۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ امیر المومنین نے محمد ابن ابی بکر کو مصر بھیجا۔ اس کے بعد خط لکھا ‏کہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ، آج کی اصطلاح میں، میرے عزیز تم مصر کے لئے مناسب ‏نہیں ہو۔ تمھیں ہٹا کے مالک اشتر کو مصر کا حاکم مقرر کرتا ہوں۔ کسی حکومت اور کسی حاکم کے لئے جو ‏ورع ہونا چاہئے، یہ اس کی اعلی ترین مثال ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کا ورع یہ ہے۔ ‏

رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کے مورخہ 21 جنوری 1997 کے ایک بصیرت آموز خطاب سے اقتباس؛

حوزہ نیوز ایجنسی। محمد ابن ابی بکر آپ کے بیٹے کی طرح ہیں۔ آپ انھیں اپنے بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ وہ بھی ‏حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو باپ کی  نگاہ سے ہی دیکھتے تھے۔ وہ ابی بکر کے ‏چھوٹے بیٹے اور حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ انھوں نے آپ کی آغوش تربیت ‏میں پرورش پائی تھی۔ امیر المومنین نے محمد ابن ابی بکر کو مصر بھیجا۔ اس کے بعد خط لکھا ‏کہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ، آج کی اصطلاح میں، میرے عزیز تم مصر کے لئے مناسب ‏نہیں ہو۔ تمھیں ہٹا کے مالک اشتر کو مصر کا حاکم مقرر کرتا ہوں۔ محمد ابن ابی بکر کو یہ بات ‏بری لگ گئی اور وہ ناراض ہو گئے۔ بہرحال انسان ہیں، اگرچہ ان کا مرتبہ بہت بڑا ہے۔ لیکن ‏انھوں نے اس پر ردعمل ظاہر کیا لیکن امیر المومنین نے کوئی اہمیت نہیں دی ۔ اس کو قابل ‏توجہ نہیں سمجھا۔  محمد ابن ابی بکر اتنی عظیم شخصیت، بیعت کے وقت اور جنگ جمل میں ‏امیر المومنین کے کتنا کام آئے۔ وہ ابی بکر کے بیٹے اور ام المومنین عائشہ کے بھائی تھے۔ ‏امیر المومنین کے لئے کتنی اہمیت رکھتے تھے؟! لیکن اس مسئلے میں امیرالمومنین نے ان ‏کی ناراضگی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ یہ ورع ہے۔ کسی حکومت اور کسی حاکم کے لئے جو ‏ورع ہونا چاہئے، یہ اس کی اعلی ترین مثال ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کا ورع یہ ہے۔ ‏
نجاشی نام کا ایک شاعر تھا جس نے امیر المومنین علیہ السلام کی مدح اور آپ کے دشمنوں ‏کی مذمت میں اشعار کہے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں ایک دن کسی گلی سے گزر رہا تھا، ‏کسی برے انسان نے اس سے کہا کہ آؤ آج کا دن میرے ساتھ گزارو۔ اس نے کہا کہ مسجد جا‎ ‎رہا ہوں، مثال کے طور وہاں نماز پڑھوں گا قرآن پڑھوں گا۔ اس نے کہا ماہ رمضان سے کیا ‏فرق پڑتا ہے۔ آؤ ہمارے ساتھ۔ وہ زبردستی اس شاعر کو اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ بھی شاعر ہی ‏تو تھا۔ اس کے گھر گیا، روزہ توڑا اور شراب پی۔ وہ نہیں چاہتا تھا لیکن گناہ میں مبتلا ہو‎ ‎گیا۔ ‏اس کے بعد سب کو معلوم ہو‎ ‎گیا کہ ان دونوں نے شراب پی ہے۔ امیر المومنین نے کہا کہ ان ‏پر حد جاری ہوگی۔ اسی کوڑے شراب پینے کے اور دس یا بیس کوڑے اس لئے کہ رمضان ‏کے مہینے میں یہ کام کیا۔ نجاشی نے کہا میں شاعر ہوں، آپ کی حکومت کا مداح ہوں، آپ ‏کے دشمنوں سے اپنی شاعری کے ذریعے جنگ کی۔‎ ‎آپ مجھے کوڑے ماریں گے؟‎ ‎آج کی ‏زبان میں یہ کہا جا‎ ‎سکتا ہے کہ امیر المومنین نے فرمایا کہ یہ سب بجا ہے، تم مجھے بہت ‏عزیز ہو، بہت اچھے ہو، ہمارے لئے اہمیت بھی رکھتے ہو، لیکن میں تعزیرات الہیہ کو معطل ‏نہیں کروں گا۔ اس کی قوم و قبیلے کے لوگ عزیز رشتے دار آئے، اصرار کیا  اور کہا کہ ‏اگر آپ نے اس کو کوڑے مارے تو ہماری عزت و آبرو خاک میں مل جائے گی اور پھر ہم ‏سر نہیں اٹھا سکیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ممکن نہیں ہے۔  خدا نے جو حد معین کی ہے میں ‏اس کو ضروری جاری کروں گا۔ اس کو لائے اور کوڑے مارے۔ وہ بھی رات میں فرار ہو گیا ‏چلا گیا۔ کہا کہ آپ کی حکومت کو یہ نہیں معلوم ہے کہ  مجھ جیسے شاعر، فنکار اور روشن ‏فکر کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہئے تو اب میں وہاں جاتا ہوں جہاں مجھے پہچانا ‏جائے اور میری قدر کی جائے۔ وہ معاویہ کے پاس چلا گیا۔ کہا کہ میری قدر جانتا ہے۔ (ایسے ‏انسان کے لئے یہی کہنا چاہئے کہ) جہنم میں جاؤ! جو اتنا اندھا ہے کہ اپنے ذاتی احساسات و ‏جذبات میں علی کی نورانیت اور تابناکی کو نہ دیکھ سکے اس کا انجام یہی ہے کہ معاویہ کے ‏پاس چلا جائے۔ اس کی عقوبت یہی ہے کہ معاویہ کا ہو جائے۔ جاؤ! امیر المومنین جانتے ‏تھے کہ وہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اہم شاعر تھا۔ اس زمانے میں شاعروں کی اہمیت آج سے ‏زیادہ تھی۔ البتہ آج بھی فنکاروں کی اہمیت ہے لیکن اس زمانے میں زیادہ تھی۔ اس زمانے میں ‏آج کی طرح ریڈیو اور ٹی وی چینل نہیں تھے۔ ذرائع ابلاغ عامہ کا سسٹم نہیں تھا۔ یہ شعرا ‏تھے جو شاعری کرتے تھے، شعر سناتے تھے اور ان کے اشعار ہر جگہ مشہور ہوتے تھے۔

امام خامنہ ای
‏21 جنوری 1997‏

تبصرہ ارسال

You are replying to: .