۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ

حوزہ/ کسی اچھائی یا خرابی کے معیار اور ذمہ دار زمین اور تربیت دونوں برابر کے قرار پاتے ہیں۔ سچی بات مشہور ہے کہ سونے کی کان سے سونا ہی نکلتا ہے اور چاندی کی کان سے چاندی ہی نکلتی ہے۔چاندی بڑے سے بڑے کاریگر کے ہاتھ میں جانے کے بعد بھی چاندی ہی رہے گی سونا نہیں بن سکتی۔اسی طرح کاریگر ماہر نہ ہو تو کان سے نکلنے والا ہیرا بھی معمولی پتھر سمجھا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی (صدرالافاضل،واعظ) بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر املو،مبارکپور ،ضلع اعظم گڑھ (اتر پردیش) ہندوستان نے "اچھائی یا خرابی کے معیار و ذمہ دارکون؟" کے عنوان سے سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں کتنے ہی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ اگر کہیں ایک گھر میں دو بھائی رہتے ہیں تو ایک بظاہر مسلمان و موحد ہوتا ہے تو دوسرا بظاہر مشرک و ملحد ۔ایک مدت تک اپنے قدیمی و ظاہری مذہب و مسلک پر عمل پیرا رہنے کے بعد جو مسلمان و موحد تھا وہ مشرک و ملحد ہو جاتا ہے اور جو مشرک و ملحد تھا وہ مسلمان و موحد ہو جاتا ہے۔اور اسی تبدیل شدہ حالت میں دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات دنیا میں گاہے بہ گاہے رونما ہوتے رہتے ہیں جو عوام و خواص کے لئے موضوع بحث ہوا کرتے ہیں اور ارباب بصا رت و بصیرت کے لئے باعثِ عبرت و نصیحت۔

قرآن مجید میں حق و باطل،ایمان و کفر اور طیب و خبیث کو بلد طیب و خبیث اور شجرہ ٔ طیبہ و خبیثہ اور کہیں کلمہ طیبہ و خبیثہ کی نہایت عمیق و عمدہ اور پر معنی مثالوں کے ذریعہ مجسم کر کے بیان کیا گیا ہے۔سورہ اعراف آیت نمبر ۵۸ میں ارشاد ہوتا ہے :
وَٱلْبَلَدُ ٱلطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُۥ بِإِذْنِ رَبِّهِۦ ۖ وَٱلَّذِى خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍۢ يَشْكُرُونَ
(الأعراف - 58)’’ اور عمدہ زمیناس کے پروردگار کے حکم سے اس کا سبزہ اچھا ہی ہے ،اور جو زمین بری ہے اس کی پیداوار بھی خراب ہی ہوتی ہے۔۔۔‘‘(سورہ اعراف آیت ۵۸)
اور سورہ ابراہیم آیت نمبر ۲۴ و۲۵و ۲۶میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴)تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵)ترجمہ: تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات (کلمہ توحید )کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط و قائم اور شاخیں آسمان میںہر وقت اپناپھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں‘‘۔
وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ ﹰ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(۲۶)ترجمہ: اور گندی بات(کلمہ شرک) کی مثال اس گندے درخت کی طرح ہے جوزمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہو تو اب اسے کوئی قرار نہیں ‘‘۔

کسی اچھائی یا خرابی کے معیار اور ذمہ دار زمین اور تربیت دونوں برابر کے قرار پاتے ہیں۔ سچی بات مشہور ہے کہ سونے کی کان سے سونا ہی نکلتا ہے اور چاندی کی کان سے چاندی ہی نکلتی ہے۔چاندی بڑے سے بڑے کاریگر کے ہاتھ میں جانے کے بعد بھی چاندی ہی رہے گی سونا نہیں بن سکتی۔اسی طرح کاریگر ماہر نہ ہو تو کان سے نکلنے والا ہیرا بھی معمولی پتھر سمجھا جاتا ہے۔

بہت سے اچھے خاندان اور بہترین نسل کے افراد ایسے ملیں گے جنھیں کسی باکمال کی تربیت و پرورش نصیب نہیں ہوئی اسی لئے ان سے وہ نفاست و پاکیزگی ظاہر نہیں ہوئی نہ ان کی ذات سے دنیا کو کوئی فائدہ پہونچا ۔اور بہت سے کم اہل اور خبیث معدن کے افراد ملیں گے کہ انھیں تربیت سدھارنے میں قاصر رہی اور ان کی بدبو پھیل کر رہی۔کڑوے درخت کے پھل کو لاکھ قیمتی خوشبو یا شہد سے نہلا دیا جائے مگر جب بھی ان کا پھل آئے گا کڑوا ہی آئے گا۔

امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اصحاب میں دونوں قسم کے نمونے پائے جاتے تھے۔مالک اشتر اور اشعث بن قیس بھی دونوں بہت بڑے سردار اور اپنے قوم و قبیلہ کے مانے ہوئے قائد تھے ۔یہ دونوں امیر المومنین ؑ کی صحبت میں رہے ،آپ کی لڑائیوں میں شریک ہوئے اور آپ کی طرف سے لڑائی لڑی لیکن چونکہ مالک اشتر کی طینت پاکیزہ تھی اور اشعث بد سرشت و خبیث طینت کا تھا اس لئے مالک اشتر کو امیر المومنین ؑ کی صحبت اور تعلیمات سے فائدہ پہونچا اور اشعث بن قیس پر ساری ریاضت و محنت رائیگاں گئی۔

امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لشکر میں مالک اشتر جیسے بھی بہت سے تھے اور اشعث جیسے بھی بہت سے تھے ۔مالک اشتر ،میثم تمار،اویس قرنی ،قیس ابن سعد،کمیل ابن زیاد اور امیر المومنین ؑ کے دیگر نیکو کار صحابہ کی بلندی منزلت اور پاکی طینت کو ہم کب اچھی طرح سمجھ سکتے تھے اگر اشعث ،زیاد،ابن ملجم،اور شمر جیسوں کی خباثت اور کمینگی ہم پر ظاہر نہ ہوتی۔نئے دور میں نئے نمونے سلمان رشدی و تسلیمہ نسرین اور جتیندر نارائن سنگھ تیاگی سابق وسیم رضوی ایسوں کی کمی نہیں ہے۔جن کے بارے میں بس اتنا کہنا کافی ہے ؎
پہونچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

سچ ہے ،تعرف الاشیاء باضدادھا،یعنی ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔
امام صادق (ع)!جو شخص اپنے دل میں ہماری محبت کی خنکی کا احساس کرے اسے اپنی ماں کو دعائیں دینا چاہئیں کہ اس نے باپ کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے۔( معانی الاخبار 161 (۔عبادة بنالصامت!ہم اپنی اولاد کا امتحان محبت علی (ع) کے ذریعہ کیا کرتے تھے کہ جب کسی کو دیکھ لیتے تھے کہ وہ علی (ع) سے محبت نہیں کرتاہے تو سمجھ لیتے تھے کہ یہ ہمارا نہیں ہے اور صحیح نکاح کا نتیجہ نہیں ہے۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)۔

امام صادق (ع)!خدا کی قسم عرب و عجم میں ہم سے محبت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو اہل شرف اور اصیل گھر والے ہیں اور ہم سے دشمنی کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کے نسب میں نجاست، گندگی اور غلط نسبت پائی جاتی ہے۔( کافی)۔

رسول اکرم!یا علی (ع) ! جو مجھ سے تم سے اورتمھاری اولاد کے ائمہ سے محبت کرے اسے حلال زادہ ہونے پر شکر خدا کرنا چاہیئے کہ ہمارا دوست صرف حلال زادہ ہی ہوسکتاہے اور ہمارا دشمن صرف حرام زادہ ہی ہوسکتاہے، ( امالی صدوق ص384)
حضرات اہل سنت کی کتابوں میں بھی اس مضمون کی متعدد حدیثیں موجود ہیں:۔

حافظ طبری نے کتاب ""الولایة"" میں اپنی سند کے ساتھ حضرت علی (علیہ السلام) سے اس حدیث کو نقل کیا ہے : ""لایحبنی ثلاثة : والد الزنا ، منافق و رجل حملت بہ امہ فی بعض حیضھا"مجھ سے تین طرح کے لوگ محبت نہیں کرتے : زنا زادہ، منافق اور وہ جس کی ماں حیض کی حالت میں حاملہ ہوئی ہو ‘‘۔

حافظ حسن بن علی عدوی نے احمد بن عبدہ ضبی سے اور انہوں نے ابو عیینہ سے انہوں نے ابن زبیر سے اور انہوں نے جابر سے نقل کیا ہے :""امرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان نعرض اولادنا علی حب علی بن ابی طالب"" ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ اپنے بچوں کو علی بن ابی طالب علیہ السلام کی دوستی کے ذریعہ امتحان کرو ۔ اس حدیث کے رجال ، صحیحین (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) کے رجال ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں ‘‘۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .