۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا علی ہاشم عابدی

حوزہ/حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی یہ عظمت و فضیلت ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو اپنی اخوت و اعتماد کی سند دیتے ہوئے اپنا سفیر اور نمایندہ بنا کر کوفہ بھیجا۔ انکی بیعت و اطاعت کو اپنی بیعت و اطاعت اور انکی نافرمانی کو اپنی یعنی خدا و رسول کی نافرمانی فرمایا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق لکھنو میں مومنین پیر بخارہ کی جانب سے حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی شب شہادت زوم ایپ پر آن لائن مجلس عزا کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی یہ عظمت و فضیلت ہے کہ حجت خدا سرکار سیدالشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے آپ کی اہلیت و لیاقت کے سبب آپ کو اپنی اخوت و اعتماد کی سند دیتے ہوئے اپنا سفیر اور نمایندہ بنا کر کوفہ بھیجا۔ انکی بیعت و اطاعت کو اپنی بیعت و اطاعت اور انکی نافرمانی کو اپنی یعنی خدا و رسول کی نافرمانی فرمایا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ وارث انبیاء نفس مطمئنہ کے اطمینان حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام تھے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے آپ سے فرمایا کہ "جب کوفہ پہنچنا تو جس پر سب سے زیادہ بھروسہ ہو اس کے گھر قیام کرنا، لوگوں کو میری طرف دعوت دینا اور جیسے بھی حالات ہوں مجھے مطلع کرنا۔" مسلم بن عقیل علیہ السلام جو امام حسین علیہ السلام کے چچیرے بھائی تھے انکو آپ نے اسی طرح بھای کہا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے مولا علی علیہ السلام کو اپنا بھائی کہا تھا اور آپ نے کوفہ پہنچ کر قیام کے لئے جناب مختار کے گھر کا انتخاب فرمایا تا کہ رہتی دنیا کے لئے واضح ہو جائے کہ نمایندہ حسین علیہ السلام کو کوفہ میں جس پر سب سے زیادہ بھروسہ تھا وہ جناب مختار تھے۔

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے کہا کہ ایمان، عمل صالح، شجاعت و بصیرت اور خواہشات دنیا سے بے رغبتی کے ذریعہ ہی انسان معصوم امام سے قریب ہوتا ہے۔ جس طرح حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں۔ اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ، الْمُطيعُ للَّهِ‏ِ وَلِرَسُولِهِ وَلِاَميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمُ السَّلامُ۔ اسی طرح یہی جملے حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی زیارت میں بھی ہیں یعنی "آپ پر سلام ہو اے بندہ صالح۔ آپ اللہ، رسول، امیرالمومنین، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کے اطاعت گذار ہیں۔" میدان صفین ہو یا کوفہ دونوں جگہ جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی شجاعت تاریخ کا جلی باب ہے۔ اور جس طرح آپ اس جہاد اصغر کے غازی تھے اسی طرح جہاد اکبر کا میدان بھی آپ نے سر فرمایا۔ آپ امام حسین علیہ السلام کے نمایندہ تھے رقوم شرعی آپ کے پاس تھی اس کے باوجود وصیت فرمائی کہ میں 700 درہم کا مقروض ہوں میری تلوار بیچ کر قرض ادا کیا جائے۔ یا جب ابن زیاد جناب ہانی کے گھر آیا تو جناب ہانی نے فرمایا آپ چھپ جائیں اور جیسے ہی میں اشارہ کروں آپ اسے اچانک قتل کر دیں۔ لیکن جناب ہانی کے بار بار اشارہ کرنے کے باوجود آپ نے چھپ کر وار نہیں کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی حدیث بیان کی کہ ایمان دہشت گردی سے روکتا ہے اور مومن کبھی دہشت گرد نہیں ہوتا۔

مولانا عابدی نے حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی کوفہ میں آخری میزبان جناب طوعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کتب تاریخ کے مطابق جناب طوعہ اشعث بن قیس کی کنیز تھیں۔ جب اس نے آزاد کیا تو اسید بن مالک حضرمی سے شادی کی جس سے بلال نامی لڑکا پیدا ہوا۔ اشعث امیرالمومنین علیہ السلام کے قتل میں شریک، اسکی بیٹی جعدہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی قاتل، بیٹا محمد بن اشعث جناب مسلم کا قاتل، خود جناب طوعہ کا بیٹا بلال جناب مسلم کے قتل میں شریک، شوہر اسید حضرمی کربلا میں عمر بن سعد کے لشکر میں تھا حضرت عبداللہ بن مسلم کو کربلا میں شہید کیا اور بعد شہادت امام حسین علیہ السلام یہ ان دس ملعونوں میں سے تھا جنھوں نے لاش حسین علیہ السلام پر گھوڑے دوڑائے لیکن اللہ رے عظمت و فضیلت جناب طوعہ کہ ان تمام تمام فرعونیوں کے درمیان آسیہ کردار نبھایا اور حجت الہی امام حسین علیہ السلام کے سفیر کی میزبانی کا شرف حاصل کیا۔ ان کا حُسن عمل رہتی دنیا کے لئے قابل تاسی ہے کہ چاہے جس ماحول میں رہو کبھی حق سے روگردانی نہ کرنا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .