رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس
حوزہ نیوز ایجنسی। امام خمینی تحریک شروع ہونے سے دسیوں برس قبل فقہ، اصول فقہ اور فلسفہ و عرفان کے درس کے علاوہ برسوں تک درس اخلاق دیتے رہے تھے۔ البتہ جب میں قم پہنچا تو اس درس کو بند ہوئے برسوں گزر چکے تھے لیکن جو لوگ اس درس اخلاق میں شامل ہوئے تھے وہ بتاتے تھے کہ امام خمینی ہفتے میں ایک بار مدرسۂ فیضیہ میں درس اخلاق دیا کرتے تھے جس میں زیادہ تر نوجوان طلباء شریک ہوتے تھے۔ جب وہ بات کرتے تھے تو پوری نشست متغیر ہو جاتی تھی، وہ دلوں کو متغیر کر دیتے تھے، يہ چیز میں نے بھی فقہ اور اصول فقہ کے دروس میں دیکھی تھی۔
مطلب یہ کہ وہ فقہ اور اصول فقہ کے اپنے دروس میں بھی جب کسی مناسبت سے اخلاقیات کی باتیں کرتے تھے تو طلباء زار و قطار رونے لگتے تھے، ان کی باتیں اتنی موثر ہوا کرتی تھیں کہ روح میں انقلاب بپا کر دیتی تھیں۔ یہ پیغمبروں کی روش ہے، سبھی پیغمبروں نے اپنی تحریک افراد کی روح کے اندر انقلاب بپا کر کے شروع کی۔ یہ جو امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "لیستادوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ ... و یثیروا لھم دفائن العقول" (نہج البلاغہ خطبہ نمبر 1) اس کا یہی مطلب ہے۔ "یستادوھم میثاق فطرتہ" یعنی وہ انسان کی اس خفتہ و نہفتہ سرشت کو بیدار کر دیتے تھے اور اسے انسانوں کو متحرک بنانے اور انھیں ہدایت عطا کرنے کے لیے ترغیب دلاتے تھے۔
امام خمینی نے یہاں سے اس طرح یہ کام شروع کیا۔ میں پوری قطعیت سے تو یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ امام خمینی یہ نشستیں اس لیے منعقد کرتے تھے کہ آگے چل کر یہ ایک بڑی سیاسی تحریک پر منتج ہوں، لیکن جو چیز مسلمہ ہے وہ یہ ہے کہ درس اخلاق کے توسط سے انسانی سرشت اور اس کی معنوی و فطری جبلتوں کو متحرک کرنا اور وعظ و نصیحت کے ذریعے دلوں کو آمادہ کرنا، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روش تھی۔
امام خامنہ ای
3 جون 2020