تحریر: سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی। تکفیریت ایک شجرہ خبیثہ ہے جو اپنے منحوس اثرات سمیت روز بروز پھیلتا جا رہا ہے۔تکفیری فکر اگرچہ نئی نہیں ہے۔اِس کا اپنا ایک تاریخی پسِ منظر ہے مگر گزشتہ چند برسوں سے اسکتبار کی سازشوں اور صہیونی ریاست کے جاسوسی اداروں کی منصوبہ سازی کی بدولت اس فکر کو نہ صرف دوبارہ سے زندہ کیا جارہا ہے بلکہ اس فکر کو روز بروز تقویت فراہم کی جارہی ہے۔حالیہ دنوں میں بہاولنگر اور جڑانوالہ کی مساجد میں تکفیری دہشتگردوں کی جانب سے شیعہ مسلمانوں کی شہادت کے اندوہناک واقعات نے وطنِ عزیز میں ایک بار پھر تشدد، عدم برداشت اور فرقہ واریت کی تشویشناک لہر میں اضافہ کیا۔تاریخ گواہ ہے کہ ایک مسلک کو عرصہ دراز سے مسلکی شناخت کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہاہے۔اس وطنِ عزیز میں پیروانِ مکتبِ اہلِ بیتؑ کا خون مباح تک قرار دیا گیا جسکا بنیادی مقصد ایک خاص مسلک کی حرث ونسل کو ہلاک کرنا ہے۔
"اہلِ تشیع کو قتل کرنے سے انسان براہِ راست جنت میں جاتا ہے" یہ اُس شخص کے جملے ہیں جس نے حالیہ دنوں میں مسجدِ بضعتِ رسول کے موذن اور ایک نمازی کو آہنی راڈ کے وار سے مارا ہے اور اب جنت کے ٹکٹ کا متمنی ہے۔ایک جگہ پڑھا تھا کہ عرب کے لوگ قبل از اسلام بھی حرمت والے مہینوں میں جنگ وقتال سے باز رہا کرتے تھے مگر میرے وطن میں اب فرقہ واریت کی ایسی فضا قائم ہے کہ خدا کے گھر میں بھی جان کی امان نہیں۔اس سے چند ماہ قبل سانحہ شور کوٹ ہوا تھا جس میں دن دیہاڑے کلہاڑی کے وار سے ایک محب اہلِ بیت کو بے دردی سے مارا گیا تھا۔خیر ایسے سانحات کی لمبی فہرست ہے ہم کس کس کو روئیں گے۔ان تمام سانحات کی روک تھام ضروری ہے ورنہ یہ تکفیری فکر روز بروز پروان چڑھتی جاۓ گی۔یہ فکر جن مدارس میں پروان چڑھتی ہے حکومت کی جانب سے اِن مدارس کی باقاعدہ فنڈنگ اور امداد کی جاتی ہے جس کے واضح ثبوت اعترافی ویڈیوز کی شکل میں آج تک انٹرنیٹ پہ موجود ہیں ہم حقیقت سے چشم پوشی کر لیں وہ ایک الگ بات ہے۔مزید یہ کہ ان مدارس اور نام نہاد علماء کے ساتھ حکومت کی دلچسپی اور ہمدردی دیکھنے کو ملتی ہے جنہوں نے شیعہ کے قتل کے فتوی دئیے ہیں۔حکومت نہ صرف ان کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کیساتھ تعلقات استور کرتی ہے بلکہ انہیں الیکشن میں باقاعدہ جگہ بھی دی جاتی ہے تاکہ اُنکے ووٹ بینک مضبوط ہوں۔
ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گڑھے آگے بڑھے
رسم جو ہم سے چلی باعث ِتقلید بنی
شب کے سفاخ خداوں کو خبر ہو کہ نہ ہو
کرن جو قتل ہوئ شعلہ خورشید بنی
ملک میں عدم برداشت اور شدت پسند رویوں کے حامل یہ تکفیری فکر رکھنے والے عناصر درحقیقت دینِ اسلام کے دشمن ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسی تکفیری سوچ کی بناء پر آج پوری دنیا میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔اسلام کو شدت پسند دین کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جبکہ دینِ محمدی امن و محبت اور بھائی چارے کا دین ہے۔ان تکفیری عناصر اور انکے سہولت کاروں کے خلاف سخت اقدامات کیے جانے چاہیے۔ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جانے چاہیے تاکہ وطنِ عزیز میں فرقہ واریت کی فضا کو ختم کیا جاسکے۔ہر وہ چہرہ جو اسلام میں انتشار پھیلانے کا مرتکب ہوگا یا وطنِ عزیز کے استحکام کو کمزور کرنے کی سازش کرےگا چاہے وہ سیاسی عدم استحکام کے حوالہ سے ہو یا سیاسی و مذہبی فرقہ واریت کی شکل میں، ہم حسینی سینہ سپر ہوکر اس کا پامردی سے مقابلہ کریں گے اور اپنے شہداء کی تاریخ کو زندہ رکھیں گے۔
ہم حسینی ہیں سزاؤں سے نہ گھبرائیں گے
حق کو باطل کے دہن سے بھی چھڑالائیں گے
اس وطن سے ہے وفاداری نبھانے والے
جب بنایا ہے تو ہم ہی ہیں بچانے والے
تا قیامت رہے آباد چمن زندہ باد
ہے علیؑ والوں کا اعلان وطن زندہ باد
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