۱۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۷ شوال ۱۴۴۵ | May 6, 2024
غفران مآب

حوزہ/ حضرت آیۃ اللہ العظمی علامہ سید دلدار علی نقوی غفران مآب کے لقب سے مشہور، برصغیر کے معروف شیعہ عالم، مجتہد، فقیہ اور متکلم ہیں۔ آپ کا شمار پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں ہوتا ہے اسی لئے آپ کو ہندوستان میں مجدّد الشریعہ کا لقب دیا گیا۔

سوانح حیات

حوزہ نیوز ایجنسیسید دلدار علی نقوی (1166_1235 ھ) غفران مآب کے لقب سے مشہور، برصغیر کے معروف شیعہ عالم، مجتہد، فقیہ اور متکلم ہیں۔ آپ کا شمار پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں ہوتا ہے اسی لئے آپ کو ہندوستان میں مجدّد الشریعہ کا لقب دیا گیا۔ ہندوستان کے علما میں اخباریوں کے مقابلے میں آپ پیش پیش تھے اور اسی وجہ سے آپ کو برصغیر میں اصولی مکتب کا بانی اور مؤسس بھی سمجھا جاتا ہے۔ دینی علوم کے حصول میں آپ نے عراق اور ایران کا بھی سفر کیا۔ آپ کو برصغیر میں سب سے پہلے نماز جمعہ قائم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مختلف علوم میں آپ کی کئی تالیفات بھی ہیں جن میں منتہی الافکار، مسکن القلوب، حسام الاسلام، دعائم الاسلام، آثارۃ الاحزان و شہاب ثاقب زیادہ اہم تصنیفات ہیں۔

ولادت و نسب

آیت اللہ سید دلدار علی نقوی ولد محمد معین نقوی سنہ 1166 ھ میں لکھنؤ سے قریب واقع قصبہ نصیر آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخ ولادت معین تو نہیں لیکن کتاب ورثۃ الانبیاء میں دی گئی تصویر کے مطابق تاریخ ولادت 17 ربیع الثانی 1166 ھ ہے۔آپ کے والد بھی ہندوستان کے معروف علما میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کا نسب 22 واسطوں سے امام علی النقیؑ سے ملتا ہے۔ تاریخ لکھنؤ کے مطابق سید دلدار علی کو 1235ھ میں ان کی وفات کے بعد امجد علی شاہ نے غفران مآب کہنا اور لکھنا شروع کیا اس وقت سے وہ غفران مآب کے نام سے مشہور ہوئے۔[7] آپ کے اجداد میں سے نجم الدین پہلے شخص ہیں جو ایران کے شہر سبزوار سے سلطان محمود غزنوی کے سپہ سالار مسعود غازی کی مدد کیلئے ہندوستان آئے اور لکھنؤ سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر جای عیش نامی جگہ کو اپنا مسکن قرار دیا جو بعد جایس کے نام سے مشہور ہو گئی۔ آپ کے اجداد میں سے سید زکریا نے تباک پور یا پتاک پور کو اپنے قبضے میں لیا اور اس کا نام اپنے جد نصیر الدین کے نام سے نصیر آباد رکھ دیا۔

اولاد

آپ کے پانچ فرزندوں کے اسما درج ذیل ہیں:

سلطان العلما سید محمد نقوی (1199-1284ھ): آپ کا شمار ہندوستان کے مشہور شیعہ علما میں ہوتا ہے۔ آپ مسلّم مجتہد اصولی فقیہ اور متکلم حکیم تھے۔ اور 19 سال کی عمر میں اجتہاد پر فائز ہوئے۔ اور مختلف کتابوں کے مصنف تھے جن میں سے احياء الاجتہاد، بضاعۃ مزجاۃ، گوہر شاہوار (اصول و فقہ) و مناقب ائمہ اطہارؑ اہم تصنیفات ہیں۔ آپ نے سنہ 1284 ھ کو لکھنو میں 85 سال کی عمر میں وفات پائی۔

سید علی (1200۔1259 ھ): آپ اپنے زمانے کے منفرد قاری تھے تجوید اور سید الشہداء کے مرثیوں پر مشتمل آپ کے آثار ہیں۔ 1259 ھ میں کربلا میں وفات پائی۔

سید حسن (1205-1273ھ): آپ کا شمار لکھنو کے علما میں ہوتا ہے۔ آپ کی متعدد تالیفات میں سے باقيات الصالحات، تذکرۃ الشيوخ، تحرير اقلديس جیسی کتابیں قابل ذکر ہیں۔ آپ نے 1273 ھ میں ہندوستان میں وفات پائی۔

سید مہدی: سید دلدار علی کی زندگی میں ہی 23 سال کی عمر میں وفات پائی۔

سید العلماء سید حسین علیین (1211-1273 ھ) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ فقیہ، مفسر اور محدث تھے اور سترہ سال کی عمر میں اجتہاد کے درجہ پر فائز ہوگئے تھے۔

بشکریہ: ulamaehind.in

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .