حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، طولِ تاریخ میں خاندان امامت و طہارت علیہم السلام کے چاہنے والے اپنے منقولہ اور غیر منقولہ اموال حضرت رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک کو عطیہ کر کے امام علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔
امام علیہ السلام کے یہ چاہنے والے اپنے منقولہ اموال جیسے قرآن، خطی نسخے، زیورات، عجائب گھر کی نفیس اور قیمتی اشیاء وغیرہ سے لے کر غیر منقولہ جائیدادوں جیسے مکانات، زمین اور باغات وغیرہ کو اس مقدس مقام کے لئے وقف کرتے رہے۔
اس رپورٹ میں ہم حرم مطہر رضوی (ع) سے متعلق تاریخی دستاویزات کے وقف کی تاریخ کے ایک حصے کا مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں۔
قدیم ترین موقوفات سے لے کر وقفی دستاویز تک
دستیاب دستاویزات اور شواہد اس چیز کو بیان کرتے ہیں کہ آستان قدس رضوی (ع) کی سب سے قدیم موقوفات یعنی "موقوفاتِ عتیقی" کی تاریخ صفوی دور کے ابتدائی دور سے جا ملتی ہے۔ درحقیقت "عتیق علی بن احمد ملک اسماعیل طوسی" جو خواجہ عتیق منشی کے نام سے معروف تھا اور شاہ اسماعیل صفوی اور شاہ طہماسب کے درباری سکریٹریوں میں سے ایک تھا، اس نے 931 ہجری میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم کے لیے 22 رقبے وقف کئے۔ اس طرح موقوفاتِ عتیقی اس مقدس مقام کے سب سے قدیمی، وسیع اور سب سے بڑے رقبوں کو شامل ہوتے ہیں۔
آستان قدس رضوی (ع) میں دستیاب سب سے قدیمی موقوفی دستاویز کا تعلق بھی شاندار خطاطی میں قرآن پاک کی پشتی سرورق پر لکھی گئی تاریخ سے ہے جو آستان قدس رضوی (ع) میوزیم کے آرگنائزیشن آف لائبریریز، میوزیم اور رضوی (ع) دستاویزی مرکز میں محفوظ کیا گیا ہے۔
اس دوران، سب سے پرانے موقوفی نسخوں میں ایسے قرآنی کتابچے بھی شامل ہیں جو چوتھی صدی ہجری کے شروع کے ہیں۔ ان مختص نسخوں میں سب سے قدیم قرآنی نسخہ 327 ہجری کا ہے جسے اصفہان کے حکمران "کشواد بن املاس" نے وقف کیا تھا، "ابن سیمجور" کا نفیس قرآن جو 383 ہجری میں رضوی میوزیم کو عطیہ کیا گیا تھا اور اسی طرح قرآن کریم کا ایک خطی نسخہ بھی ہے جسے "ابوالقاسم منصور بن محمد بن کثیر" نے 393 ہجری میں آستان قدس رضوی (ع) کو وقف کیا تھا۔
ابوالفتوح رازی کے تفسیری نسخہ آستان قدس رضوی (ع) کی لائبریری میں دستیاب سب سے قدیم وقف نامہ ہے جو 861 ہجری کا ہے۔ یہ نسخہ لائبریری کی تکمیل کے لیے آستان قدس رضوی (ع) کو وقف کیا گیا تھا۔
طومار علی شاہی؛ سب سے قیمتی موقوفی دستاویز
علی شاہی طومار، جو آستان قدس رضوی (ع) کی انتظامی تنظیم و تشکیل سے مربوط اور موقوفات سے متعلق قدیم ترین اور قیمتی دستاویزات میں سے ایک ہے، جسے نادر شاہ افشار کے بھتیجے اور خراسان کے گورنر علی قلی خان المعروف بہ علی شاہ یا عادل شاہ نے نادر شاہ کے انتقال کے بعد بنوایا تھا۔
یہ طومار اپنی ابتدا لے کر صادر ہونے تک آستان قدس رضوی (ع) اور جامع مسجد گوہرشاد کے تمام معروف موقوفات کی ایسی فہرست کے طور پر ہے۔ البتہ علی شاہ نے خود بھی گذشتہ موقوفات میں دو سو مزید ملکی جائیدادوں کا اضافہ کیا تھا، جن کا علیحدہ وقف نامہ بھی تھا لیکن وہ بدقسمتی سے اب دستیاب نہیں ہے لیکن اس کے رقبوں کا ذکر طومار میں موجود ہے۔
طومارِ عضد الملک، معتبر ترین موقوفی دستاویز
طومارِ عضد الملک آستان قدس رضوی (ع) کی مطلقہ اور خاصہ موقوفات میں سب سے معتبر موقوفی دستاویزی فہرست ہے کہ جو 1273 ہجری تک اس مقدس مقام میں موجود رہی۔
طومارِ عضد الملک 1274 ہجری میں محمد حسین حسینی المعروف "صدر دیوان خانہ" اور ملقب بہ "عضد الملک" کے توسط سے تہیہ اور مرتب کی گئی ہے۔