۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
شیخ بہائی(رہ)

حوزہ/ شیخ بہائیؒ شیعہ مذہب کے نامور عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر ریاضی دان ،معمار اور انجینئر بھی تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسیبہاء الدین محمد بن حسین عاملی، معروف بہ شیخ بہائی دسویں و گیارہویں صدی ہجری میں شیعہ مذہب کے ایک عظیم عالم دین تھے ۔جوکہ موجودہ لبنان کے شہر بعلبک میں پیدا ہوئے۔ شیخ بہائی کا خاندان جبل عامل کا اس زمانے میں ایک مشہور و معروف خاندان تھا کہ جن کا نسب اور شجرہ حارث ہمدانی سے ملتا ہے کہ جو حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے وفادار صحابی تھے۔شیخ بہائی کے والدگرامی عزالدین حسین بن عبدالصمد بن محمد بن علی بن حسین دسویں ہجری کے ایک عظیم عالم دین تھے۔

صفوی زمانے میں شیخ الاسلام کے منصب پر تعینات
شیخ بہائی ؒکئی سال تک مسلسل شاہ عباس صفوی اول کی حکومت میں سیاسی و دینی منصب (شیخ الاسلامی) کے عہدے پر فائز رہے ۔

شیخ بہائی نے بہت زیادہ شاگردوں کی تربیت کی ہے۔  گیارہویں صدی ہجری کے نامور علماء نے شیخ بہائی سے تعلیم حاصل کی  ہے کہ جن میں ملاصدرا شیرازی، ملا محسن فیض کاشانی، علامہ محمد باقر مجلسی کے والد محمد تقی مجلسی، محقق سبزواری، شہید ثانی کے پوتے شیخ زین الدین عاملی وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔
شیخ بہائی نے اپنی عمر کا تیس سال سے زیادہ عرصہ مختلف ممالک کی سیر وسیاحت میں گذارا جیسے مصر، شام، حجاز، عراق، فلسطین، افغانستان وغیرہ۔ وہ مذہب شیعہ کے ایک عظیم مبلغ تھے ا،انہوں نے شیعہ ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے بہت زیادہ زحمتیں اٹھائیں۔

ایک عظیم معمار
شیخ بہائیؒ شیعہ مذہب کے نامور عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر ریاضی دان ،معمار اور انجینئر بھی تھے ؛شہر نجف آباد میں کاریز کہ جو چشمہ زرین کمر کے نام سے معروف ہے ، شہر اصفہان کی جامع مسجد کے قبلہ نما کی دقیق تعیین، نجف اشرف کے محاصرہ کا نقشہ، اصفہان کی جامع مسجد کے مغربی حصے میں شاخص ظہر شرعی  کی تعمیر، مشہد مقدس میں حضرت امام علی رضا (ع) کے روضہ میں مسجد گوہر شاد کا نقشہ، نجف اشرف میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے روضہ منورہ میں سرہانے کی جانب دیوار کا نقشہ کہ جو پورے سال زوال شمس کو معین کرتا ہے ، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ منورہ میں صحن انقلاب کا چھ ضلعی صورت میں نقشہ، اصفہان میں سفید آب کی ایجاد کہ جو سفید آب شیخ کے نام سے معروف ہے ، مینار جنبان کی تعمیر، اصفہان کی جامع مسجد کے گنبد کی تعمیر کہ جس میں ایک آواز 7 مرتبہ گونجتی ہے  اور ایک گھڑی کی ایجاد کہ جس میں نہ بیٹری کی ضرورت تھی نہ چابی بھرنے کی، اصفہان کے عمومی غسل خانے کے لیے پانی گرم کرنے کا وسیلہ کہ جو آج تک اصفہان میں موجود ہے  اور حمام شیخ بھائی کے نام سےمعروف ہے  یہ تمام چیزیں اس عظیم فلفسی و انجینیر کے اہم آثار ہیں۔

حرم مطہر رضوی کے لیے ایک لائبریری کا وقف کرنا  
قرآن کریم کے متعدد نسخے 996 ہجری میں شاہ عباس صفوی کے ذریعہ اور شیخ بہائی کے ہاتھوں تحریروقف ناموں کے ساتھ آستان قدس رضوی کے لئے وقف کئے گئے ۔ اس کے علاوہ شیخ بہائی نے وصیت کی کہ ان کی اپنی ذاتی لائبریری کو بھی حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی لائبریری کو ہدیہ کردیا جائے کہ جس میں 4 ہزار خطی  و مطبوع نسخے موجود تھے کہ جو زیادہ تر شیخ بہائی کے زمانے میں ہی تحریر ہوئے تھے۔

وفات
شیخ بہائی نے  12/ شوال 1030 ہجری میں 77 سال کی عمر میں اس دارفناء سے دار بقاء کی جانب  سفر کیا، آپ کے تشیع جنازہ میں شہر اصفہان سے  50 ہزار افراد نے شرکت کی ۔ آپ کی نماز جنازہ علامہ محمد باقر مجلسی کے والد ملا محمد تقی مجلسی نے پڑھائی اور پھر آپ کے جنازے کو مشہد مقدس منتقل کردیا گیا اور آپ کی وصیت کے مطابق اس گھر میں کہ جو شیخ بہائیؒ نےخود اپنے لیے بنوایا تھا دفن کردیا گیا۔ آج شیخ بہائی کا مقبرہ حرم مطہر رضوی کے اس  ہال میں ہے کہ جو خود شیخ بہائی کے نام سے مشہور ہے۔
شیخ بہائی ہال میں داخل ہونے کا اصلی راستہ صحن آزادی کے جنوب مغربی گوشہ سے ایک راستہ گیا ہے کہ جو زینہ کی صورت میں چند سیڑھی چڑھنے کے بعد ہال میں پہنچتا ہے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .