کا حکم ان کی بلوغت سے پہلے ہے لیکن آیہ وقایہ اور رسالہ حقوق امام سجاد علیہ السلام کے مطابق اس کی انتہا  کے لئے کوئی وقت معین نہیں ہے۔

3. بچوں کی حفاظت کی جو ذمہ داری ہے وہ احتمال تاثیر کے ساتھ مشروط ہے ۔لہذا اگر والدین کو ذاتی طور پر  یہ اطمینان حاصل ہو کہ  ان کی باتوں اور  ان کے کسی بھی کام سے ان کے بچوں  پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو اس وقت یہ ذمہ داری ان سے ساقط ہو جاتی ہے۔

4. والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک بچوں کی جنسی  تربیت کرنا ہے  اور والدین  کو چاہئے کہ بچوں کے  بستر کو جدا کریں۔

5. بچوں کے بستر کو الگ کرانی کی ذمہ داری صرف والدین کا  نہیں ہے ، بلکہ ہر وہ   فرد جو بچے کا مربی ہو اور بچے کی تربیت کا تعلق اس سے ہو وہ بھی ذمہ دار ہے۔

6. بچوں کے بستر کو جدا   نہ کرنا بچوں کے جلدی بلوغ  اور جنسی تحریک کا باعث بنتا ہے۔

7. والدین   کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو محرم اور غیر محرم ، حلال اور حرام کی تعلیم  دے۔

8. کسی لڑکی یا لڑکے کے ساتھ ماں کا غیر مناسب جسمانی رابطہ اس کو جنسی طور پر منحرف کرسکتا ہے۔

9. والدین نامحرم افراد کے سامنے پردے کی رعایت کریں اوراس سلسلے میں سہل انگاری اور سادہ اندیشی سے پرہیز کریں۔

10. والدین بچوں کے سامنے عشق و عاشقی سے پرہیز کریں۔

11. والدین بچوں کو اس چیز کی تعلیم دیں کہ انسان کے بعض اعضاء اس کی ذاتی اورشخصی حریم کی حثییت رکھتی ہے اس لئے ان کی طرف نگاہ  کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

12. ماوں کو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ بچوں کی جسمانی صفائی کرتے وقت کوئی اوربچہ اس کی طرف نہ دیکھ رہا ہو۔ 

13. بیدار اورہوشیاربچوں کے ہوتےہوئے مجامعت کرنا سخت مکروہ ہے لیکن اگر ماہرین تربیت  کے مطابق  بیدار اور ہوشیاربچوں کے سامنے مجامعت اور ہمبستری بچوں کے مستقبل میں انحراف کا باعث بنتی ہے اس لئے { ولاتعاونوا علی الاثم }کے عنوان سے حرام ہے یا آیہ وقایہ کے مطابق  ان  کی غیر موجودگی میں  جنسی تعلقات قائم کرنا واجب ہے۔

14. بچوں کی جنسی تربیت کے لئے والدین پہلے اپنے بچوں کو یہ سکھائے کہ  وہ والدین کے کمرے میں آتے وقت اجازت لے کر آئیں اور اچانک  بغیر اجازت کے اندر نہ آئیں ۔

15. والدین پرنابالغ بچوں کو  والدین کے کمرے میں اجازت لے کر آنے کا  طریقہ سکھانا مستحب ہے لیکن بالغ اوربڑے افراد کے لئےیہ طریقہ  سکھانا واجب ہے ۔

16. بچوں کی جنسی تربیت کرنا والدین پر واجب عینی ہے اگرچہ ماں یا باپ میں سے کسی ایک کی طرف سے یہ ذمہ داری کامل طور پر ادا ہو جائے تو دوسرےا فراد سے ساقط ہو جائے گی۔ 

17. نامحرم انسان چھ سال کی لڑکی کو اپنی آغوش میں نہ لیں اسی طرح اس کا بوسہ بھی نہ لیں۔

18. چھوٹی بچیوں کے جسم دوسروں کے سامنے عریان نہیں ہونا چاہیے۔

19. بچوں کے سونے کی جگہ  یعنی بسترچھ سال کے بعد جدا ہونا چاہیے۔

20. والدین ایک دوسرے کے ساتھ  پیار و محبت اورعشق و عاشقی کرتے وقت اس بات کی طرف توجہ رکھے کہ بچے گھر میں ہمیشہ ان کے اعمال اوررفتار کے نظارہ گر ہیں  ، لہذا اس چیز سے غافل نہ رہے۔

21. کسی بچے کے جنسی اعضاء سے کھیلنا جنسی اشتعال اور قبل از وقت بلوغت کا سبب بن سکتا ہے۔

22. بالغ افراد کو مخالف جنس کے بچوں کابوسہ لینے سے گریز کرنا چاہئے۔

23. والدین کو غیر محرم کے سامنے حجاب کا پابند  رہنا چاہئے اور اس سلسلے میں غفلت  نہیں برتنا  چاہئے کیونکہ بچوں  پر اس کا بہت زیا دہ اثر پڑتا ہے۔

نتیجہ:

اسلامی نقطہ نظر سے ، جنسی تعلیم و تربیت  کا مطلب جنسی غریزہ کی رشد اور نشوونما  اس طرح سے کرنا ہے کہ عفت جنسی اور  صحت جنسی دونوں حاصل ہو۔ دینی نقطہ نگاہ سےجنسی تعلیم و تربیت  بلوغت سے قبل اور تقریبا انسان کی پیدائش سے ہی شروع ہوتی ہے۔ بچوں کی جنسی تعلیم  و تربیت ،تعلیم  و تربیت  کے ایک اہم اور حساس حصہ ہے۔ کیونکہ یہ بچے کی  مستقبل  میں سعادت اور شقاوت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

