۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
الرمح المصقول فی نحور اعداء آل الرسول

حوزہ/کاش لطیف زنگی پوری، عزیز لکھنوی، مولانا مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی،مولانا مجتبیٰ حسن کامنپوری اور پروفیسر بدرالحسن فیض آبادی یہ اور اس طرح کے سینکڑوں منابع میں سے چند ہی منابع کو دیکھ لیے ہوتے تو راہِ تحقیق میں ان لوگوں کو اتنی زیادہ ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجدد مذہب امامیہ آیت اللہ العظمیٰ حضرت دلدار علی غفرانمآب علیہ الرحمہ مکتب کلام و فقہ کے ہندوستان میں مؤسس رہے ہیں جنکے علمی آثار و منابع کی تحقیق و تبیین بہت ہی ضروری ہے تاکہ ایک زمانے میں مرجعِ عالم رہے اس مکتب کے کارهای نمایاں سے آنے والی نسلیں شاداب و سیراب رہیں، کیونکہ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب انہیں علماء کی بدولت نجف کے بعد لکھنؤ کو علمی مرکزیت حاصل تھی۔

واضح رہے کہ ماحیٔ بدعات،چاووش وحدت، عظیم مجاہد، محقق عالی قدر، مبلّغ شجاع، خدمتگزار دين مبين مجدد شریعت محیئ ملت آیت اللہ العظمیٰ حضرت دلدار علی غفرانمآب علیہ الرحمہ کا نام نامی علماء و فقہاء کے درمیان سورج کی طرح تابندہ ہے، وہ نجف، قم اور مشہد کی جانب ہجرت کرنے والے پہلے ہندوستانی عالم  ہیں جو فقہ و اصول کی اعلیٰ تعلیم کے لیے درِ باب العلم تک پہنچے، جنہوں نے مکتب کلام و فقہ لکھنؤ کی بنیاد ڈالی جنکے شاگردوں میں صاحب عبقات کے والد ماجد کا بھی نام ہے۔ انہوں نے متعدد مدرسے قائم کیے، متعدد حسینیہ اور مساجد تعمیر کیں، اور لوگوں کے لئے بہت سارے ثقافتی اور فلاحی کارنامے انجام دیئے۔ موصوف نے آصف الدولہ اور دیگر اعیان حکومت کو غیر دینی امور سے باز رکھا، اور آپ کے وجود کی برکت سے معجزاتی کام تخلیق ہوئے۔

اطلاعات کے مطابق کتاب کا مکمل نام کچھ اس طرح ہے: الرمح المصقول فی نحور اعداء آل الرسول / ملقب به (القوامع لاصول القواذع) و (السیف اللسانی لقتل اللنجانی)۔

اس کتاب کے مصنف جامع معقول و منقول، حاوی فروع و اصول، منبع صلاح و سداد، العالم العامل، زبدة المحققین،اسوة المدققین،الفاضل الاوحد الامجد، السید محمد بن سید عبدالعلی فیض آبادی ہیں، آپکا شمار غفرانمآب(رح) کے تلامذه میں ہوتا ہے جیسا کہ سید مہدی رضوی عظیم آبادی نے تذکرة العلماء میں تحریر فرمایا ہے اور عبد الحیّ حسنی ندوی نے آپکو فقهائے امامیه میں سے قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:«الشیخ الفاضل محمد بن عبد العلی الحسینی الشیعی الفیض آبادی؛احد الفقهاء الامامیه، قرأ العلم علی والده و علی السید دلدار علی بن (محمد) معین الحسینی النصیر آبادی، ثم قام مقام والده فی الخطابة و الامامة بفیض آباد....» یہی باتیں تکملۂ نجوم السماء میں بھی مذکور ہیں۔

اس سلسلے میں مزید تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے محقق و مدقق، مدیر ماہنامہ شعاع عمل سید مصطفی حسین نقوی اسیف جائسی نے کہا،یہ کتاب غفرانمآب علیہ الرحمہ کے شاگرد اور فیض آباد کے پہلے امام جمعہ مولانا سید عبدالعلی دیوکھٹوی کے فرزند اور غفرانمآب علیہ الرحمہ کے لائق فخر شاگرد آیت اللہ علامہ سید محمد امام جمعۂ دوم فیض آباد اور مدرسۂ سلطانیہ فیض آباد کے مدرس اعلیٰ کی لکھی ہوئی ہے اس کتاب میں  لکھا ہے کہ ۱۲سو ہجری سے پہلے شیعوں کا کچھ بھی نہیں تھا سب غفرانمآب علیہ الرحمہ کے ذریعے ۱۲سو ہجری کے بعد ہوا شیعوں کو غفران مآب علیہ الرحمہ نے قومیت عطا کرکے ان کی ساری عبادتوں اور اعمال کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیہم السلام کے طریقے پر جاری کیا، چونکہ یہ کتاب ۱۲۳۵ میں پوری ہوئی ہے اس لیے وہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں شیعوں کا جو کچھ ہے وہ 35 سال میں ہوا اس میں جمعہ و اعیاد کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔

انہوں نے کہا،یہ کتاب آئینۂ حق نما کی حمایت میں لکھی گئی ہے جو غفران مآب علیہ الرحمہ کا تذکرہ اور ان کے عہد کی شیعہ تاریخ بلکہ ہندوستان کی ہمیشہ ہی کی شیعہ تاریخ ہے۔

انہوں نے محققین سے گزارش کرتے ہوئے کہا،علماء و محققین اس کتاب کو اور آئینۂ حق نما، احکام عدالت علویہ،ورثۃ الانبیاء،تذکرة علماء المحققین، مطارق،اوراق الذهب اور نجوم السماء کو برصغیر کی شیعہ تاریخ جاننے کے لیے ضرور پڑھیں۔

عصر حاضر میں ہندوستان کی شیعہ تاریخ پر عمیق نظر رکھنے والے اس محقق نے کہا،مولانا احمد علی عابدی صاحب امام جمعہ ممبئی ابن مولانا سید ابن حسن صاحب پیشنمازِ فیض آباد کے جدّامجد، ضلع غازی پور، ضلع بنارس، اور ضلع فیض آباد کی تاریخ کے سب سے بڑے شیعہ عالم ،متکلم، فلسفی، اور فقیہ یعنی مجدد الشریعہ حضرت غفران مآب علیہ الرحمہ کے شاگردِ رشید آیت اللہ علامہ سید محمد، امامِ دوّمِ جمعۂ فیض آباد ابن مولانا سید عبد العلی دیوکھٹوی امامِ اوّلِ جمعۂ فیض آباد تلمیذِ حضرت غفرانمآب علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الرمح المصقول میں ۲۰۵ سال پہلے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے ہندوستان میں آنے کے ۸۰۰ سال گزرنے کے بعد ۱۲۰۰ ہجری ہی میں شیعہ قوم کا تشخص ہمارے استاد غفرانمآب علیہ الرحمہ نے قائم کیا اور اس ۸۰۰ سال میں دیگر عبادات و اعمال کی طرح شیعوں کی نماز جمعہ بھی پہلی بار ہمارے استاد ہی نے قائم کی۔

اس ضمن میں انہوں نے کتاب کے صفحات کو بدقت پڑھنے کی دعوت دیتے ہوئے ذکر کیا،آپ حضرات کتاب میں موجود ان صفحات کا ضرور مطالعہ فرمائیں تاکہ پس پرده ڈالی جانے والی چند ایک باتیں بالکل روشن اور واضح ہوجائیں جو کہ بس ۳۶ صفحات کی صورت میں ہیں:11,48,80,81, 100,101,110,111,116,117,118,142,143,144,153,154, 212,213,214,257,258,260,261,262,263۔

انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ،یہ کتاب پوری بغور پڑھنے والی ہے لیکن مذکوره صفحات اس بات کو لیکر بہت اہم ہیں کہ کاش لطیف زنگی پوری، عزیز لکھنوی، مولانا مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی،مولانا مجتبیٰ حسن کامنپوری اور پروفیسر بدرالحسن فیض آبادی یہ اور اس طرح کے سینکڑوں منابع میں سے چند ہی منابع کو دیکھ لیے ہوتے تو راہِ تحقیق میں ان لوگوں کو اتنی زیادہ ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں۔

اس کتاب کو ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے یہاں کلیک کریں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • فیضی IN 10:14 - 2021/08/06
    0 0
    سلام صاحب تحریر کی خدمت میں بس اتنا کہنا ہے: آپ نے آخر میں تحریر فرمایا: کاش لطیف زنگی پوری، عزیز لکھنوی، مولانا مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی،مولانا مجتبیٰ حسن کامنپوری اور پروفیسر بدرالحسن فیض آبادی یہ اور اس طرح کے سینکڑوں منابع میں سے چند ہی منابع کو دیکھ لیے ہوتے تو راہِ تحقیق میں ان لوگوں کو اتنی زیادہ ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں۔ اس کے لکھنے کا کوئی بائدہ نہیں ہے جو کام یہ نہ کر سکے وہ آپ عملا کر ڈالیے۔