حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نائب امام جمعہ تہران حجۃ الاسلام والمسلمین کاظم صدیقی نے آج مہدویت کے موضوع پر منعقدہ تیسرے بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ابراہیم(ع) اپنے بیٹے اسماعیل(ع) کو قربان گاہ لے گئے جبکہ باپ اور بیٹے دونوں بغیر کسی چون و چرا کے خدا کے حضور سر تسلیم خم تھے اس وقت خدا نے حضرت ابراہیم (ع) سے گفتگو فرمائی اور آپ علیہ السلام کو مخاطب قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ،علماء کے فرامین کے مطابق،ذمہ داری(فرض) تک پہنچنے کے دن کو عید قرار دینا چاہئے،کیونکہ اس دن انسان کا اعتبار بڑھ جاتا ہے اور وہ خدائے تعالیٰ کا مخاطب قرار پاسکتا ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین صدیقی نے بیان کیا کہ امام زمان علیہ السلام کے ظہور اور انسانی تربیت کا پرچم لہرانے اور زندگی کے تمام مسائل کو آپ علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں سے حل کرانے کی شرط یہ ہے کہ معاشرے میں اسماعیلی اور ابراہیمی سوچ کے حامل افراد موجود ہوں۔
نائب امام جمعہ تہران نے مزید کہا کہ جو انسان اپنے آپ کو خداوند عالم کی حکمت کے سامنے صاحب نظر سمجھتا ہو وہ عدالتِ مہدوی کو بھی برداشت نہیں کرے گا۔حضرت امام زمانہ (ع) کے ظہور کے لئے ضروری شرط،تسلیم اور اطاعت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ خدا کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتا جس کے پاس محبت نہیں ہے،معرفت محبت سے پیدا ہوتی ہے اور تسلیم کرنا معرفت سے تعلق رکھتا ہے۔اگر تسلیم اور رضا نہ ہو تو اختلافات باقی رہیں گے۔ عشق و محبت منافقت کو ختم کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے اپنی رسالت کے اجر کو اہل بیت (ع) سے اظہار محبت اور مودت قرار دیا ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین صدیقی نے بیان کیا کہ آج ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ سماجی،معاشی اور سیاسی زندگی کے تمام پہلوؤں میں،ظہورِ منجی عالم بشریت کے لئے قدم اٹھائیں اور معرفت و عشق کی راہ میں تبدیلی پیدا کریں۔
امام جمعہ تہران نے تسلیم اور رضا کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امیر المؤمنین (ع) نے فرمایا کہ میں امیر تھا، لیکن میری قوم نے مجھے گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔جب لوگوں میں تسلیم اور اطاعت نہیں ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ،خدا کی بہترین مخلوق کی گوشہ نشینی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
حجۃ الاسلام والمسلمین صدیقی نے کہا کہ خداوند متعال مندرجہ ذیل آیۃ میں مومنین کو مخاطب قرار دے کر فرماتا ہے:«یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ»اے ایمان والو! (مشکلات اور ہوا و ہوس کے مقابلے میں)استقامت و پا مردی دکھاؤٴ اور دشمنوں کے مقابلے میں(بھی)استقامت کا مظاہرہ کرو اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو اور خدا سے ڈرو شاید تم کامیاب ہو جاؤ۔
نائب امام جمعہ تہران نے کہا کہ اس آیۃ میں خدائے تعالیٰ کا پہلا حکم خودسازی اور استقامت ہے۔خود سازی،انسان اور خدا کے درمیان حائل پردے کو ہٹا دیتی ہے۔اسلامی معاشرہ تب تک وجود میں نہیں آتا جب تک معاشرے کے افراد اسلامی نہ بن جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں خود سازی اور خودمختاری کی بہت اہمیت ہے۔اسلامی نقطۂ نظر سے،کسی شخص کی مدد کرنا ایک عارضی امر ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو بااختیار اور بے نیاز بنایا جائے۔ امام زمان علیہ السلام کی حکومت میں،معاشی حالات اس قدر بہتر ہوں گے کہ معاشرے کے تمام لوگ بے نیاز ہو جائیں گے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین صدیقی نے بیان کیا کہ خودسازی کے بعد اس آیۃ کا دوسرا حکم،ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے۔دینی نقطۂ نظر سے،مؤمن پر فرض ہے کہ وہ عالمی سطح پر سوچے۔مؤمن کو دنیا کے تمام مظلوموں اور محروموں کے امور میں ذمہ دار ہونا چاہئے۔عالمی سطح پر سوچنے کا مطلب مہدوی طرز تفکر ہے۔
تہران کے نائب امام جمعہ نے مزید کہا کہ اس آیۃ کا تیسرا حکم،مومنوں کے رابطے کو برقرار رکھنا اور اسے وسعت دینا ہے۔درحقیقت یہ سمینار "رابطوا" کے حکم پر مبنی ہے۔ اس طرح کے سیمیناروں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی احکامات کو عملی کیا جا سکتا ہے۔