تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
مقدمہ:
حوزہ نیوز ایجنسی। اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔انسان کی خلقت کا مقصد معرفت اورقرب خداوندی حاصل کرنا ہے۔ اسلام دین تعلیم و تربیت ہے اسی لئے خداوند متعال نے انسان کی تربیت کا بندوبست انسان کی تخلیق سے پہلے فراہم کیا اور انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا اور اس کے اندر ایسی صلاحیت ودیعت کی کہ جس کے ذریعہ انسان اگر اپنے وجدان کی طرف توجہ کرے تو اس کا وجدان اسے رہنمائی کرے۔ خدا وند متعال نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی میدان میں بھی انسان کی تربیت کا سامان فراہم کرتے ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انسان کامل ، مربی اور انبیاء بھیجے تاکہ وہ انسان کو اس کی فطرت کے مطابق تربیت کرے۔ قرآن کریم انبیاء الہی کی بعثت کےاہداف میں سے ایک انسان کی تعلیم و تربیت کو قراردیتے ہوئے فرماتا ہے : (هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهْمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَة) اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جوانہی میں سے تھا تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی کوشش یہی تھی کہ انسان کی اندرونی طاقت و استعداد مثبت پہلوؤں کی طرف گامزن ہو، اور وہ کمال اور سعادت کی بلندیاں طے کرے۔ قرآنِ کریم سورۂ آلِ عمران میں اِس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرماتا ہے: (لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلیَ المُؤْمِنینَ إذْ بَعَثَ فیهِمْ رَسُولاً مِنْ أنْفُسِهِمْ یَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَ یُزَکِّیهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ إنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ) ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اِس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔امام خمینی رہ فرماتے ہیں: خدا کی طرف سے جتنے بھی انبیاء علیہم السلام تشریف لائےہیں وہ سب انسان کی تربیت اورانسان سازی کے لئے آئے ہیں۔ اسلامی تربیت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسان کی تمام ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے خواہ مادی ہوں یا معنوی، جسمانی ہوں یا روحانی۔خداوند متعال نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوزا ہے جن میں سے ایک عظیم نعمت اولاد کی نعمت ہے۔ دین اسلام نے اس عظیم نعمت کے حوالے سے والدین کے اوپر کچھ ذمہ دایاں بھی عائد کی ہیں جن میں سے ایک اہم ذمہ داری اولاد کی صحیح تربیت کرنا ہے۔ بچے اس ننھے پودے کی مانند ہے جسے ہر قسم کی گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ کر ایک تناور درخت کی شکل میں پروان چڑھا نا ہوتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کسی قسم کی بھی کوئی کوتاہی اورلاپرواہی نہ کریں۔ بچوں کی اچھی تربیت کے لئے والدین کو خصوصی توجہ دینی چاہیے تا کہ ایک باکردار، پرہیزگار اورباتقوی فرد معاشرہ کے سپرد کرے ۔اولاد کی تربیت کے بارے میں اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اسی لئے بہت سے علماء و
دانشوروں نے تعلیم و تربیت کے موضوع پر اپنی کتابوں میں اولاد کی تربیت پر قلم فرسائی کی ہے۔بندہ حقیر بھی اس مختصر مقالہ میں تربیت اولاد کے بعض انمول اصول کو صفحہ قرطاس پر رقم کرنے کی کوشش کروں گا۔
لغت کی کتابوں میں لفظ" تربیت" کے لیے تین اصل اور ریشہ ذکر ہوئے ہیں۔ الف:ربا،یربو زیادہ اور نشوونما پانےکے معنی میں ہے۔ ب: ربی، یربی پروان چڑھنا اور برتری کے معنی میں ہے۔ج: رب،یرب اصلاح کرنے اور سرپرستی کرنے کے معنی میں ہے۔صاحب مفردات کا کہنا ہے کہ "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے ، نقائص کو تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔ بنابر این اگر اس کا ريشه(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب" سے ہو تو نظارت ، سرپرستي و ریبري اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔
اسلامی علوم اور دینی کتابوں میں تربيت کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں :
1۔ قصد اورارادہ کے ساتھ کسی دوسرے افراد کی رشد کے بارے میں ہدایت کرنے کو تربیت کہا جاتا ہے۔
2۔ تعليم و تربيت سے مرادوہ فعاليت اور كوشش ہے کہ جس میں بعض افراد دوسرے افراد کی راہنمائی اور مدد کرتے ہیں تاکہ وہ بھی مختلف ابعاد میں پیشرفت کرسکے۔
3۔ تربيت، سعادت مطلوب تک پہنچنے کے لئے انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا نام ہے تاکہ دوسرے لوگ اپنی استعداد کو ظاہر کرےاور راہ سعادت کا انتخاب کرے۔
4۔ ہر انسان کی اندرونی استعداد کو بروئے کارلانے کے لئے زمینہ فراہم کرنا اور اس کے بالقوہ استعداد کو بالفعل میں تبدیل کرنے کے لئے مقدمہ اور زمینہ فراہم کرنے کا نام تربیت ہے۔
۴۔شہید مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔
۵۔تربیت سے مراد مربی کا متربی کےمختلف جہات میں سے کسی ایک جہت{ جیسے جسم، روح ،ذہن،اخلاق،عواطف یا رفتار وغیرہ} میں موجود بالقوۃ صلاحیتوں کو تدریجی طور بروئے کار لانایا متربی میں موجود غلط صفات اور رفتا رکی اصلاح کرنا تاکہ وہ کمالات انسانی تک پہنچ سکے۔
اعتقادی تربیت
اعتقادی تربیت سے مراد والدین یامربی کا متربی کے لئے ضروری اعتقادات کا سکھانا اسی طرح وہ تمام اقدامات جن کے سبب متربی ان اعتقادات کو دل سے قبول کرے، ان اعتقادات پر ایمان رکھے اور عملی میدان میں ان اعتقادات پر پابند ہو۔
۱۔ماں باپ {اس کے بعد دادا دادی اور سرپرست شرعی} پر واجب ہے کہ اپنے بچوں کی عقیدتی تعلیم و تربیت کے لئے راستہ ہموار کرے تا کہ بچے ضروری عقائد کی تعلیم حاصل کرسکیں۔
۲۔بچوں کے لئے لازی عقائد کے علاوہ دیگر عقائد کی تعلیم دینامستحب ہے۔
۳۔والدین پر بچوں کی عقیدتی تربیت بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے یا سن تمیز یعنی غلط اور صحیح کی شناخت حاصل ہونے کے عمر میں واجب اور لازم ہے۔
۴۔والدین پر بچوں کی اعتقادی تربیت اس شرط کے ساتھ واجب ہے کہ وہ ذہنی اورنفسیاتی طور پر اس تعلیم کے قابل ہو اوروہ اس تربیت کو درک کر سکیں۔
۵۔والدین کے لئے مستحب ہے کہ وہ بچوں کی عقیدتی تربیت کے لئے کار آمد تر اور مناسب روش اپنائےجیسے ارشاد،تذکر،ترغیب، امر و نہی اور موعظہ اورنصیحت وغیرہ۔
۶۔اگر بچوں کی اعتقادی تربیت کے لئے والدین کو علمی اور عملی تربیت کی ضرورت ہو تو اس صورت میں والدین پر واجب ہے کہ وہ علمی اورعملی طور پر تیار ہو جائیں تا کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکیں۔
۷۔والدین پر بچوں کی اعتقادی تربیت کرنا واجب عینی ہے لیکن اگرکوئی اوراس عمل کو انجام دے تو اس صورت میں والدین سے یہ شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔اس طرح والدین میں سے کسی ایک کے کامل طور پر اس فریضہ کو انجام دینے سے دوسرے ا فراد سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔
۸۔والدین عقیدتی میدان میں اپنی اولاد کے لئے ایک بہترین نمونہ اورآئیڈیل بننے کی کوشش کریں۔
عبادی تربیت
* عبادی تربیت سے مراد والدین یامربی کا متربی کے لئےعبادات کاطریقہ سکھانا اورمتربی کے اندر عبادت و بندگی کا شوق پیدا کرنا ہے تاکہ وہ ان عبادات کو انجام دینے میں پابند ہو ۔
۹۔والدین پر واجب ہے کہ وہ اپنے اولاد کی عبادی تربیت کرے۔
۱۰۔ بچوں کے لئےمستحب اعمال کی تعلیم دینا اورانہیں اس چیز کی طرف ترغیب دلانا مستحب ہے۔
۱۱۔والدین پر بچوں کی عبادی تربیت ان کے بالغ ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے تا کہ بالغ ہونے کے بعد وہ اپنی اختیار اور بڑےذوق و شوق کے ساتھ خالق حقیقی کے سامنے رازو نیاز کرے۔
۱۲۔ نماز اورروزہ کے احکام بچوں کو سکھانا والدین پر واجب ہے۔
۱۳۔ معتبر روایات کے مطابق بچوں کے لئے ۶یا۷ سال کی عمر میں نماز سکھانا چائیے۔اسی طرح معتبر روایات کے مطابق والدین پر واجب ہے کہ اپنے بیٹوں کو ۹ سال کی عمر میں روزہ کے بارے میں بتائیں۔
۱۴۔ والدین پر بچوں کی عبادی تربیت کرنا واجب عینی ہے لیکن اگر کوئی اوراس عمل کو انجام دے تو اس صورت میں والدین سے یہ شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔اس طرح والدین میں سے کسی ایک کے کامل طور پر اس فریضہ کو انجام دینے سے دوسرے فرد سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔
۱۵۔ بچوں کے اندر نماز سے عشق اور محبت کا جذبہ پیدا کرےاور اپنے بچوں میں ایمان کو تقویت دے۔
۱۶۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے لئے دعا کریں۔
۱۷۔امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے بچوں کو جلد از جلد اسلامی احادیث سکھائیں اس سے قبل کہ مخالفین تم پر سبقت لے جاتے ہوئے اپنے غلط عقائد اور نظریات سے تمہارے بچوں کے دلوں کو پر کر دے۔
۱۸۔والدین گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح سے پیش آجائے اورایسی تربیت کرے کہ اسے ایک راستگو اورسچا انسان بنا دے۔ جس بچے کو سچ بولنا سکھایا جاتا ہے وہ انصاف کرنا سیکھتا ہے۔
۱۹۔گناہ سے نفرت اوراس کی برائی کو بچوں کو سمجھائیں تاکہ وہ اس چیز سے دوررہیں۔
۲۰۔بچوں پر والدین کی نصیحت اس وقت اثر کرتا ہےجب والدین خود ان باتوں پر عمل کرتے ہوں۔اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہیے کہ بچوں کی تربیت اس طرح سے نہیں ہوتے جس طرح سے ہم چاہتے ہیں بلکہ بچوں کی تربیت اس طرح سے ہوتے ہیں جس طرح سے ہم ہیں ۔
۲۱۔بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے اور نو سال کی عمر میں روزہ رکھنے کا حکم دے۔
۲۲۔اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دے۔
۲۳۔ والدین کے وظائف میں سے ایک وظیفہ اپنےاولاد کی تربیت اورانہیں واجبات کی تعلیم دینا ہے اور جو شخص ان وظائف پر عمل نہیں کرتا اسلام میں اس کی سخت مذمت ہوئی ہے۔
۲۴۔والدین عبادی میدان میں بھی اپنے اولاد کے لئے ایک بہترین نمونہ اورآئیڈیل بننے کی کوشش کریں۔
عاطفی تربیت
عاطفی تربیت سے مراد والدین یا مربی کا متربی میں موجود انسانی عواطف کو بروئے کار لانا اورانہیں کمال تک پہنچاننے کے لئے مدد کرنا ۔ اسی طرح متربی میں موجود غیر عاطفی رفتار کی اصلاح کرنا ہے۔
۲۵والدین کے اوپر لازم ہے کہ بچوں کے معاملے میں عدالت و انصاف سے پیش آجائے خاص طور پر اولاد کے درمیان پیار و محبت کے اظہار کرنے میں بھی عدالت و انصاف کی رعایت کریں۔
۲۶۔اولاد کی نسبت والدین کی بے توجہی اور ان سے اظہار محبت نہ کرنا ان کےلئے جسمانی یا روحی ضرر یا گمراہی اور فساد کا باعث بنتا ہو تو اس صورت میں والدین پر واجب ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ اظہار محبت کرے۔
۲۷۔والدین کے لئے بچوں پر رحم کرنا اور ان کے اوپر احسان کرنا مستحب عمل ہے۔
۲۸۔بچوں کو شخصیت دینا اور ان کا احترام کرنا مستحب ہے۔
۲۹۔بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح سے پیش آنا بھی مستحب ہے۔
۳۰۔ ہدیہ اورتخفے پہلے بیٹی کو دینا چاہیے۔
۳۱۔بچوں کو رونے کی خاطر نہ ماریں کیونکہ کچھ مدت تک ان کا رونا خدا کی وحدانیت اوررسول کی رسالت کی گواہی اوراسی طرح والدین کے لئے دعا ہے۔
۳۲۔اپنے بچوں کابوسہ لیا کرے کیونکہ ہر دفعہ بچوں کا بوسہ لینا بہشت میں ایک درجہ بڑھنے کا باعث بنتا ہے۔
۳۳۔اپنے بچوں کو سلام کر کے انہیں شخصیت دے۔
۳۴۔بچوں سے اگر کوئی وعدہ کیا ہو تو وعدہ خلافی نہ کریں بلکہ اسے ضرور انجام دے۔
۳۵۔ بچوں کے ساتھ حد سے زیادہ محبت کرنا انہیں ایک کمزور اور بزدل بنا دیتا ہے۔
۳۶۔ اپنےبچوں کو تحقیر کا نشانہ مت بنائیں کیونکہ جس بچے پر ہر وقت تنقید کی جاتی ہے وہ ہر چیز کو رد کرنا سیکھتا ہے۔
۳۷۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو نصیحت کرتے وقت آرام اورنرمی سے بیان کریں ۔
۳۸۔اگر کوئی بچہ اپنے گھر میں قابل احترام قرار پائے تو وہ والدین کی نافرمانی سے گریز کرتا ہے۔
۳۹۔بچوں میں خود اعتمادی بڑھانے اور ان کی شخصیت کو پروان چڑھانے کے بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ والدین کا اولادسےاحترام سے پیش آنا اوران سے محبت اورنیک رفتار کرنا ہے۔
۴۰۔بہترین مربی وہ ہے جو بچوں کی ضروریات کو درست طریقے اور صحیح رویے کے ذریعہ ہموار کرتا ہے۔
۴۱۔اپنے بچوں کو نہ ڈارئیں کیونکہ خوف اورترس بچوں کی شخصیت کو ختم کر دیتا ہے اور یہ چیزروحی اورنفسیاتی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔
۴۲۔بچوں کے نفسیاتی اورروانی غذا میں سے ایک والدین کی طرف سے بچوں کے لئے پیار و محبت ہے اس لئے بچوں کو یہ غذا مناسب اور کافی مقدار میں ملنی چاہئیے۔
۴۳۔امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: حد سے زیادہ ملامت اور سرزنش لجاجت اور ضد کی آگ کو بھڑکاتا ہے۔
۴۴۔دوسرے افراد کی باتوں کو ہمیشہ اس کے سامنے دہراتےنہ رہیں اور نہ ہی کسی اور کواس کے ساتھ مقایسہ کریں۔
۴۵۔بہت سارے اچھے مفاہیم کو کہانی کی شکل میں بچوں تک پہنچائیں ۔
۴۶۔بچے کا کم عمری میں شرارت کرنا بڑے ہو کر اس کی ذہانت میں اضافہ کی علامت ہے لہذا انہیں ڈانٹ کرروکنے کی کوشش نہ کریں۔
۴۷۔بچوں کو جھٹلانے سے پرہیز کریں کیونکہ جس بچے پر اعتبار نہیں کیا جاتا وہ دھوکہ دینا سیکھتا ہے۔
۴۸۔ والدین بچوں کے مختلف سوالات کا حوصلے سے جواب دیا کریں۔
۴۹۔جس بچے کو ہر وقت مار پیٹ کا سامنا ہوتا ہے اس کی تمام صلاحیتیں دب جاتی ہے۔
۵۰۔جس بچے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اس میں اعتماد بڑھتا ہے۔
۵۱۔ جس بچے پر شفقت برتی جاتی ہے وہ محبت کرنا سیکھتا ہے۔
۵۲۔ جس بچے کی بی جا خواہشات پوری کی جاتی ہیں وہ سرکش اور خود سر ہو جاتا ہے۔
۵۳۔جس بچے کا ہمیشہ مذاق اڑایا جاتا ہے وہ بزدل بن جاتا ہے۔
۵۴۔والدین اور مربی کو چاہئے کہ وہ بچوں کے لئےمددگا ر ثابت ہوں اور انہیں غصہ کرنے یاڈرانے اور دھمکانے کے بجائے،صبر و تحمل،حوصلہ اور محبت کے ساتھ پیش آ جائے تا کہ بچوں کے اندر خود اعتمادی کے علاوہ ان میں موجود ذاتی صلاحیتیں نکھر سکیں۔
۵۵۔والدین کو عاقلانہ رفتا ر انجام دیتے ہوئے بچوں کے درمیان حسادت کو روکنا چاہیےمثلا گھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے چھوٹے بچے کے ساتھ پیار و محبت کرنے اورصرف اسی کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہونے کے بجائے بڑے بچے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ پیش آ جائے اس کے بعد چھوٹے بچے کے پاس جائے۔
جسمانی تربیت
جسمانی تربیت سے مراد والدین کا بچوں کی جسمانی نشوو نما اوردوسرے طبیعی اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زمینہ سازی کرنا ہے۔
۵۶۔بچوں کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنا والدین پر واجب ہے۔
۵۷۔ بچوں کی جسمانی اور غیر جسمانی ضروریات جیسے نان و نفقہ کا دینا باپ پر واجب عینی ہے لیکن اگر کوئی اور ان اخراجات کو ادا کرے تو باپ کی شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائی گی۔
۵۸۔ماں کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے۔
۵۹۔اگر ماں کادودھ نہ دینا بچہ کے لئے جسمانی طور پر خطرہ کا باعث ہو تو اس صورت میں ماں پر واجب ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے۔
۶۰۔ جب تک بچہ مالی اورفکری طور پر مستقل نہ ہو باپ پر واجب ہے کہ اس کے اخراجات ادا کرے لیکن بیٹی کے شادی کرنےکے بعد اس کا نان و نفقہ اور دیگر اخراجات باپ پر واجب نہیں ہے۔
۶۱۔والدین کواپنے بچوں کے ساتھ بچہ بن کر کھیلنا چاہئیے۔
۶۲۔والدین کو چاہئے کہ بچوں کو گھروں میں آزادانہ طور پر کھیلنے کی اجازت دیں۔
۶۳۔والدین بچوں کے غیر متوقع رفتار کو ممکنہ حد تک تحمل کریں۔
۶۴۔ مادی لحاظ سے بچوں کے ساتھ افراط تفریط سے پیش آنے سے پرہیز کریں کیونکہ یہ دونوں بہت خطرناک ہے۔
۶۵۔والدین بچوں کے جسمانی نشو و نما کے لئے حلال غذا فراہم کریں کیونکہ اس چیز کا اپنا وضعی اثر ہے۔
اجتماعی تربیت
اجتماعی تربیت سے مراد والدین یا مربی کا متربی کے افکار و رفتار میں مثبت تبدیلی کی خاطراقدامات انجام دینا ہے تا کہ اجتماعی حوالے سے اس کے افکار و رفتار مثبت ہو۔
۶۶۔ اجتماعی امور میں بھی بچوں کی کما حقہ تربیت ہو اور اجتماعی طور پر بھی وہ تکامل کے راستہ کو طے کرے اس لئے والدین کو ان امور کی طرف توجہ رکھنا چاہئے۔
۶۷۔والدین کوشش کریں کہ بچہ مستقل اور خود اعتماد ہو۔
۶۸۔والدین بچوں کو اپنے امور کے متعلق فیصلہ کرنے میں آزاد رکھے اسی طرح دوسروں کے نظریات سے بھی استفادہ کرنے کا حق دے۔
۶۹۔بچوں کو مختلف کاموں کی ذمہ داری سونپا جائے تا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو بہتر طریقہ سے انجام دے۔
۷۰۔والدین بچوں کو مستقبل کے بارے میں سوچنے اورفکر کرنے کی بھی تعلیم دے۔
۷۱۔والدین بچوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کے ساتھ پیش آجائے تاکہ بچے بھی دوسروں کے ساتھ نرمی اور آسانی کے ساتھ پیش آئے۔
۷۲۔والدین بچوں کو اجتماعی اورگروہی کاموں کی طرف ہدایت اوررہنمائی کرے۔
۷۳۔والدین بچوں کو دوسروں کے ساتھ بہتر اور مناسب طریقہ سے پیش آنے کا طریقہ سکھائیں۔
۷۴۔والدین بچوں کو مثبت اورپائیدار چیزوں کی تعلیم دے جو ان کی نشو و نما کا باعث بنتا ہے۔
۷۵۔والدین بچوں کو انتقاد پذیر اور ان میں موجود کمزوریوں کی اصلاح کی تعلیم دے۔
۷۶۔والدین کبھی بھی بچوں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑااور غیر منطقی گفتگو نہ کریں۔
۷۷۔والدین بچوں کی خدادادی صلاحیتوں اور استعدادوں کو پہچان لیا کریں اور انہیں پروان چڑھانے میں ان کی مدد کریں۔
۷۸۔بچوں کی عقلانی اورجسمانی رشد و نشوونما کے ساتھ ساتھ انہیں آزادی اور اپنے اختیار پہ چھوڑدیں۔
اگر بچوں کے سامنےوالدین سے خطا یا غلطی سر زد ہو جائے تو وہ اس کا اعتراف کریں تا کہ بچے بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی جرات پیدا کریں۔
۷۹۔والدین بچوں کے سامنے کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ جھوٹ نہ بولیں کیونکہ اگر والدین اس چیزکی رعایت نہ کریں تو بچے بھی خود بخود جھوٹ بولنے کی عادت پیدا کریں گے۔
۸۰۔والدین بچوں کو ہمیشہ اچھے کاموں کی تشویق و ترغیب دلائیں۔
۸۱۔والدین اور مربی بچوں کو ان کی استعداد ،صلاحییت اور عمر کے تقاضوں کے مطابق ذمہ داری سونپے۔
۸۲۔بچوں کو اچھے کاموں کی عادت تمرین اور تکرار سے ہی حاصل ہوجاتی ہے اوراچھی عادات تدریجا بری عادات کی جگہ لیتی ہے لہذا والدین اور مربی کو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہیے ۔
۸۳۔والدین بچوں سے یہ امید نہ رکھے کہ وہ پہلی دفعہ ہی مطیع محض اوراچھے و مطلوب رفتار کے مالک بن جائے ، بلکہ ان مطالب کو سمجھنے اوردرک کرنے میں انہیں وقت درکا رہے ۔
جنسی تربیت
جنسی تربیت سے مراد والدین یامربی کا بچے کی جنسی خواہشات کو صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرنا اور اسے مختلف انحرافات سے بچانا تاکہ بچےبالغ ہونے کے بعد جنسی خواہشات کو پورا کرنے میں انحرافات کا شکار نہ ہو۔
۸۴۔بچوں کی جنسی تربیت کے لئے والدین پہلے اپنے بچوں کو یہ سکھائے کہ وہ والدین کے کمرے میں آتے وقت اجازت لے کر آئیں اور اچانک بغیر اجازت کے اندر نہ آئیں ۔
۸۵۔والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک بچوں کی جنسی طور پر تربیت کرنا ہے اور والدین کو چاہئے کہ بچوں کے بستر کو جدا کریں۔
۸۶۔بچوں کے بستر کو جدا نہ کرنا بچوں کے جلدی بلوغ اور جنسی تحریک کا باعث بنتا ہے۔
۸۷۔والدین بچوں کو محرم اور نامحرم کے حوالے سے آگاہ کریں ۔
۸۸۔والدین نامحرم افراد کے سامنے پردے کی رعایت کریں اوراس سلسلے میں سہل انگاری اور سادہ اندیشی سے پرہیز کریں۔
۸۹۔والدین بچوں کے سامنے عشق و عاشقی سے پرہیز کریں۔
۹۰۔والدین بچوں کو اس چیز کی تعلیم دیں کہ انسان کے بعض اعضاء اس کی ذاتی اورشخصی حریم کی حثییت رکھتی ہے اس لئے ان کی طرف نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۹۱۔ماوں کو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ بچوں کی جسمانی صفائی کرتے وقت کوئی اوربچہ اس کی طرف نہ دیکھ رہا ہو۔ ۹۲۔والدین پر واجب ہے کہ وہ بچوں کی جنسی تربیت کریں اوران کی جنسی خواہشات کو صحیح سمت کی طرف راہنمائی کریں۔
۹۳۔بچوں کی جنسی تربیت کے وجوب کا حکم ان کی بلوغت سے پہلے ہے لیکن آیہ وقایہ اور رسالہ حقوق امام سجاد علیہ السلام کے مطابق اس کی انتہا کے لئے کوئی وقت معین نہیں ہے۔
۹۴۔بیدار اورہوشیاربچوں کے ہوتےہوئے مجامعت کرنا سخت مکروہ ہے لیکن اگر ماہرین تربیت کی نظر میں بیدار اور ہوشیاربچوں کے ہوتے ہوئے مجامعت و ہمبستری بچوں کے مستقبل میں انحراف کا باعث بنتا ہو تو { ولاتعاونوا علی الاثم }کے عنوان سے حرام ہے یا آیہ وقایہ کے مطابق ان سے چپھا کر اس عمل کو انجام دینا واجب ہے۔
۹۵۔والدین پرنابالغ بچوں کو والدین کے کمرے میں اجازت لے کر آنے کا طریقہ سکھانا مستحب ہے لیکن بالغ اوربڑے افراد کے لئےیہ طریقہ سکھانا واجب ہے ۔
۹۶۔بچوں کی جنسی تربیت کرنا والدین پر واجب عینی ہے اگرچہ ماں یا باپ میں سے کسی ایک کی طرف سے یہ ذمہ داری کامل طور پر ادا ہو جائے تو دوسرے فرد سے ساقط ہو جائے گی۔
۹۷ ۔نامحرم انسان چھ سال کی لڑکی کو اپنی آغوش میں نہ لیں اسی طرح اس کا بوسہ بھی نہ لیں۔
۹۸۔چھوٹی بچیوں کے جسم دوسروں کے سامنے عریان نہیں ہونا چاہیے۔
۹۹۔بچوں کے سونے کی جگہ یعنی بسترچھ سال کے بعد جدا ہونا چاہیے۔
۱۰۰۔والدین ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت اورعشق و عاشقی کرتے وقت اس بات کی طرف توجہ رکھے کہ بچے گھر میں ہمیشہ ان کے اعمال اوررفتار کے نظارہ گر ہیں ، لہذا اس چیز سے غافل نہ رہے۔
حوالہ جات:
قرآن کریم
1. ابن فارس ، احمد، معجم مقایسس اللغة، مکتب الاعلام الاسلامی قم 1404ق.
2. ابن منظور، محمد مکرم،لسان العرب،،احیاء التراث العربی،بیروت 1408.
3. اعرافی علی رضا، سید نقی موسوی،فقہ تربیتی،ص ۱۴۱،موسسہ اشراق قم۔
4. اعرافی، علی رضا،سید نقی، تربیت فرزند با رویکرد فقهی،موسسه اشراق و عرفان قم.
5. امام خمینی ،صحیفہ نور،ج۲۱،ص۱۱۰۔
6. حر عاملی، محمد بن الحسن، وسایل الشیعة، ناشر دار احیاء التراث بیروت لبنان.
7. حسن مصطفوي ، التحقيق في کلمات القرآن الکريم،بیروت ،دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۳۰ق ،چ سوم ،ج4، ص20.
8. راغب اصفهانی،حسین، المفردات فی غریب القرآن ، بیروت.
9. طلال بن علی متی احمد، مادۃ اصول التربیۃ الاسلامیہ،مکہ مکرمہ، جامعہ ام القری، الکلیہۃ الجامیہ ، ۱۴۳۱ھ ، ص۸۔
10. فقیهی، علی نقی؛ (1387)، تربیت جنسی: مبانی اصول و روش ها از منظر قرآن و حدیث، قم: سازمان چاپ و نشر دارالحدیث، چاپ دوم 1387.
11. فلسفه¬ تعليم و تربيت،
12. محمد بهشتي، مباني تربيت از ديدگاه قرآن، ص 35.
13. محمدمرتضي حسینی زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، بیروت،دارالفکر، ۱۴۱۴ق ،چ اول ،ص459 و460.
14. مرتضیٰ مطہری، تعلیم و تربیت در اسلام ، تہران: صدرا، ، ۱۳۳۷ش۔ ، ص۴۳ ۔