۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر فرمان علی سعیدی

حوزہ/ وزیر اعظم جناب عمران خان نے جی بی کے لۓ آئندہ پانچ سالوں کے لۓ 370 ارب روپیہ کے پیکیج کا اعلان کیا تھا جو اپنی جگہ خویش آیند بات ہے۔ لیکن پیکج میں غریب اور کمزور طبقہ کو نظر انداز کیاگیا ہے۔  اور اسی طرح جی بی کے بنجر زمینوں کی آبادکاری کو پیکج میں شامل نہ کرنا لمحہ فکریہ ہے۔

تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر فرمان علی سعیدی

حوزہ نیوز ایجنسی جغرافیائی لحاظ سے گلگت بلتستان خاص اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ پاکستان کے سیاسی، دفاعی اور معاشی مسائل اس خطے سے وابستہ ہیں۔ یہاں کے باسیوں  نے پاکستان کی سالمیت اور اس کے دفاع  اور معاشتی ترقی کے لیے  بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ ان تمام تر خصوصیات کے باوجود اس خطے  کی آئینی حیثیت، معاشی و سیاسی حقوق ابھی تک  تعین نہیں ہوسکے ہیں۔ جسکی وجہ سے یہ علاقے حکومتی عدم توجہ کا شکار ہورہے ہیں۔

1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزادی کے بعد گلگت اور بلتستان کے غیور عوام نے ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنی آزادی کے بعد حکومت پاکستان کو علاقے کےانتظامی و ریاستی امور سبھالنے کی  خود دعوت دی۔ یعنی لوگوں نے  اپنی رضایت سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ جہاں تک بلتستان و گلگت کا پاکستان کے ساتھ  الحاق کا سوال ہے تو یہ کوئی جذباتی یا حادثاتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہاں کے مقامی حکمرانوں نے مرحلہ وار  پاکستان کے ساتھ الحاق  کیا۔ اور یہ الحاق چار مراحل میں طے پایا۔ 

 ۔ الحاق کا پہلا مرحلہ 15 نومبر47ء کو طے پایا اور گلگت نےپاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ 

2۔ الحاق کا دوسرا مرحلہ 19 دسمبر 1947ء کو طے پایا۔ جب ریاست ہنزہ و نگر کے حکمرانوں نے علیحدہ علیحدہ معاہدات الحاق کے سلسلے میں حکومت پاکستان کے ساتھ معاملات طے کیے۔
3۔ الحاق تیسرے  مرحلہ  14اگست 1948ء کو طے پایا جب بلتستان غیور مومنین اور جوانوں نے ڈوگروں کو بلتستان سے نکل جانے پر مجبور کردیا اور پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو  لہرا کر  پاکستان سے اپنی محبت اور وفاداری کا عملی ثبوت دیا.
4.جبکہ الحاق کا چوتھا مرحلہ 1951ء کو طے پایا، داریل و تانگیر اور چلاس کے علاقے  پاکستان میں ملحق ہوئے۔  اس طرح جی بی کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے مراحل  مکمل ہوئے۔

1949ء سے لے کر اب تک جتنی حکومتیں پاکستان میں بنیں، انہوں نے گلگت بلتستان میں واضح آئینی حیثیت کے پیش نظر اسے متنازعہ یا آزاد کشمیر جیسی پوزیشن میں نہیں رکھا۔ بلکہ گلگت بلتستان کی واضح حیثیت کو متاثر کیے بغیر یہاں رفتہ رفتہ اصلاحات کی نفاذ کا عمل  جاری رکھا۔ شروع میں اس خطے کو صوبہ سرحد کے زیر انتظام رکھا۔ پھر 1950ء میں اس خطے کو براہ راست وفاق کے زیر انتظام لایا گیا اور مرکزی حکومتوں نے ملک کے مختلف حصوں میں جس طرح کی بھی اصلاحات نافذ کیں، وہ ان کا دا‏ئرہ گلگت بلتستان تک بڑھاتی گئی۔

آئینی حقوق میں حائل رکاوٹیں اور ان کا حل:

1۔ریاستی اور حکومتی ادارے: 
ستر سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے بعد بھی جی بی کو انکے  آئینی حقوق کا نہ ملنا ریاستی وسفارتی اداروں کی کمزوری ہے۔ اس اہم مسئلہ کو ابھی تک پاکستانی سفارتکاروں اور وزارت خارجہ نے بین الاقوامی فورمز اور اجلاسوں میں نہیں آٹھایا  اور اسے بالکل نظر اندازکیا ہوا ہے۔ اس رکاوٹ کا حل یہ ہے کہ حکومتی و ریاستی اداروں کی نظر میں اگر جی بی کے آئینی مسئلہ ایک اندرونی اور داخلی مسئلہ ہے تو جی بی کے ذمہ داروں اور مختلف شخصیات سے گفتگو اور مذاکرات کرکے اس مسئلہ کا راہ حل تلاش کرے. اگر ریاستی اداروں کی نظر میں جی بی کے آئینی حقوق کا مسئلہ ایک بیرونی مسئلہ ہے تو اس مسئلہ کو ہنگامی بنیادوں پر، بین الاقوامی فورمز اور اجلاسوں میں بیان کرکے اس کا راہ حل نکالے.  جی بی کو آئینی حیثیت دینے سے کشمیر کاز کو نقصان نہیں پہنچے گا، کیونکہ موجودہ دستاویزات کے مطابق جی بی، کشمیر کا نہ حصہ تھا اور نہ کشمیر کا حصہ ہے گلگت بلتستان کی اپنی الگ شناخت اور حیثیت ہے. 

2۔صوبائی اور وفاقی پولیٹیکل پارٹیز: 
دوسری  اہم رکاوٹ وفاق اور صوبہ میں موجود  پولیٹیکل پارٹیز ہیں ۔ان  سیاسی جماعتوں نے عوام سےوقتا فوقتا مختلف قسم کے  اعلانات اور وعدے تو کئے لیکن ان اعلانات اور وعدوں کو پوارا کرنے کی کبھی سنجیدہ عملی کوشش نھی کی ۔ سیاسی جماعتوں نے پارٹی مفادات کو ترجیح دی اور علاقائی مفادات کو نظر انداز کیا۔ 
اس رکاوٹ کا راہ حل یہ ہے کہ جی بی کے سطح پر کل جماعتی پلیٹ  فارم بنایا جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو اور کل جماعتی پلیٹ فارم کے ذریعے حکومتی اداروں اور سیاسی شخصیات پر دباو ڈالا جائے کہ وہ جی بی کو قومی دھارے میں شامل کریں اور جی بی کو ایک مکمل صوبہ بنا کر سینٹ اور قومی اسمبلی میں جی بی کو نمائندگی دلوائے۔
 
3۔دانشور اور تعلیم یافتہ طبقہ: 
عوام اور عام لوگوں کو سیاسی اور سماجی شعور دینے میں دانشور اور تعلیم یافتہ طبقہ کا بڑا کردار ہوتاہے لیکن اس طبقہ نے اپنے ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا اور اپنی زبان اور قلم سے لوگوں کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ نہیں کیا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ لوگوں میں سیاسی و سماجی  بصیرت اور شعور آیا اور نہ ہی مختلف اداروں کو اس اہم مسئلہ  کی طرف متوجہ کر اسکیں۔ دانشور حضرات اور تعلیم یافتہ افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے زبان، قلم اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے جی بی کے قانونی اور آئینی حیثیت کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں. اور لوگوں کو سیاسی اور سماجی آگہی دینے کی کوشش کریں. 

4۔ عوام: 
جب تک عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے  میدان میں نہی  نکلتے، کوئی ان کے حقوق ان کے پر گھر کے دروازے لا کے نہیں دے گا۔  بہت سارے لوگوں کو ابھی تک یہ علم نہیں ہے کہ ہمارا خطہ ایک متنازعہ خطہ ہے۔ جی بی کے عوام کو چاہیے وہ اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لئے جد و جہد کریں اور اپنے صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں. اپنے رہبروں اور لیڈروں کے ساتھ دیں اور ہر قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کریں.

5۔ مسئلہ کشمیر: 
بعض افراد کشمیر مسئلہ کو جی بی کے آ‏ئینی حقوق کے حصول کے  راہ  رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور ان افراد کا کہنا ہے کہ جب تک کشمیر حل نہیں ہوتا، جی بی کو آئینی حقوق نہیں ملے گا۔ در حالیکہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے۔

حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ جی بی کومکمل آئینی حقوق دے کر پاکستان کا پانچوان صوبہ قرار دیا جاۓ۔ اور ہم وزیر اعظم عمران خان صاحب اور پی ٹی آئی کی حکومت سے پور زور مطالبہ کرتے ہیں  کہ الیکشن کے دوران جتنے اعلانات اور وعدے دئیے ہیں ان سب پر عملدرآمد کیا جاۓ۔ 

وزیر اعظم جناب عمران خان نے جی بی کے لۓ آئندہ پانچ سالوں کے لۓ 370 ارب روپیہ کے پیکیج کا اعلان کیا تھا جو اپنی جگہ خویش آیند بات ہے۔ لیکن پیکج میں غریب اور کمزور طبقہ کو نظر انداز کیاگیا ہے۔  اور اسی طرح جی بی کے بنجر زمینوں کی آبادکاری کو پیکج میں شامل نہ کرنا لمحہ فکریہ ہے۔ جی بی آئینی حقوق سے محروم ہونے کی وجہ سے یہاں تعلیم، صحت اور مواصلاتی نظام کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ یہاں کوئی میڈيکل، ایکریکلچر اور انجنیرنگ کالجز نہیں ہیں۔اور یہاں طلبہ و طالبات، کوٹے اور اسکالر شپ کے چکر میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور بہت سارے طالب علم، تعلیم کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب جی بی کو دوسرے صوبوں کے برابر حقوق ملے گے تو یہاں کے بہت سارے مسائل خود با خودحل ہوجائیں گے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .