تحریر: مولانا رجب علی حیدری،حوزہ علمیہ قم
حوزہ نیوز ایجنسی। 20مئی کو بظاہر غلطی سے روزنامہ صحافت میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی کھلی توہین پر مشتمل ایک مضمون شائع ہوا جو کہ اخبار کے مالک جناب امان عباس صاحب جن سے بڑا کوئی مومن نہیں ہے (جیسا کہ انہوں نے خود دعوی کیا ہے اور شوکت بھارتی صاحب کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو میں متعدد بار گالی بک کر اپنے مخصوص ایمان کی دلیل بھی پیش کی ہے!) کے بقول: یہ مضمون چور راستے سے وارد ہوا ہے۔ واضح ہے کہ امان عباس صاحب جیسا مولائی اور بے باک صحافی بھلا اتنی بڑی نجس مکھی کیسے نگل سکتا ہے۔ یہ تو ایجنسی کے دباؤ سے ہوا ہے جس کا خودامان عباس صاحب کو بے حدافسوس ہے۔ لیکن اس کھیل کے پیچھے کون سی سازش کار فرما ہے اسے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ اگر امان عباس صاحب اس سازش کی گہرائی پرغور کر کے اس تحریر کو ایک دردمند کی فریاد سمجھ کر آئندہ بہت احتیاط سے کام لیں تو امید قوی ہے کہ ان کا اخبار اس خوفناک سازش کا حصہ دار نہیں بنے گا۔
ہندوستان میں شیعوں کے قتل عام کی سازش کا جب پردہ فاش ہوگا اور حقیقی چہرے خود بخود سامنے آئیں گے تب غفلت زدہ افراد کی آنکھ کھلے گی لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
ضرورت تو ابھی ہے کہ فتنہ کی اس تہ در تہ چادر کوچاک کر کے بصیرت کے موتی لٹا کرایتام آل محمد علیہم السلام کے قتل عام سےرکاوٹ کی تدبیر کی جاے تاکہ امام عصر عج کے اولیا میں شمار ہو کر ان کے مخصوص خیمہ میں باریابی کا شرف نصیب ہو اور اس راہ میں انے والی مشکلات ,پریشانی اورمصائب وآلام کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا جائے۔
آئینہ بصیرت کے پیش نظرحُسن ظن کی سیرت پر عمل کرتے ہوے ہماری نگاہ میں بعض افراد انجانے میں بھیانک سازش کا آلہ کار بن رہے ہیں لیکن بعض کو یقین کامل کے طور پر خوفناک خون آشام بھیانک کھیل کا ہندوستان میں سب سے بڑا نمائندہ کہنا سو فیصد درست ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صہیونزم کو عنقریب فلسطین اور یروشلم کا علاقہ چھوڑنا پڑے گا۔ مقاومت کی دھمک سے اس کے ہوش اڑ چکے ہیں۔
علاقے سے فرار کے بعد اس کا امن ترین ٹھکانہ ہندوستان ہے۔ لیکن ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور ہر مذہب کے لیے اس ملک کے قانون میں وسیع گنجائش اسرائیل کے پیر جمانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے. صہیونزم اس ملک میں اسی وقت پیر جما سکتے ہیں جب یہ ملک مذہبی نفرتوں کا مرقع بن جائے اور جس طرح سعودی عرب میں غیر اکثریتی طبقے کو سانس لینے کا بھی حق نہیں ہے اسی طرح ہندوستان کی فضا کو بھی مسموم کردیا جاے ,جس کے لیے سامراج اپنے مختلف النوع حربے آزماتا رہتا ہے.موجودہ دور میں ہندوستان کے بدلتے حالات چاہے طبقاتی نظام کی منافرت ہو چاہے ہندو مسلم کی مسموم فضا:
کوئی معشوق ہے اس پردہ زںگاری میں
جب مذہبی منافرت کی فضا زہر اگلنے لگے گی تب جا کر اسرائیل ہندوستان میں مقیم ہوگا
اس مسموم فضا کے لیے سب سے اچھا اورآزمودہ حربہ شیعہ سنی اختلاف ہے جس کا تازہ ترین تجربہ شام وعراق میں داعش کے ذریعے کیا گیا ,اورپھر ایتام ال محمد کا قتل عام اور اس کے بعد مسلمانوں پھر انسانیت کے ساتھ درنگی سے بدتر کردار ادا کیا گیا۔
اس سازش میں لندنی تشیع کے سرغنہ یاسر حبیب اور اس جیسے نام نہاد مولائیوں نےاپنی آتشیں تحریر و تقریر کے ذریعے آگ میں تیل یا گھی کا کام انجام دیا۔
بعینہ وہ تجربہ ہندوستان میں کئی برس سے چل رہا ہے لیکن اتحاد محور علما ہوا کے رخ کو موڑ کر زہر کے لیے تریاق پیش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
حفیظ اسلامی کا تازہ ترین مضمون اسی سلسلہ کی ایک تشویشناک کڑی ہے۔
کڑی سے کڑی ملائیے
1: پہلا منظر عالمی منظر نامہ پر اس وقت اسرائیل میں صہونزم کو جس ہزیمت کا سامنا ہوا ہے غزہ کو غارت اور وہاں کے بچوں کے قتل عام کے بعد نسل کشی کے سنگین جرم میں مبتلا ہونے کے بعدبھی صہیونیت کئی دہائیوں تک اس کی بھرپائی نہیں کر پاے گی.ایسی صورت میں لازم تھا کہ اختلافی اورمتنازع مسائل کو چھوڑتے ہوے حفیظ اسلامی صاحب جیسے لکھاری فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوےقرآنی آیات سے استفادہ کرتے اور مسلمانوں کے ثبات قدم ہر خامہ فرسائی کرتے.لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایجنسیوں کی مدد سے ایک متنازع تحریر کو ہندوستان میں اسرائیل کے پیر جمانے کاحربہ قرار دیا گیا۔
2:دوسرا منظر:شوکت بھارتی صاحب سے11/منٹ کی گفتگو میں محترم امان عباس صاحب فرماتے ہیں کہ یہ مضمون ایجنسی کی طرف سے آیا تھا جس کی بنیاد پر ڈالنا پڑا
یہ بات انہوں نے سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کو دہشت گرد لکھنے کے بعدبھی انہوں نےبطور عذر پیش کی تھی
سوال یہ ہے کہ ایجنسی کون ہے جس کی بنیاد پر لوگ چور دروازے سے داخل ہوجاتے ہیں اور نوک پلک کی حد تک اخبار کو دیکھنے والے کھرے مومن امان عباس صاحب لفافہ دیکھ کر مضمون بھی نہیں بھانپ پاتے ہیں. کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ:
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
3:تیسرا منظر:شیعہ پرسنل بورڈ کےترجمان کی گالی کی حد تک شعلہ بیانی اور عبد الحفیظ اسلامی کا ٹھنڈا رد عمل.اوران کا بظاہر نہایت متین انداز میں جواب دیتے ہوئے اقرار کرنا کہ یہ مضمون53/اخبارات میں شائع ہوچکا ہے,لمحہ فکریہ ہے۔
آخر اس مضمون میں کونسی علمی گتھی سلجھائی گئی تھی جو 53اخباروں نے اسے اپنے ایڈوٹوریل صفحے کی زینت بنا دیا۔
یہ تو نہایت لچر اور بے بنیاد مضمون ہے. مسلک خلفا تو شراب حرام ہونے کے بعد تک شراب پیتا رہا ہے صحابہ کے بعد تابعین اور تبع تابعین نے بھی چھک کےشراب پی ہے."جو" کی شراب کو حلال کہہ کہ پیا گیا ہے۔
پھر کتاب کی دہائی دے کر ایک غیر تحقیقی مضمون لکھنے کی کیا ضرورت پیش ائی؟!اور53اخبارات اس کے دیوانے کیوں ہوگئے؟؟!!!
