حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت سے حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے امام بارگاہ بھیک پور سیوان بہار میں مجلس و مصائب کا انعقاد کیا گیا۔ جسکی شروعات میں مولوی فیضان علی گورکھپوری نے سفیر امام حسین حضرت مسلم بن عقیل کے یوم شہادت کے سلسلے سے کہا کہ حضرت مسلم بن عقیل کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ اسلام کی کئی متبرک ہستیوں کی آغوش اور صحبت میں پرورش لیتے رہے۔ ان میں رسول خدا ۖ کی ذات گرامی' حضرت ابو طالب ' حضرت فاطمہ بنت اسد ' حضرت سیدہ خدیجہ الکبری' حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام' حضرت سیدہ فاطمہ زہرا اور رسول خدا کے دونوں نواسوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے ذوات مقدسہ شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حضرت علی ابن ابی طالب کے زمانہ خلافت میں ان کے ساتھ بھرپور معاونت کی اور اسلام کی ترویج و تحفظ کے لئے آپ کے ہم قدم رہے جب حضرت امام حسین نے سفر شہادت کے لئے رخت سفر باندھا تو حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا راز دار اور نائب خاص مقرر فرماکر کوفہ کی طرف روانہ کیا۔مزید کہا ہے کہ باطل نظام کے خلاف قیام کی جدوجہد میں عوامی رابطہ مہم کی ذمہ داری جس شخصیت کے ذمہ لگائی گئی وہ حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب تھے۔ حضرت مسلم بن عقیل نے حقیقی اسلام کے سفیر کا کردار ادا کیا۔ کیونکہ وہ جس ہستی کے حکم پر مدینہ سے کوفہ کی طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لئے روانہ ہوئے وہ ہستی امام حسین دین اسلام اور شریعت محمدی ۖ کے دفاع اور تحفظ کے لئے کمربستہ تھی اور حضرت مسلم بن عقیل نواسہ رسول ۖ کے شانہ بشانہ اس جہاد میں شریک تھے اور اپنی شہادت کے ذریعہ واقعہ کربلا کی بنیادیں استوار کرگئے۔
آپ نے کہا کہ حضرت مسلم بن عقیل وفاشعاری اور شجاعت و بہادری کا پیکر تھے۔ آپ نے وفا کے جذبے کا ایسا مظاہرہ کیا جیسے حضرت علی نے پیغمبر اکرم ۖ کے ساتھ وفاشعاری کی زندگی بسر فرمائی تھی۔ اور حضرت علی کی طرف ہی جنگی مہارتوں اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے جب کوفہ کے گلی اور کوچوں میں آپ کو یذیدی افواج نے گھیر لیا۔ شدت پیاس اور بے یارومددگار ہونے کے باوجود حضرت مسلم بن عقیل ہزاروں شامی فوجیوں کے مقابل تنہا ہوکر بھی مردانہ وار لڑے۔
آپ کی زندگی کے مطالعہ سے جہاں ہمیں دین اور دین کے رہبروں سے وفا کا سبق ملتا ہے وہاں حکومتی دبائو میں آکر وفاداریاں بدلنے والے اور بیعت سے ہاتھ اٹھالینے والے چہرے بھی بے نقاب ہوتے ہیں یہ تاریخ کا ایک اہم اور تاریک باب ہیں جن سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے لہذا ہمیں حضرت مسلم بن عقیل کی طرح اسلام اور اسلامی اقدار سے عملی وابستگی' رہبر کی اطاعت' دین کے تحفظ اور قربانی کے جذبے کو زندہ رکھنا چاہیے اور دور حاضر کی یذیدی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کرنی چاہیے۔
مولوی علی رضاالہ آبادی نے آجکے حضرت مسلم کے اس غربتی بیان میں کہا کہ مسلم بن عقیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے چچا زادہ بھائی ، مردحق،جر ی اور اسلام میں امام کے حقیقی آشنا تھے۔ آپ اسلامی فتوحات اور جنگ صفین وغیرہ میں شریک رہ چکے تھے او رجب امام حسین علیہ السلام نے بیعت یزید کوٹھکرا کر مدینہ کو خدا حافظ کہا توآپ بھی امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ مکہ تک تشریف لائے، مکہ میں امام حسین علیہ السلام کو اہل کوفہ کے خطوط موصول ہوئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں ہے آ پ تشریف لائیے ہوسکتا ہے آپ ہماری ہدایت کا سبب بنیں۔امام حسین علیہ السلام کوفہ کی تہذیب اور وہاں کے لوگوں کی بدلتی ہوئی طبیعت اور مفاد پرستی کو بخوبی جانتے تھے ، کیونکہ اسی کوفہ میں آپ کے پدر بزرگوار حضرت علی علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا ۔ایسے شہر کے لئے کسی مخلص اورتجربہ کار شخص کی ضرورت تھی کہ جولحظہ بہ لحظہ رنگ بدلنے والے افراد سے شکست نہ کھا سکے اور اپنے مقصد کے حصول سے ہنگامی حالات میں بھی غافل نہ رہے ۔امام حسین علیہ السلام نے اپنے مختصر قافلہ پر نظر ڈالی اور مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ منتخب فرماکر کوفہ روانہ کردیا۔شہر مکہ سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک شکار ی نے ہرن شکار کیا ہے اوراسے ذبح کررہا ہے حضرت مسلم نے اس کو بدشگونی سمجھا اور واپس آگئے امام نے دریافت فرمایا:آپ کیوں واپس لوٹ آئے ؟حضرت مسلم جواب دیتے ہیں مولا اس سفر میں خطرہ محسوس ہوتاہے کیونکہ جب میں مکہ سے باہر نکلا تومیں نے ایک شکاری کو ہرن ذبح کرتے دیکھا آپ نے فرمایا :مسلم ہم اہل بیت ایسی چیزوں سے فال بدنہیں لیتے لہذا تم کوفہ کے لئے روانہ ہو جاؤ۔
اطاعت امام علیہ السلام:
جناب مسلم اس موقع پر یہ نہیں کہتے کہ مولا اس سفر کی ابتدامیں جب ایسی بدشگونی ہوگئی تواس کی انتہا کتنی خطرناک ہوگی ۔اورپھر بنی امیہ سے ہماری خاندانی دشمنی چلی آرہی ہے کوفہ کی حکومت ان کے ہاتھ میں ہے میں تن تنہا جاں گا تو اس کا جونتیجہ ہوگا وہ سامنے ہے میں اکیلا حکومت کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔اس کے برعکس مسلم خاموش مولا کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کئے فرمان امام سن رہے ہیں امام علیہ السلام نے آخرمیں کامیابی کی دعادی اور مسلم مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہو گئے۔
امام کا خط اہل کوفہ کے نام
حضرت مسلم کی روانگی سے قبل امام نے سعید اور ہانی بن عروہ کے ہاتھ ایک خط اہل کوفہ کے نام اس مضمون کا ارسال کیا یہ لوگ یعنی سعید وہانی بن عروہ تمہارے خطوط لے کر پہنچے تمہاری تحریر کومیںنے غور سے پڑھا تمہاری بات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ تمہار ا کوئی امام نہیں ہے لہذا تم مجھے بلا رہے ہو ،سردست میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں یہ میرے معتمد ہیں اور میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ وہ مجھے تمہارے حالات کی اطلاع دیںگے اگر انہوں نے اطلاع دی کہ کوفہ کے سربرآوردہ افراد اس بات پر متفق ہیں تو میں آجاں گا ۔واضح رہے امام کتاب خدا پرکامل عدالت کا پابند حق اور مرضی معبود کاہمہ وقت خواستگار ہوتا ہے۔ ''' والسلام حسین بن علی بن ابی طالب'''جناب مسلم مکہ سے مدینہ تشریف لائے اور روضہ رسول میں نماز اداکرکے صبح ہوتے ہی کوفہ کی سمت سفر کا آغاز کردیا۔راستہ کی مشکلا ت برداشت کرتے ہوئے مدینہ سے کوفہ پہنچے اور مختار بن عبید ثقفی کے گھر قیام پذیر ہوئے ۔ جناب مسلم کی آمد کی خبر سن کر اہل کوفہ مختار کے گھر میں جمع ہوئے آپ نے امام حسین علیہ السلام کا خط پڑھ کرسنایا تولوگ جوش محبت وعقیدت سے رونے لگے۔اوربعض بااثر عقیدت مندوں نے کھڑے ہوکر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اپنی نصرت کا یقین دلایا اسکے بعد لوگ آپ کے ہاتھوں پرامام حسین کی بیعت کرنے لگے۔ اگرچہ جناب مسلم نے ان لوگوں سے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا تھا لیکن جب وہ بہ رضا ورغبت بیعت کرنے لگے تو آپ نے ان سے اس طرح بیعت لی جس طرح رسول نے قبیلہ خزرج و غیرہ سے بیعت لی تھی بیعت کے الفاظ یہ تھے ؛کتاب خدا وسنت رسول کی طرف دعوت ، ظالموں اورسرکشوں سے جہاد ،مستضعفین سے دفاع ،محروموں کے حقوق کی بازیابی ،غنائم کی صحیح تقسیم اور اہل بیت کی نصرت۔بیعت کرنے والوں کی تعداد میں اختلاف ہے اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بیعت ایک ہی روزنہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا سلسلہ کم وبیش ایک ماہ جاری رہا تھا ۔اسی لئے بیعت کرنے والوں کی تعداد معین نہیں کی جا سکتی۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسبط حید قبلہ نے دعائے عرفہ کے سلسلے سے مطالب کوبیان کرنے کے بعد جب مصایب کا رخ کیا توآپ نے مصایبی سفر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب ابن زیاد ملعون کوفہ کا گورنر بن کر آیا تواس نے اہل کوفہ سے کہا : شام سے بہت جلد لشکر آنے والا ہے ،جو تم کو تباہ وبرباد کردے گا نیز تمہاری جان اور آبرو بھی محفوظ نہ رہ سکے گی ۔چنانچہ وہ افراد جنہوں نے ابن زیاد کا کلا م سنا تھا ، وہاں سے نکل کرمہاجرین کے اہل خانہ کے پا س پہنچے اوران کی ماں بہنوں اوربیویوں کوورغلایا کہ تمہارے وارثوں کو شام کا لشکر آکر تہہ تیغ کردیگا اورلشکر آنے ہی والا ہے عورتوں کا دل اپنے وارثوں، بھائیوں بھتیجوں کے قتل سے لرزنے لگا اوربے تحاشا گھروں سے نکل پڑیں اور اپنے اپنے عزیزوں کے دامن پکڑ کر فریادیں کرنے لگیں جن سے مہاجرین کے دل بھی کانپنے لگے کچھ تو انہیں عورتوں کے ساتھ چلے گئے اور کچھ موقع دیکھ کر فرار ہوگئے اورجناب مسلم وہا ں پہنچے تو بہت مختصر افراد کوموجود پایا شام ہوتے ہی آپ کے پا س صرف ٠٣افراد بچے تھے اسی قلیل تعداد کے ساتھ آپ نے نماز مغربین ادا کی نماز کے بعد ان میں سے بھی دس فرار ہوچکے تھے مسلم مسجد سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ کے ساتھ دس ہی افراد رہ گئے ہیں انہیں لوگوں کے ہمراہ آپ باب کندہ کی طرف روانہ ہوئے مسلم محلہ کندہ میں جس وقت پہنچے تواپنے کو تنہا پایا اب آپ کے ہمراہ کوئی راستہ بتانے والا بھی نہ تھا اورابن زیاد کی دھمکی آمیز تقریر سے کوفہ میں سناٹا چھایا ہوا تھاہر ایک کے مکان کا دروازہ بندنظر آتا تھا مسلم کی نگاہ ایک عورت پرپڑی جواپنے دروازہ پر کھڑی اپنے بیٹے کا انتظار چونکہ مسلم پر پیاس کا شدید غلبہ تھا اور دوسری طرف کوفیوں کی غداری کے احساس نے بھی کافی متاثر کر دیاتھا آپ نے اس عورت کے پاس جاکر سلام کیا اور کہا میں پیا سا ہوں مجھے پانی پلادو۔اس عورت کانام طوعہ تھا جو پہلے محمدبن اشعث کی کنیز تھی اور آزادی کے بعد اسید حضرمی کے نکاح میں آگئی تھی اس سے ایک لڑکا بلال پیدا ہوا وہ اسی لڑکے کا انتطار کررہی تھی طوعہ اندر سے پانی لائی مسلم نے پانی پیا پھر وہ کاسہ رکھنے اندر چلی گئی اور جب لوٹ کر آئی تو دیکھا کہ وہ شخص دروازے ہی پر بیٹھا ہوا ہے طوعہ نے کہا اے بندہ خدا کیا میں نے تمہیں پانی نہیں پلایا ؟ اس کے بعد فورا حضرت مسلم سے کہا : تم اب اپنے گھر کیوں نہیں جاتے ؟
مسلم خاموش رہے اس نے دوتین مرتبہ کہا تو مسلم نے جواب دیا! اے کنیز خدا میرا اس شہر میں کوئی گھر نہیں ہے کیا تم اپنے گھر میں مجھے پناہ دے کر ثواب حاصل کروگی ؟ممکن ہے اپنی زندگی میں، اس کا کچھ عوض دے سکوں .طوعہ نے پوچھا آپ کون ہیں آپ نے فرمایا: میں مسلم بن عقیل ہوں کوفہ والوں نے میرے ساتھ غداری کی ہے ۔طوعہ نے کہا آپ مسلم ہیں آئیے میرا گھر حاضرہے آپ داخل خانہ ہوئے طوعہ نے ایک الگ کمرے میں فرش لگایا کھانا لائی مگر آپ نے کھانا تناول نہیں فرمایا. اسی اثنا میں طوعہ کا لڑکا بلا ل آگیا اس نے اپنی ماں کو جب اس کمرہ میں باربار آتے جاتے دیکھا تو معلوم کیا کہ آپ اس کمرہ میں آج بار بار کیوں داخل رہی ہیں بتائیے ماجرا کیا ہے ؟لڑکے کی ضد نے اس کو یہ راز بتانے پر مجبور کردیا پہلے اس نے لڑکے سے کہا : تم یہ قسم کھا کہ یہ بات کسی سے نہیں بتا گے اس نے قسم کھائی توطوعہ نے کہا کہ آج ہمارے گھر میں مسلم بن عقیل مہمان ہیں وہ یہ بات سن کرخاموشی سے لیٹ گیا لیکن صبح ہونے کا بے چینی سے انتظار رکرنے لگا ،صبح ہوتے ہی طوعہ کا لڑکا بلا ل، عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ مسلم بن عقیل ہمارے گھر میں موجود ہیں عبدالرحمن، فورا ہی دربار ابن زیاد میں اپنے باپ کے پاس پہنچا اور اس کے کان میں آہستہ سے کہا کہ مسلم ہمارے محلہ کے گھر میں چھپے ہوئے ہیں ابن زیاد نے پوچھا کہ لڑکا کیا کہہ رہا ہے ؟محمد بن اشعث نے جواب دیا کہ کہتا ہے مسلم بن عقیل ہمارے گھروں میں سے کسی گھر میں ہیں. مسلم کی گرفتاری کیلئے ابن مرجانہ نے محمد بن اشعث کی سرکردگی میں اسی سواروں کو روانہ کیا جب یہ لشکر طوعہ کے گھر کے قریب پہنچا جناب مسلم نے ہتھیاروں کی جھنکاراورگھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی زرہ پہن کرگھر سے باہر نکلنا ہی چاہتے تھے کہ ابن اشعث کا لشکر گھرمیں داخل ہوا اورمسلم کوگرفتار کرنے کے نتیجہ میں جنگ شروع ہوگئی اور تن تنہا مسلم نے لشکر کوتین مرتبہ گھر سے باہر نکال دیا۔ ۔۔۔
جب ابن زیاد کے سپاہیوں نے دیکھا کہ اس طرح مسلم بن عقیل پر ہم قابو نہیں پاسکیں گے توانہوں نے مکانوں کی چھتوں سے جناب مسلم پر پتھر اور آگ برساناشروع کردیا،مسلم بن عقیل اس روباہ شکار لشکر کی بزدلی اور اوچھاپن کودیکھ کر گھر سے نکل آئے اوردلیرانہ جنگ کرنے لگے اورمحمد بن اشعث کے بہت سے سپاہیوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا ۔مسلم کے حملوں کودیکھ کر ابن اشعث سمجھ گیا کہ مسلم کواس طرح گرفتار نہیں کیا جاسکتا لہذا اس نے کہا مسلم آپ کے لئے امان ہے توآپ نے فرمایا:کیا فریب کا راوربدکردارلوگوں کی امان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ لیکن لشکر والوں نے بیک آواز کہا کہ آپ کودھوکا نہیں دیا جارہا ہے اورنہ ہی آپ سے جھوٹ بولا جارہا ہے ۔آپ کواسیر کرکے ابن زیاد کے پاس لایا گیا ؛اورجب جناب مسلم نے اپنی شہادت کے آثار محسوس کئے تووصیت کے لئے مہلت طلب کی ابن زیاد نے کہا وصیت کی اجازت ہے حضرت مسلم نے ایک مرتبہ پورے مجمع پر نظر ڈالی عمر سعد کے علاوہ کوئی شخص وصیت کے لائق نظر نہ آیا،مجبوری کی حالت میں کمینہ، نالائق اور گھٹیا لوگ بھی قابل اعتماد سمجھ لئے جاتے ہیں ،لہذاحضرت مسلم نے بھی ابن سعد کولائق اعتبار سمجھ کرفرمایا ہمارے تمہارے درمیان ایک قرابت ہے اس لئے تم سے میری ایک خواہش ہے لیکن ابن سعد نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا ،ابن زیاد نے کہا سن تو لوکیا کہتے ہیں.ابن سعد جناب مسلم کے پاس گیا آپ نے اس کویہ وصیت کی کہ جب میں کوفہ آیا تھا تواس وقت میں نے چھ سودرہم قرض لئے تھے ان کومیری زرہ اورتلوار فروخت کرکے اداکردینا اورمیری شہادت کے بعد ابن زیاد سے میر ی لاش لے کردفن کردینا اورامام حسین علیہ السلام کو خط لکھ کر اس حادثہ سے مطلع کردینا اورلکھنا کہ کوفہ تشریف نہ لایئے. ابن زیاد نے حکم دیا کہ مسلم کو بالائے بام لے جاکر شہید کردیا جائے جب مسلم کو چھت پر لے جایا گیا تو اس وقت آپ یاد خدا میں مصروف تھے احمر بن کبیر نے جناب مسلم کا سر تن سے جدا کیا اور لاش کو زمین پرپھینک دیا ۔اِنا للہِ و اِنا اِلیہِ راجِعون