تربیت سے مراد مربی کا متربی کےمختلف جہات میں سے کسی ایک جہت{ جیسے جسم، روح ،ذہن،اخلاق،عواطف یا رفتار  وغیرہ} میں موجود بالقوۃ  صلاحیتوں کو تدریجی طور بروئے کار لانایا متربی میں موجود  غلط صفات اور رفتا رکی اصلاح کرنا تاکہ وہ کمالات انسانی  تک پہنچ سکے۔ 

 تربیت  جنسی سے مراد  والدین  یامربی کا بچے کی جنسی خواہشات کو صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرنا اور اسے مختلف انحرافات سے بچانا تاکہ بچےبالغ ہونے کے بعد جنسی  خواہشات کو پورا کرنے میں انحرافات کا شکار نہ ہو۔

 والدین اورمربی  کا بچوں  کے لئے  بچپن ، نوجوانی اور جوانی میں سیکس ایجوکیشن دینا ، مناسب جنسی رجحان رکھنے اور جنسی انحرافات کو روکنے کے لئے معاون و مدگا ر ثابت ہوتے ہیں۔والدین اورمربی بچوں کی  جنسی تربیت  کریں تاکہ وہ بلوغت کے دوران جنسی گناہوں کا ارتکاب نہ کریں اور بلوغت کے بعد جنسی انحرافات کا شکارنہ ہو  

متعدد قرآنی اور حدیثی شواہد کے مطابق والدین پر لازم ہے کہ وہ  اپنے بچے کی جنسی تربیت کریں تاکہ  بالغ ہونے کے بعد وہ اسلامی قوانین کاپابند ہو اور شرعی احکامات کی مخالفت نہ کریں تا کہ آخرت میں عذاب کا سامنا  کرنا نہ پڑے ۔ لہذا بچوں کو جنسی تعلیم دینا اوران کے جنسی خواہشات کو  صحیح سمت  کی طرف راہنمائی کرنا اور انہیں جنسی انحرافات سے بچانا  اور ان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے جائز  مواقع فراہم کرنا۔۔وغیرہ یہ سب  والدین کی شرعی ذمہ داری ہے۔

حوالہ جات:

۱۔ کتاب من لا یحضره الفقیه، ج3، ص436؛ وسائل الشیعة، ج20، ص231.

۲۔ الكافي :ج 7 ص 69 ح 8 ، تهذيب الأحكام : ج 9 ص 183 ح 738 كلاهما عن عیسى بن زيد عن الإمام الصادق علیه السلام.

۳۔  المستدرک علی الصحیحین، ج1، ص201؛ کنز العمال، ج16، ص441، ح45329.

۴۔ مکارم الأخلاق، ص223؛ بحارالأنوار، ج104، ص96، ح54.

۵۔ کتاب من لا یحضره الفقیه، 3، ص436.

۶۔الكافي : ج 6 ص 47 ح 6 عن ابن القداح ، الخصال : ص 439 ح 30.

۷۔  کتاب من لا یحضره الفقیه، ج3، ص436؛ وسائل الشیعة، ج20، ص230؛ بحارالأنوار، ج104، ص96.

۸۔  تهذیب الأحکام، ج7، ص461؛ وسائل الشیعة، ج20، ص231.

۹۔ الکافی، ج5، ص533؛ وسائل الشیعة، ج20، ص229.

۱۰۔کتاب من لا یحضره الفقیه، ج3، ص437؛ وسائل الشیعة، ج20، ص330؛ بحارالأنوار، ج104، ص96، ح51.

۱۱۔الکافی، ج2، ص186، ح6؛ بحارالأنوار، ج10، ص246، ح12.

۱۲۔  الکافی، ج5، ص499-500، وسائل الشیعة، ج20، ص132.

۱۳۔ الجعفريّات : ص 96 ، النوادر للراوندي: ص 120 ح 129 كلاهما عن الإمام الكاظم عن آبائه علیهم السلام.

۱۴۔ نور،۵۸-۵۹

۱۵۔انصاری،موسوعة احکام الاطفال و ادلتها، ج3،ص 505.

۱۶۔ طوسی، تفسیر التبیان،ج7،ص 460.

۱۷۔تفسیر نمونه، ج14، ص541.

۱۸۔  الکافی، ج5، ص528؛ نورالثقلین، ج3، ص586.

۱۹۔ السنن الكبرى : ج 7 ص 157 ح 13558 ، الدرّ المنثور:ج 6 ص 220 نحوه .

۲۰۔الكافي : ج 5 ص 528 ح 3 عن أبي أيوب الخزّاز وراجع : مشكاة الأنوار : ص 344 ح 110.

۲۱۔  کتاب من لا یحضره الفقیة، ج1، ص115؛ بحارالأنوار، ج76، ص77.

۲۲۔الکافی، ج6، ص503؛ کتاب من لا یحضره الفقیه، ج1، ص115؛ وسائل الشیعة، ج2، ص56.

۲۳۔ المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص257؛ کنزالعمال، ج7، ص320.

۲۴۔  كتاب من لا يحضره الفقیه: ج 3 ص 560 ح 4925 ، الكافي : ج 6 ص 17 ح 1 ، تهذیب الأحكام : ج 7 ص 436 ح 1737 

۲۵۔الوافي : ج 23 ص 131

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .