حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ایران میں پہلی بار صنعت طباعت ، صفوی دور میں شروع ہوئی اور ایران میں اس صنعت کو رائج ہوتے ہوتے ایک دو صدی کا عرصہ گزر گیا ۔ ایران میں پہلا پریس فتح علی شاہ قاجار کے نائب السلطنت عباس میزرا کے ہاتھوں تبریز میں کھلا اور اس طرح سے آہستہ آہستہ پورے ایران میں چھاپاخانے کھلتے گئے لیکن سن بارہ سو چورانوے ہجری قمری میں یعنی تقریبا ایک سو پینتالیس سال قبل ، آستان قدس رضوی میں ، " دار الطبع رضوی " نام سے ایک پریس کھولا گیا جہاں سنگی طباعت یا لیتھو گرافی کی شکل میں چھپائي ہوتی تھی ۔ اس پریس نے تقریبا پچاس برسوں تک کام کیا اور اس دوران بے شمار کتابوں کو زیور طبع سے آراستہ کیا گيا جن میں سے تقریبا پندرہ کتب کا اب تک پتہ لگایا جا چکا ہے ۔ "
تصویری جھلکیاں: روضہ امام رضا (ع) کے میں صنعت طباعت
یہ در اصل آستان قدس رضوی کے ادارہ طباعت و اشاعت کے ڈائریکٹر مسعود فرزانہ کی اس تقریر کا حصہ ہے جو انہوں نے یوم صنعت طباعت کی مناسبت سے کی ہے ۔
مسعود فرزانہ نے میکینکل انجینیئرنگ میں گریجویٹ کیا ہے اور طباعت و اشاعت کے شعبے میں تقریبا بیس سال کا ان کا تجربہ ہے ۔ انہوں نے تقریبا نو برس پہلے آستان قدس رضوی میں ادارہ طباعت و اشاعت کے شعبے کی ذمہ داری سنبھالی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ صنعت طباعت اس چوراہے کی طرح ہے جہاں " ثقافت " " فن " ذرائع ابلاغ "اور" صعنت " ایک دوسرے سے ملتے ہيں ۔
آستان قدس رضوی میں طباعت کی ایک سو پینتالیس سالہ تاریخ
آستان قدس رضوی کے ادارہ طباعت و اشاعت کے ڈائریکٹر مسعود فرزانہ نے کہا کہ آستانہ قدس رضوی کا اپنا طباعت کا ایک ادارہ ہے جس کی تاریخ اسلامی انقلاب سے قبل کی ہے ۔ آستان قدس رضوی میں کتب کی طباعت اور اشاعت کے لئے ایک خاص ادارے کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ آستان قدس رضوی کے عہدیداروں اور ذمہ داروں کو گزشتہ صدیوں سے ہی آستان قدس رضوی کے لئے ضروری کتب کی طباعت و اشاعت کی فکر تھی اور انہوں نے کتب کی طباعت اور اشاعت پر ایک اہم موضوع کی شکل میں توجہ دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سنگی طباعت یا لیتھوگرافی کے لئے آستان قدس رضوی میں " دار الطبع رضوی " نام سے ایک پریس کا آغاز کیا گيا ۔
آستان قدس رضوی کے ادارہ طباعت و اشاعت کے ڈائریکٹر مسعود فرزانہ نے کہا کہ راقم مشہدی کا مجموعہ کلام" منتخب القصائد " دار الطبع رضوی میں چھپنے والی سب سے پرانی کتاب ہے جسے افتتاح کے فورا بعد چھاپا گیا تھا۔
اس پریس کے سلسلے میں جو دستاویزات ہيں ان میں اسے " آستانہ حضرت رضویہ کا طباعت کا کارخانہ " " کارخانہ آستانہ مقدسہ رضوی " دار الطباعہ آستان قدس " جیسے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے ۔ یہ پریس صحن نو میں تھا جسے اب صحن آزادی کہا جاتا ہے۔ یہ پریس سن تیرہ سو چوالیس ہجری قمری تک یہیں پر تھا ۔ پہلوی اول و دوم کے دور کے خاتمے اور اسلامی انقلاب کی شاندار کامیابی کے بعد ، آستان قدس رضوی کے اس وقت کے متولی کے حکم سے ، قرآن مجید اور اسلام کی حیات بخش تعلیمات کی ترویج اور اس سے متعلق کتب کی طباعت و اشاعت کے مقصد سے آستان قدس رضوی کے پہلے ثقافتی ادارے کی داغ بیل ڈالی گئي۔ اس ادارے کو سن انیس سو پچاسی میں آستان قدس رضوی کے طباعت و اشاعت کےادارہ عنوان سے شروع کیا گيا تھا جس کے بعد سے آستان قدس رضوی ، کتب کی طباعت و اشاعت کے میدان میں سنجیدگی سے داخل ہو گيا۔
آستان قدس رضوی کے ادارہ طباعت و اشاعت کے ڈائریکٹر مسعود فرزانہ نے مزید بتایا کہ اس ادارے میں طباعت و اشاعت سے متعلق تمام کام انجام پاتے ہيں اور اول سے لے کر آخر تک ہر کام ایک ہی جگہ پر ہوتا ہے ۔
ان کے مطابق اب یہ ادارے ، حرم مقدس اور اس کے تحت آنے والے اداروں کے علاوہ دیگر ناشروں، عالم اسلام کے مقدس مقامات، پڑوسی ملکوں اور طباعت سے متعلق دیگر صنعتوں اور اشتہارات پر بھی توجہ دے رہا ہے ۔
پوری طرح سے آٹومیٹیک مشینوں ، تمام ضروری ساز و سامان تک دسترسی، ماہرین کی موجودگی اور نئي تکنیک سے استفادہ وہ خصوصیات ہيں جن کی وجہ سے یہ ادارہ دیگر تمام اداروں سے مختلف سمجھا جاتا ہے۔ اس ادارے کے تحت چھپنے والی اکثر کتابوں کا موضوع دینی ہوتا ہے مثال کے طور پر قرآن مجید و احادیث سے متعلق موضوعات ، امام رضا کی تعلیمات اور سوانح حیات ، ائمہ اطہار کی سیرت جیسے موضوعات اس ادارے سے چھپنے والی کل کتابوں کا پچپن فیصد حصہ ہیں ۔
مسعود فرزانہ کا کہنا ہے کہ اس ادارے نے وزیری سائز کے پچپن فیصد قرآن چھاپے ہيں جسے حرم میں رکھا جاتا ہے اور جو سبز جلد والے قرآن کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس ادارے سے قرآن مجید کے جو تراجم چھاپے گئے ہیں ان میں آیت اللہ مکارم شیرازی کا ترجمہ قرآن سینتالیس فیصد ہے جو سب سے زيادہ چھاپا گيا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی طہ عثمان کی کتابت والا قرآن چوالیس فیصد چھاپا گيا ہے اس طرح سے یہ قرآن سب سے زیادہ چھاپا گيا ہے ۔
آستان قدس رضوی کے ادارہ طباعت و اشاعت کے ڈائریکٹر مسعود فرزانہ بتاتے ہيں کہ اس ادارے کا ایک اہم مشن، حرم مطہر کے میوزیم کے نادر نسخوں کی دوبارہ اشاعت ہے جس کا ایک نمونہ " آستان قدس رضوی کے شاہکار فن پارے " نامی سات جلدی کتاب ہے ۔ اس سلسلے میں حالیہ کتاب " عمارت خانہ خورشید " ہے جو کورونا کے دور میں مقدس حرم میں تعمیراتی کاموں کی تصویری حکایت پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کو بے حد دیدہ زیب جلد اور کتابت اور تصویروں کے ساتھ شائع کیا گيا ہے ۔ اس کتاب کو بہت توجہ کے ساتھ چھاپا گيا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ اس کتاب کو چھپنے کے بعد اسے رہبر انقلاب اسلامی کو پیش کیا گيا اور اگلی طباعت میں ان کی تقریظ بھی چھاپی جائے گی ۔
" ابراہیم سلطان " "خط بایسنغر " جیسے معروف قرآنی نسخے بھی جن کا تعلق تیموری دور سے ہے ، اس ادارے کی جانب سے زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں ۔
آستان قدس رضوی کے ادارہ طباعت و اشاعت نے گزشتہ برس ایران میں صنعت طباعت کے فیسٹیول میں خود کو بہترین ادارے کے طور پر پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور ثقافت و اسلامی رہنمائی کی وزارت کے ذریعے فیسٹیول کا ایوارڈ حاصل کیا تھا ۔
ثقافت ، فن ، ذرائع ابلاغ اور صنعت کا سنگم
آستان قدس رضوی کے ادارہ طباعت و اشاعت کے ڈائریکٹر مسعود فرزانہ کا کہنا ہے کہ طباعت سے میری دلچسپی کی اصل وجہ ، کتاب اور صنعت طباعت کے مراحل سے دلچسپی ہے ۔ وہ کہتے ہيں کہ میری نظر میں صنعت طباعت اس چوراہے کی طرح ہے جہاں " ثقافت " " فن " ذرائع ابلاغ " اور " صعنت " ایک دوسرے سے ملتے ہيں ۔ مختلف موضوعات کے ساتھ مختلف النوع کتب کی طباعت و اشاعت یقینا اہمیت کی حامل ہے اور خاص طور پر اگر وہ امام رضا علیہ السلام کی تعلیمات پر مشتمل ہو تو یقینا بہت اچھا کام ہے اور اس سے لوگوں میں علم کا اضافہ ہوتا ہے ۔
ان کے مطابق علم ، دانش ، فن کتابت جیسے ثقافتی سرمایہ کے بغیر ، موجودہ دنیا میں زندگي نا قابل قبول ہے ۔ ہم یقینا مختلف زمانوں میں علم و ثقافت کے میدان کی عظیم ہستیوں کی کتابوں اور خدمات کی قدر کرتے ہيں لیکن آج کے دور میں صنعت طباعت علم و فضل کی بڑی ہستیوں اور علم و فضل میں دلچسپی رکھنے والوں کے درمیان رابطہ کی ایک کڑی کے طور پر کام کرتی ہے اور میری نظر میں صنعت طباعت کی یہی سب سے بڑی ذمہ داری بھی ہے ۔
مطبوعہ کتب کو پڑھنے کا لطف ایسا ہے جس کی جگہ کوئي نہيں لے سکتا ۔ مطالعہ سے دلچسپی رکھنے والے ایک شخص کے لئے کاغذ و کتاب کی خوشبو بھی باعث سکون ہوتی ہے جو یقینا انٹرینٹ پر موجود کتابوں سے ممکن نہيں ہے ۔
اس کے علاوہ کاغذ کی کتابيں پڑھنے سے انٹرنیٹ اور سائبر اسپیس میں موجود کتابوں کے مقابلے میں دماغ اور آنکھوں کو کم تھکن کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ کاغذ کی کتابیں پڑھنے کے بعد کی باتیں، ڈیجیٹل کتابوں کے مقابلے میں زیادہ یاد رہتی ہيں یقینا ڈیجیٹل کتابوں کی افادیت اور اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ ڈیجیٹل طباعت کے بارے میں بھی یہ کہتا چلوں کہ بہت سے لوگوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل طباعت روایتی طباعت کی حریف ہے جو صحیح نہيں ہے اور میری نظر میں ڈیجیٹل طباعت کی اپنی افادیت ہے اور کچھ لوگوں کے لئے ہی مفید ہوتی ہے جبکہ اس میں خرچ ھی کم ہوتا ہے لیکن کیفیت و معیار ، جاذبیت ، کشش کے لحاظ سے وہ روایتی طباعت کا مقابلہ نہيں کر سکتی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈیجیٹل طباعت ، آف سیٹ طباعت کا ایک حصہ اور اسے مکمل کرنے والی ہے ۔
در اصل دونوں طرح کی طباعت ایک دوسرے کو مکمل کرتی ہیں اور ہر ایک ثفاقت کے میدان میں اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہيں کیا جا سکتا ہے کہ ڈیجیٹل طباعت کے دور میں بھی کاغذی کتابوں کا رواج در اصل اس سکون اور اس لطف کی وجہ سے ہے جو اس قسم کی کتابوں کو پڑھنے سے ملتا ہے ۔
میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ شیعہ کتابت کے ساتھ خاص اور بے حد معیاری رسم الخط میں ایک قرآن مجید آستان قدس رضوی اور امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ سے عالم اسلام میں شائع کیا جائے ۔ مطلب ایک دن ایسا بھی آئے جب فن کاروں ، دینی علماء اور طباعت کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم بنے جو شیعہ رسم الخط کے عنوان سے ایک مختلف اور بالکل الگ رسم الخط اور کتابت کو ڈیزائن کرے ۔
وہ آخر میں کہتے ہيں طباعت و اشاعت کے شعبے میں میری سرگرمی کے دور کا ایک اہم کام رحلی سائز میں قرآن مجید کی طباعت ہے جو امام رضا علیہ السلام کے روضے میں زائرین کے لئے خاص طور پر چھاپا گيا ہے اور پڑھنے میں آسانی کی وجہ سے زائروں نے کھلے دل سے اس کا خیر مقدم کیا ہے اور یہ ہمیشہ میرے ذہن میں رہتا ہے ۔