از قلم : مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری
مسلم……
یعنی ولی خداکے ہر حکم کے آگے ہمہ وقت تسلیم …اپنے مولاکے چشم و ابرو کے ایک اشارے پر جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ؛
اپنے آقاکی خوشنودی کے لئے دنیا جہاں کی دشمنی مول لینے کے لئے ہمیشہ آمادہ؛
مسلم ……
یعنی نائب امام،نمائندۂ ولی خدا،سفیر ولایت و امامت؛
وقت کے ولی خدا کو کتنا اعتماد ہے ، کس قدر بھروسہ ہے اپنے اس بھائی پر؛
لاکھوں خطوط کے بعد حجت تمام کرنے کے لئے اپنا نائب بناکر کوفہ روانہ کررہے ہیں ۔
یہ سرزمین مکہ ہے ، یہاں ڈھیروں خطوط آئے ہیں ، اب تاخیر کرنا مناسب نہیں۔
یا تو خود جائیں یا پھر کسی ایسے کو روانہ کریں جو کوفہ کے لوگوں کے لئے ولی خدا کی کمی پوری کرسکے ۔
لوگ اپنے دینی امور میں اسے اپنا مرجع قرار دیں ۔
اسی لئے آپ نے اپنے باوفا اصحاب کے درمیان اپنے چچیرے بھائی "مسلم بن عقیل" کاانتخاب فرمایا۔
آج مسلم کوفہ کے لئے روانہ ہورہے ہیں ، چا سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے کوفہ پہونچنا ہے ،
فاصلہ زیادہ ہے اور وقت کم؛
اسی لئے آپ نے ہر روز ستر کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا ۔
خدا را شکر ! آج مسلم کوفہ پہنچ چکے ہیں۔
ذرا کوفہ والوں کو دیکھئے ، جناب مسلم کے استقبال کے سلسلے میں کتنے والہانہ پن کامظاہرہ کررہے ہیں ۔
وہ بہت خوش ہیں کہ امام حسین ؑنے ان کے خطوط کا عملی جواب دیتے ہوئے اپنے بہترین صحابی کو ہمارے شہر میں روانہ کیاہے۔
دروازۂ شہر پر کتنا شور ہے!
بوڑھے جوان ، مردو عورت سبھی سفیر ولایت کے استقبال کے لئے آئے ہیں ۔
ہر طرف خوشیوں کا ماحول ہے ، ایسا لگ رہاہے جیسے سبھی کو جناب مسلم کے آنے گا شدت سے انتظار تھا ۔
آئیے، نزدیک سے مجمع کی حالت کا جائزہ لیاجائے ۔
بعض لوگوں کی آنکھوں میں اشک شوق ہے ، انہیں ابھی تک یقین نہیں ہورہاہے کہ امام حسین ؑکا نمائندہ ،ولی خدا کا نائب، تھوڑی ہی دیر میں شہر میں داخل ہونے والا ہے… ۔
کچھ جوان ہیں جو جناب مسلم کو بے قابو بھیڑ سے بچا رہے ہیں۔
کچھ بزرگ شخصیتیں ہیں جو اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ مسلم کس کے گھر میں قیام کریں گے...
اور پھر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ، سفیر ولایت شہرکے دروازے سے اندر داخل ہوا ۔
لوگوں کی حالت نہ پوچھئے ، نائب امام کو دیکھنے کے لئے ایک دوسرے کا ذرا بھی خیال نہیں ہے ۔
ایسا لگ رہاہے جیسے وہ مسلم کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اپنی جان بھی قربان کردیں گے ۔
بڑی مشکل سے حالات قابو میں آئے ۔
اور جناب مسلم ...یہ صورت حال دیکھ کر پریشان ہونے کے بجائے خوش ہیں ، بہت خوش ۔
مسلم نے جناب مختار کے گھر میں سکونت اختیار کی۔
دوسرے دن لوگوں کا تانتا لگ گیا ، وہ سفیر امام کی بیعت کے ذریعہ اپنے امام اور ولی خدا سے عشق و محبت کا ثبوت دینا چاہ رہے تھے ۔
سبھی نے بیعت کی اور اپنے عمل سے امام وقت کے ساتھ وفاداری کا یقین دلایا ۔
جناب مسلم مسکرا رہے ہیں ، ان کے چہرے کا ہر حصہ ان کی اندرونی خوشی کی غمازی کررہاہے ۔
ان کو خوشی اس بات کی ہے کہ لوگ جب اپنے امام کے سفیر کے لئے اس قدرجوش و ولولہ دکھا رہے ہیں،
تو اپنے امام کے لئے ان کی کیا حالت ہوگی ،وہ اپنے امام کے لئے کس قدر والہانہ پن کا مظاہرہ کریں گے۔
اس احساس سے مسلم کے پورے وجود پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔
مسلم نے پہلی ہی فرصت میں اپنے امام ، ولی خدا اور خورشید ولایت کو کوفہ کے حالات لکھ بھیجے:
آقا! حالات بڑے سازگار ہیں ،لوگ آپ کے دید کے مشتاق ہیں ، ان کی حالت پر ترس کھائیے ، یہ ہر اعتبار سے آپ کی ہدایت و رہبری کے لئے آمادہ ہیں ، مولا ! مزید تاخیر نہ کیجئے اور ان پیاسوں کو آب ولایت سے سیراب کیجئے ۔
مسلم نے اپنے امام کو خط لکھ کر سکون کی سانس لی ، وہ مطمئن ہیں کہ ہم نے بروقت امام کو حالات سے باخبر کردیا ہے ۔
کوفہ میں اب کوئی خوف و خطر نہیں ہے ، یہاں امام محفوظ رہیں گے ۔
مگر افسوس !
مسلم نے ظاہری حالات کے پیش نظر ذرا عجلت کردی یا پھر کوفیوں کو پہچاننے میں جلدی کردی ۔
کوفیوں کے اوپر اعتماد کرنا ، بہت مشکل ہے ، ان کی زبان کچھ کہتی ہے اور دل کچھ اور ۔
ایک ابن زیاد کے آتے ہی انہوں نے کتنی جلدی اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ۔
ابن زیاد نے آتے ہی کوفہ کے حالات بالکل بدل دئیے ، اب وہاں سکون و اطمینان نہیں ، خوف و ہراس کا بسیرا ہے ۔
لوگ اپنی جان کے خوف سے اپنے ہی گھر میں بھیگی بلّی بنے ہوئے ہیں ۔
وہ صرف اپنے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔
انہیں مسلم کا ذرا بھی خیال نہیں ہے ۔
کچھ وفادار ہیں جو جناب مسلم کے لئے فکر مند ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے ۔
انہیں وفاداروں میں ہانی بھی ہیں جنہوں نے سفیر ولایت کو پناہ دیا ہوا ہے ۔
جناب ہانی کے گھر میں جناب مسلم محفوظ تھے ، صرف اپنوں کا آنا جانا تھا ، مخصوص افراد کے علاوہ کسی کو خبر نہیں تھی کہ مسلم کہاں ہیں ۔
اسی لئے دشمن نے چال چلی اور یہ راز فاش ہوگیا کہ جناب مسلم کہاں چھپے ہوئے ہیں ۔
اللہ اکبر ! ۱۸/ ہزار بیعت کرنے والوں کے ہوتے ہوئے بزرگ قبیلہ کو گرفتار کیاگیا اور قید خانے میں ڈال دیاگیا۔
اب مسلم شہر میں اکیلے ہیں ، ابھی کچھ دیر پہلے نماز مغرب میں ہزاروں لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تھی ،
لیکن پھر نماز عشاء کے بعد مسلم نے پیچھے موڑ کر دیکھا تو سب غائب تھے ۔
یہ ہے کوفیوں کی وفاداری ۔
سفیر ولایت کو تنہا چھوڑ کر سب جا چکے تھے ۔
اب مسلم ہیں اور کوفہ کی تاریک اور خوفناک رات ؛
رات کی تاریکی میں راستہ بھی سمجھ میں نہیں آرہاہے ؛
پیاس کی شدت تڑپا رہی ہے ، تھکن سے چور ہیں ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کیا کریں ۔
مسلم خود کو حالات کے سہارے چھوڑ کر ایک گھر کے دروازے پر بیٹھ گئے ۔
تبھی ایک ضعیفہ گھر سے باہر نکلی ، گھر کے دروازے پر ایک اجنبی کو بیٹھا ہوا دیکھا ۔
اجنبی کی حالت بری تھی ، گھر سے پانی لائی اور دیتے ہوئے کہا : بیٹا ! اپنے گھر جاؤ ، شہر کے حالات خراب ہیں ۔
مسلم نے اس مہربان معظمہ پر ایک نظر ڈالی اور فرمایا : جس کا کوئی گھر نہ ہو وہ کہاں جائے ۔
ضعیفہ نے جملہ میں موجود بے پناہ درد کو محسوس کیا ، لہجہ میں وقار تھا ، متانت تھی ، ذرا نزدیک آئی ؛
ادب سے پوچھا: آپ کون ہیں ؟
میں مسلم ہوں ، عقیل ابن ابی طالب کا بیٹا ، امام حسین کا نمائندہ بن کر اس شہر میں آیا تھا ،
لیکن شہر والوں نے دھوکہ دے دیا۔
ضعیفہ تڑپ گئی :آقا !معاف کیجئے ، میں آپ کو پہچان نہ سکی ۔
آقا !یہ آپ کا گھر ہے ، خوش آمدید ، اس کنیز کے گھر کو رونق عطا کیجئے ۔
آقا ! گھر میں تشریف لائیے ۔
جناب مسلم کو بڑی اپنائیت محسوس ہوئی ، آپ گھر میں داخل ہوئے۔
ضعیفہ نے کھانا کھلایا اور ایک کمرے میں استراخت کا زمینہ فراہم کیا ۔
سب کچھ ٹھیک تھا ۔
لیکن کیا کیجئے ، یہ کوفہ ہے !ایک ہی گھر میں ماں دوستدار اہل بیت ؑ ہے ،لیکن بیٹا اہل بیت کا دشمن اور حکومت کا کارندہ ۔
انعام کی لالج میں اس نے ابن زیاد کے دربار میں خبر کردی ۔
روز عرفہ کا سورج نمودار ہوا ؛
جس دن خدا اپنے بندوں پر رحمت و برکت نازل فرماتاہے ؛ لیکن شاید کوفیوں کو اس رحمت سے کوئی بہرہ نہیں ۔
اُ دھر ولی خدا مکہ میں دعا و مناجات کررہاہے
اور اِدھر نائب ولی خدا مصائب و آلام میں گھرا ہواہے ۔
ایک مسلم ہیں اور ہزاروں ننگی تلواریں ؛
لیکن خوف زدہ نہیں ہیں ، ہزاروں کے سامنے اکیلے مرد میدان بنے ہوئے ہیں ۔
کسی میں اتنی تاب نہیں ہے کہ قریب جاکر حملہ کرسکے ، جو قریب جاتا اپنے کیفر کردار کو پہونچ جاتا ۔
تبھی ابن اشعث نے اعلان کیا : اے لوگو! اگر سونا چاندی چاہتے ہو تو اپنے گھروں کی چھتوں پر جاؤ اور مسلم پر پتھروں کی بارش کرو ۔
آہ ! عجیب منظر ہے ، پتھروں سے ایک مہمان کی مہمان نوازی کی جارہی ہے ۔
کل جو لوگ مسلم کے ہاتھوں کا بوسہ لینے کے لئے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے آج وہی لوگ آپ پر پتھروں کی بارش کررہے ہیں۔
خدایا! مسلم کی خیر ہو ۔
مسلم کے چہرے سے خستگی نمایاں ہے ، تھکن سے چور ہیں لیکن اس حالت میں بھی شمشیر پر قبضہ مضبوط ہے ۔
تلوار چلاتے ہیں تو حیدر کرار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔
تبھی دھوکہ بازوں نے ایک چال چلی ، ایک کنواں کھود کر اسے خس خاشاک سے چھپا دیا ۔
مسلم مردانہ وار جنگ کرتے ہوئے کنویں میں گر گئے ۔
تاب مقاوت جاتی رہی اور جناب مسلم گرفتار کر لئے گئے ۔
...
جناب مسلم ابن زیاد کے محل میں لائے گئے ۔
ذرا مسلم کے ہونٹوں کو دیکھئے ، شدت عطش سے خشک ہوچکے ہیں ، وہ جرعۂ آب کا مطالبہ کررہے ہیں ؛
لیکن اتنے بڑے مجمع میں کوئی بھی انسانیت سے آشنا نہیں ، ایک نگہبان گستاخی کرتے ہوئے کہتا ہے : اے مسلم ! اب تمہیں پانی نہیں مل سکتا ، جہنم میں جانے کی تیاری کرو۔
مسلم کا جسم زخموں سے چور ہے لیکن زبان کا زخم زیادہ اذیت ناک ہے ۔
وہاں موجود ایک کو رحم آگیا ، اس نے پانی کی سبیل کی لیکن مسلم نے جیسے ہی کوزۂ آب منھ سے لگایا ، پانی خون آلود ہوگیا ۔
تین مرتبہ ایسا ہی ہوا تو جناب مسلم نے پانی پینے کا ارادہ ترک کردیا ۔
ان کا امام پیاسا شہید ہونے والا تھا وہ پانی کیسے پی سکتے تھے ۔
...
یہ دار الامارہ ہے ، یہاں سے دست و پا باندھ کر مسلم کو نیچے گرایا جائے گا ۔
بڑا دردناک منظر ہے ، دار الامارہ سے نیچے دیکھا ، لوگوں کا جم غفیر ہے۔
مسلم نے حیرت سے دیکھا : کل یہی لوگ میری بیعت کے لئے جمع ہوئے تھے لیکن آج میری موت کا تماشا دیکھنے کے لئے آئے ہیں ۔
یہ لوگ یہ دیکھنے کے لئے آئے ہیں کہ مسلم کا انجام کیاہوا ۔
اے کوفیو! یہ کیسی وفاداری ہے ؛
ایسی وفاداری نہ دیکھی نہ سنی ۔
مسلم نے دار الامارہ پر نماز پڑھی اور کھڑے ہوکر مکہ کا رخ کیا : السلام علیک یا ابا عبداللہ ۔
آہ ! عرفہ کا دن ہے ، ادھر صحرائے عرفات میں دعا و مناجات کا ہمہمہ ہے ۔
لیکن یہاں دار الامارہ کے نیچے لوگوں کا شور و غل ؛
اور مسلم دار الامارہ پر کھڑے ہیں ؛ ان کی آنکھوں میں آنسو کے قطرے ہیں ؛
اے مسلم! کیا آپ موت سے خوفزدہ ہیں ؟
نہیں، وہ اپنے آقا و مولا امام حسین ؑ کے لئے رو رہے ہیں، میں نے ان کو کوفہ آنے کے لئے خط لکھا ہے ۔
اگر میرا مولا ان بے وفا کوفیوں کے درمیان آگیا تو قیامت آجائے گی ۔
خدایا ! میرے مولا کی خیر ہو۔
لیجئے قیامت آگئی ، سفیر ولایت کو دار الامارہ کی بلندی سے نیچے گرا دیا گیا ۔
نائب امام اوندھے منھ زمین پر گرا اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔
جلّاد آگے آیا اور اس نے ظلم بالائے ظلم کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفیر امام کے سر و تن میں جدائی کردی ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
سلام ہو آپ پر اے مسلم !
آپ نے اپنی پوری زندگی اپنے امام کی اطاعت میں گزار دی ۔
مسلم ! آپ کے جذبۂ ایثار پر ہماری جانیں قربان ،
آپ کی زندگی سے ہمیں عظیم درس ملا ،
آپ نائب امام تھے لیکن آپ کی بیعت کرنے والوں سے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بڑا عبرت ناک ہے
اس عبرت ناک سلوک نے ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے ۔
وہ ہمارے ذہن و ضمیر کو ٹہوکا دے رہا ہے کہ جس طرح کوفہ والوں نے اپنے نائب امام کے ساتھ برتاؤ کیا ،
کہیں ہم بھی ویسا برتاؤ اپنے زمانے کے نائب امام کے ساتھ نہ کریں ۔
یہ درس عبرت ہے ہر عہد کے لئے کہ اپنے نائب امام کے احکامات کے آگے سرتسلیم خم رکھنا چاہئے ۔
اسے حالات کے تھپیڑوں میں تنہا اور اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے ۔
اے مسلم ! ہم آپ سے عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے نائب امام کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور آخری دم تک اپنے عہد پر قائم رہیں گے۔