کیایہ عاشقان علوی کی غیرت وحمیت کا ٹیسٹ نہیں لیا گیا ہےتاکہ ماحول کو گرما کر مکالمات کی کلپ بنائی جاے اور پھرBrain washکے لیے کلپ سنا کر وہی کیا جاے جو شام میں نام نہاد مولائیوں کی ویڈیو بنا کر کیا گیا ہے۔
شیعہ پرسنل بورڈ کے ترجمان کی شعلہ فگن تقریر پرحفیظ اسلامی کا نرم رویہ کسی سوچی سمجھی سازش کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کافی ہے ورنہ حفیظ اسلامی جیسا ابن تیمیہ کا عاشق اس سے بدتر لہجہ میں جواب دینے کا ہنر جانتا ہے لیکن بھولے بھالے مسلمانوں کے لیے یہی خون سردی خون کا دریا بہانے کے لیے بہترین طریقہ ہے۔
اگر یعسوب عباس صاحب نے اپنے طور پر فون کر کے بات کی ہوتی تو ممکن تھا کسی حد تک چشم پوشی کرلی جاتی لیکن مشکل یہ ہے کہ انہوں نے شیعہ ہرسنل لا بورڈ کےترجمان کی حیثیت سے آتش فشاں مکالمہ کیا ہے اور فریق مخالف بالکل سپاٹ لب ولہجہ میں محو سخن ہے اس لیے یہ انداز بہر حال لمحہ فکریہ ہے۔
4:چوتھا منظر:شیعہ پرسنل لابورڈ کے ترجمان کے لیے ہم حسن ظن کی سیرت ہر عمل کرتے ہوے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جذبات کی رو میں وہ سازش کی گہرائی تک نہیں ہہنچ پاے کیونکہ اپنے والد ماجد طاب ثراہ کی طرح ان میں زیرکی اور ہوشمندی موجود نہیں ہے لیکن اس چوتھےمنظر میں تو تصویر بالکل صاف ہوجاتی ہے. ایک طرف وسیم رشدی کا ہرجائی,جواری,شرابی اور قمار بازی کے اڈے کا لب ولہجہ ,گالیوں کی بوچھار ,ناموس رسالت اور قرآن مجید کی ایک بار پھر توہین اور دوسری طرف ام المومنین عائشہ کے دلدادہ اور پرستش کی حد تک ان سے محبت کرنے والےحفیظ اسلامی کے بھائی کی کامل خون سردی!!! صرف آخر میں تمام شیعہ کافر ہیں کا تمغہ پیش کر کے بات ختم کردینے سے بخوبی سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ مضمون سوچی سمجھی سازش کے تحت لکھوایا گیا ہے اور اس میں ہمارے حسن ظن کے مطابق روزنامہ صحافت کو زبر دستی دباؤ بنا کر الجھایا گیا ہے جس طرح وسیم رشدی کو جان بوجھ کر قرآن کریم کی توہین کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
لیکن شطرنج کی بساط پر وسیم رشدی کے ذریعے توہین قرآن کا پھینکا گیا مہرہ اتحاد و وحدت کی حکمت عملی سے بیکار بلکہ درہم برہم ہو کر مات کھاگیا تو پھر عظمت امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حساسیت کو نشانہ بنانے کی کوشس کی گئی تاکہ شیعہ ابل ہڑیں اور پھر وسیم رشدی شیعہ بن کر خلفا اور عائشہ کو بھدی گالیاں دے اور حفیظ اسلامی کی طرح ان کے بھائی سپاٹ لہجے میں ہی بات کریں۔
ان حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہو ے فاضل معاصر میر قائم عابدی صاحب علی پوری کے مراسلہ کے بین السطور سے عبد الحفیظ اسلامیی کی طرف سے نرم گوشہ رکھنے کا عندیہ ملنے پر بعض اصلاح پسند ناقدین کے اعتراض کا جواب بھی سمجھ میں آتا ہے کیونکہ حفیظ اسلامی کی طرف سے لگائی ہوئی آگ کو ان کی طرف واپس کر نے کا بہترین راستہ ان کی طرف سے وسیم رشدی پر F.I.Rدرج کرانا ہے۔ تاکہ سپاٹ لہجہ اور خون سردی کی سازش کا چہرہ طشت از بام ہو جاے
حفیظ اسلامی کی لچرتحریر کے پیچھے چھپی اسرائیل نوازی اور صہیونزم کو ہندوستان میں مقیم کرنے کی سازش کو سمجھتے ہوئے ان کا حواب دیا جاے کیونکہ زبان کی ذرہ برابر تلخی ان کے مشن کو کامیاب کرسکتی ہےاور علوی سیرت ہر عمل کرتے ہوےجواب محکم ان کے سارے منصوبے ہر پانی پھیر سکتا ہے۔
اسی لیے امان عباس صاحب اس سازش پر غور کرتے ہوئے ایجنسی کی باتیں ماننے سے احتراز کریں ورنہ اتنی زیرکی کے باوجود وہ اس سازش کے آلہ کار بن جائیں گے اور غلطی کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا اور سلمان رشدی کے ہمزاد وسیم رشدی کی طرح امام زمان عج کے قلب مجروح کو مزید زخمی کرنے کا سبب ہوں گے جو یقننا ان کے مولائی مزاج اور کھرے مومن ہونے کے خلاف ہے۔
وماعلینا الاالبلاغ
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