۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
حضرت غفرانمآب

حوزہ/ حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے، ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| حضرت غفران مآبؒ۱۱۶۶ھ کو شب جمعہ خطۂ اودھ کی مردم خیز بستی نصیرآباد میں متولد ہوئے، بزرگوں کا آبائی مشغلہ کھیتی باڑی تھا، حضرت غفران مآبؒ بھی زراعت میں دلچسپی رکھتےتھے اور کھیتوں سے رزق حلال کسب کرتے تھے، ایک دن وہ اپنے کھیت میں کام کررہے تھے اسی وقت انہوں نے ایک صدائے غیب سنی ’’ دلدار علی گھر سے نکلو اور علم دین حاصل کرو‘‘ ۔ اس آواز کا اتنا اثر ان کے دل پر ہواکہ انہوں نے فوراً لکھنؤ کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔

لکھنؤ آکر علمائے فرنگی محل کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ۔یہ وہ عہد تھاکہ جب شیعہ و سنّی ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے ۔ شیعوں کا اپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا ۔ حضرت غفران مآبؒ سے پہلے جو مدرسے ہندوستان میںسر گرم تھے ان میں اہل سنت و الجماعت علما تدریس فرماتے تھے۔ بعض شیعہ علما نے حالت تقیہ میں ان مدارس میں تدریس کی لیکن شیعوں کااپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا جہاں ان کی فقہ پڑھائی جاتی ہو۔اکثر شیعہ علماء اپنے گھروں پریا بادشاہوں کے محلوں اور رئیسوں کی ڈیوڑھیوں میں پڑھایا کرتے تھے ۔

دکن میں میر فتح اللہ شیرازی جیساعظیم عالم اور سائنس داں علی عادل شاہ کا اتالیق مقرر کیا گیا ،جن کی تعلیم و تربیت نے دکن میں انقلاب برپا کیا۔اسی طرح شیخ مبارک کا مدرسہ عہد اکبری میں خاصا گرم رہا ۔اس مدرسے کے پروردہ شیخ فیضی اور ابوالفضل جیسے دانشور تھے ۔اس کے بعد شیخ فیضی اور ابوالفضل نے امراء و روساء کے بچوں کی تربیت کی ،جس کے شواہد اس عہد کی تاریخ میں جابہ جا موجود ہیں ۔یہ تمام لوگ اپنے عہد میں تقیہ میں تھے اور برملا اپنے عقائد کا اظہار نہیں کرتے تھے۔اس بناپر یہ دعویٰ درست ہےکہ حضرت غفران مآب سے پہلے کسی شیعہ مدرسے کی بنیاد نہیں رکھی گئی ۔ ایسا مدرسہ جس میں معارف آل محمد کی تعلیم دی جاتی ہو۔ان سے پہلے درسی کتب میں بھی عمومیت تھی لہذا انہوں نے امامیہ عقاید و تعلیمات پر مبنی اپنا الگ نصاب ترتیب دیا ۔

حضرت غفران مآب کے تبحر علمی اور مروجہ علوم میں ان کی مہارت پر اس وقت کے مشہورعالم اور فلسفی مولانا عبدالحیٔ فرنگی محلی نے کہا تھاکہ ’’ جب میں جناب غفران مآب کے حاشیہ صدرا کو دیکھتا ہوں تو متاخرین فلاسفہ پر ان کو ترجیح دیتاہوں‘‘۔(معراج العقول۔سید مرتضیٰ فلسفی ) ان کا یہ مقولہ حضرت غفران مآب کے عراق اور ایران جانے سے پہلے کاہے ،اس تناظر میں حضرت غفران مآب کی علمی و فلسفیانہ لیاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

تکمیل علم کےبعد انہوں نے نہ صرف لکھنؤ کو اپنا تعلمی و تبلیغی مرکز قرار دیا بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کا سفر بھی کیا ۔ترویج شیعیت کے لئے یہ اسفار نہایت اہم تھے ۔ سفر کے دوران انہوں نے مختلف اخباری اور سنّی علماء سے مناظرے و مباحثے کئے ۔ ہندوستان میں اس وقت اخباریت اپنے عروج پر تھی ،جس کا حضرت غفران مآبؒ نے قلع قمع کیا ۔اسی طرح تصوف کے خلاف بھی علمی و فکری محاذ آرائی کی ۔اخباریت اور تصوف کے رواج کی بنیاد پر شیعیت کی اپنی الگ کوئی شناخت نہیں تھی ۔بلکہ یوں کہاجائے کہ شیعیت صوفیت کے لبادے میں لپٹی ہوئی تھی ۔عزاداری اور دیگر عقاید و احکامات تصوف کے سلسلے کے زیر اثر انجام پذیر ہوتے تھے ۔لکھنؤ تو خاص کر تصوف کا مرکز تھا ۔بلاتفریق نذرونیاز میں شیخ سدّو کا بکرا،احمد کبیر کی گائے،شیخ فرید کی شیرینی،اور اس طرح کی رسومات عام تھیں۔انہوں نےان کی جگہ عمل گوسفند،حضرت عباس کی حاضری،علم و تعزیے بنام شہدائے کربلا جاری کروائے ۔نماز جمعہ اور جماعت کو اخباریت کے زیر اثر حرام تصور کرلیاگیاتھا ۔

یہ دور نہایت کشمکش اور فکری تذبذب کاتھا جس میں حضرت غفران مآبؒ نے امامیہ عقائد کی تبلیغ و ترویج کا بیڑا اٹھایا ۔نوابین اودھ بھی تصوف کے مشرب پر عمل پیراتھے ۔شیعی عقائداور معارف اہلبیتؑ کی تدریس و تبلیغ کے لئے کوئی علمی مرکز موجود نہیں تھا ۔اس لئے حضرت غفران مآب نے نوابین اودھ سے بھی رابطہ قائم کیا ۔نواب آصف الدولہ اور نواب حسن رضاخاں جیسے افراد نے انہیں تبلیغ کی آزادی فراہم کی ۔

اس وقت عیدین اور جمعہ کی نمازیں اہل سنت پڑھاتے تھے ۔شیعوں کی بحیثیت قوم کوئی پہچان نہیں تھی ۔سنّی مفتی اور قاضی نکاح ،طلاق ،تجہیز و تکفین اور دیگر اہم امور سنّی طریقے پر انجام دیتے تھے ۔شیعوں میں پیری مریدی ،عرس ،قوالی اور صوفیانی نیرنگیاں عام تھیں ۔اپنے مسلکی امتیازات سےبے خبر دوسروں کے مسلکی امتیازات پر عمل ہورہا تھا ۔تعزیہ داری عام تھی لیکن اس میں بھی اصلاح کی گنجائش تھی ۔اس وقت حضرت غفران مآبؒ نے پہلا کام یہ کیا کہ شیعی عقائد کی تعلیم و تدریس کے لئے مدرسےکی بنیاد رکھی ۔ابتدا میں انہوں نے خود اس مدرسے میں درس دیا ۔رفتہ رفتہ شاگردوں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی جس میں ان کے بیٹے سیدالعلما سید حسین اور سلطان العلماء سید محمد جیسے زبردست علماء شامل تھے ۔

حضرت غفران مآب کو ہندوستان میں تبلیغ کے لئے شاگردوں کی فوج کی ضرورت تھی ،اس لئے انہوں نے اپنی زیادہ تر توجہ شاگرد سازی پر مرکوز کی ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ۱۲۰۰ ھ کے بعد جتنے علماء نظر آتے ہیں وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ حضرت غفران مآبؒ کے شاگرد ہوتے ہیں ۔

نواب حسن رضا خاں ایک خدا ترس اور دین دار آدمی تھے ۔انہوں نے حضرت غفران مآب کو تبلیغ دین میں سہولیتں فراہم کیں اور نوابین اودھ کے مزاج کو بھی حضرت غفران مآبؒ کے لئے سازگار بنایا۔نواب حسن رضا خاں نے ہی انہیں نجف اشرف جانے میں مدد دی ۔نجف اشرف پہونچ کر شہر علم کے دروازے پر جبیں سائی کی ۔ اس وقت کے جید علماء سے کسب فیض کیا ۔علامہ سید مہدی طباطبائی ،علامہ باقر بہبہانی کےدروس میں شرکت کی ۔انتہائی محنت و ذکاوت کے ساتھ پانچ برسوں میں فقہ و اصول کا دورہ مکمل کیا ۔نجف اشرف میں ہی انہوں نے امیرالمومنین ؑکے حرم میں خداسے دعاکی تھی کہ پروردگار میری نسل سے قیامت تک علم دین نہ جائے ‘‘ اس کا تذکرہ علامہ کنتوری نے اپنی کتاب میں تفصیل سے کیاہے ۔(تاریخ العلماء ص۱۵۰)نجف اشرف میں پایۂ اجتہاد کو پہونچےاور پھر ایران کے سفر پر کمر باندھ لی ۔

ایران میں بھی کچھ مدت تک کسب فیض کیا ۔اس کے بعد ہندوستان واپس لوٹ آئے ۔اس سفر کی ایک خاص بات یہ رہی کہ انہوں نےنجف اور ایران سے اہم اور بنیادی کتابیں حاصل کیں ۔اس کے بعد بھی حضرت غفران مآب نے بذات خود اور نوابوں کی مدد سے عراق و ایران سے کتابیں لکھنؤ منگوائیں اور ایک اہم کتب خانہ تیارکیا ،جس کے آثاروبرکات آج تک باقی ہیں۔

تصنیفات:
حضرت غفران مآبؒ کو درس و تدریس کے ساتھ تصنیف پر بھی ملکہ حاصل تھا ۔علم کلام میں مرأۃ العقول فی علم الاصول جیسی معرکۃ الآرا کتاب لکھی جو علم کلام کی دنیا میں عمادالاسلام کے نام سے آج بھی اپنی الگ شہرت رکھتی ہے۔یہ کتاب علامہ فخرالدین رازی کی کتاب’’ نہایۃ العقول فی درایۃ الاصول‘‘ کی رد میں لکھی گئی ۔اس کی پہلی جلد میں الہیات کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے یونانی حکماء،ہندوستانی فلاسفہ اور عالم اسلام کی بزرگ شخصیات کے اقوال کے ردو ابطال میں جو معرکے دکھلائے ہیں ،ان کو صاحبان علم وادب نے کشادہ ظرفی کے ساتھ تسلیم کیاہے ۔صاحب جواہر الکلام شیخ الفقہا شیخ محمد حسن نجفی نوراللہ مرقدہ نے اس کتاب کی عظمت کا اقرارکرتے ہوئے حضرت غفران مآبؒ کے تبحر علمی اور اسلوبیاتی انفرادیت کو تسلیم کیاہے ۔

تصوف کی رد میں ’شہاب ثاقب‘ جیسی کتاب تحریر کی جس میں تصوف کے نظریات کو علمی انداز میں مسترد کیا ۔اس کتاب کے ذریعہ تشیع کو صوفیت رنگ سے نجات ملی اور شیعہ معاشرہ سے متصوفانہ رسومات اور نمودونمائش کا خاتمہ ہوا۔ تصوف کے ساتھ شیعہ سماج میں اخباریت کا بول بالاتھا ۔شیعہ علمااخباری نظریات کے پیرو تھے اور نماز جمعہ و جماعت کی صریحی مخالفت کرتے تھے ۔اسی بناپر شیعہ مساجد میں نماز باجماعت نہیں ہوتی تھی ۔

غیبت امام میں نماز جمعہ کی حرمت کا فتویٰ دیدیا گیا تھا،لہذا اخباریت کی رد میں آپ نے ’اساس الاصول‘ لکھی ۔اس کتاب پر صاحب ریاض اور علامہ سید بحرالعلوم نے تقریظ لکھی۔تصوف اور اخباریت کی رد میں کتابوں کے عام ہوتےہی لوگ جوق در جوق اصل شیعیت کی طرف راغب ہونے لگے ۔اس وقت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے محسوس کیاکہ سنیوں میں گھرکے گھرشیعہ ہورہے ہیں لہذا انہوں نے شیعی عقائد اور تعلیمات کی رد میں ’’تحفۂ اثناعشریہ ‘‘ تحریر کی،جس نے اس تحریک کو کمزور کرنے کا کام کیا ۔ادھر علامہ تفصل حسین خان علامہ نے عمادالاسلام پر کچھ اعتراضات وارد کئے۔دونوں صاحبوں کے نظریات کی رد میں کتابوں اور رسالوں کے انبار لگ گئے ۔تحفۂ اثناعشریہ کی رد میں جو کتابیں لکھی گئیں ،اس میں حضرت غفران مآب اور ان کے شاگردوں نے اپنے علمی و فکری جولانیاں دکھلائیں ۔خود حضرت غفران مآب نے باب الہیات کا جواب ’’صوارم الہیات ‘ کی شکل میں دیا ،جس کے مطالب اور اسلوب پر تحقیق کی ضرورت ہے۔باب نبوت کا جواب ’’حسام الاسلام ‘‘ لکھ کر دیا ۔اسی طرح باب امامت کی رد میں تتمہ صوارم الہیات تحریر کی۔باب تولااور تبرا کی رد میں ’’ذوالفقار‘ کے ذریعہ حملہ ور ہوئے ۔معاد اور جعت کے مباحث کا جواب ’’احیاء السنہ‘‘ کے ذریعہ دیا۔

ان کے علاوہ شرح حدیقۃ المتّقیین،رسالۂ غیبت،رسالہ نماز جمعہ اور متعدد کتابیں آپ کے قلم سے نکلیں ۔میرزا قمی کی کتاب قوانین کے بعض مطالب کے رد میں آپ نے’’ منتہی الافکار فی اصول الفقہ ‘‘ عربی میں تالیف کی۔

شیعہ قومیت کی تشکیل
اس وقت ہندوستان میں شیعوں کی بحیثیت قوم کے کوئی پہچان نہیں تھی ۔کوئی علمی و تبلیغی مرکز قائم نہیں تھا ۔اس لئے آپ نے مدرسہ کی بنیاد رکھی جہاں معارف اہلبیتؑ کی تدریس و تبلیغ شروع ہوئی ۔ساتھ شیعوں کے لئے الگ قبرستان قائم کیا جس کے بعد متعدد الگ قبرستان شیعوں کے لئے وقف کئے گئے ۔یہی وہ عہد تھاکہ جب نواب حسن رضاخاں کی مدد سے حضرت غفران مآب نے شیعوں کی نماز جماعت قائم کی ۔

۱۳ رجب المرجب ۱۲۰۰ھ کو نواب حسن رضا خاں کی کوٹھی میں نماز جماعت شروع ہوئی ،جس میں مع نواب صاحب کے چند افراد موجود تھے ۔اس کے بعد ۲۷ رجب کو جمعہ کی نماز بھی شروع کردی اور اس کی ترویج کے لئے نہایت جدوجہد کی ۔اخباریت کی رد کے ساتھ نماز جمعہ کے وجوب پر رسالہ تحریر کیا تاکہ فتنوں کی سرکوبی کردی جائے۔رفتہ رفتہ نماز جمعہ میں لوگوں کا ہجوم امڈنے لگا۔اس وقت آپ نے موعظہ کی ابتداکی ۔ان موعظوں کا یہ اثرہواکہ نوابوں کے ساتھ ساتھ بہتوں نے غیر شرعی حرکات سے اجتناب شروع کیا ۔خاص طورپر لکھنؤ میں افیون اور دیگر نشے عام تھے ۔حضرت غفران مآبؒ کی تحریک کے بعد نشے کی لت پر روک لگی ۔اس کے باوجود بعض افیونی رہ رہ کے نشے کے جوازپر اصرارکرتے رہے ۔طرح طرح کے بہانے تراشے گئے لیکن حضرت غفران مآب ،ان کے بیٹوں اور شاگردوں نے کبھی نشے کی حلیت کا حکم نہیں دیا ۔ اور نہ مصلحت کا شکار ہوکر اُمراءاور رئیسوں سے مرعوب ہوئے ۔علامہ کنتوری کے بقول:’’انہوں نے بھنگ نوشی کے چبوتروں پر سجّادے بچھوادیے ‘‘۔

اس تحریک کا نتیجہ یہ ہواکہ نوابین اودھ شریعت کےاس قدر پابند ہوئے کہ سلطان العلماء سید محمد کے عہد میں نواب امجد علی شاہ نے اپنا تاج ان کے قدموں پر رکھ دیا ۔حکومت اودھ ایک فقیہ کے سپرد کردی گئی جس کا قلق آج تک مورخین کوہے ۔سلطان العلما کی عدالت تاریخ میں الگ شہرت رکھتی ہے ۔اس قدر منصفانہ رویہ اختیارکیاکہ کئی بار بادشاہ کو بھی تاوان بھگتنے کے لئے عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔(حیات رضوان مآبؒ ص ۳۹۔م)اسی بناپر بعض متعصب مورخ امجد علی شاہ کو اودھ کا کمزورترین بادشاہ قراردیتے ہیں کیونکہ وہ نہایت متشرع تھے ۔ان کے نزدیک وہ بادشاہ حکومت کا اہل ہے جو شریعت کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ظلم و جبر،ناانصافی ،شراب و شباب اور انسانی زندگی میں مداخلت کی کھلی اجازت دیدے ۔

حضرت غفران مآبؒ نے اپنی حیات میں مختلف علمی،فکری اور سماجی محاذوں پر جنگ لڑی ۔اودھ کے متصوفانہ معاشرے میں انقلاب برپا کیا ۔شریعت کو حکومتی اداروں میں رواج دیا ۔علوی نظام حکومت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جس کے لئے سلطان العلماسید محمد نے بھی تگ و دو کی ،لیکن انگریزی حکومت کے بڑھتے ہوئے عمل دخل نے اس تحریک کو بہت کامیاب نہیں ہونے دیا۔علامہ مفتی محمد قلیؒ کی کتاب’احکام عدالت علویہ‘ کا مطالعہ یہ ظاہر کرتاہے کہ کس طرح اس عہد میں علماء نے علوی نظام حکومت کو رائج کرنے کی سعی کی ۔اودھ میں جس قدر علمی و ادبی سرگرمیاں نظر آتی ہیں اس کا سہرا علماکے سربندھتاہے ۔ورنہ ۱۲۰۰ھ سے پہلے اودھ میں مرثیہ نگاری اور عزاداری کی کوئی قابل ذکر تاریخ نہیں ہے ۔

بہر کیف!آج حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے ۔ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا ،لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا ۔آج عالم یہ ہے کہ ہمارے بیشتر علمااور محققین اپنی میراث سے بے خبر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے علمی و تحقیقی امتیازات کو پیش کرنے کے بجائے احساس کمتری یا شرمندگی کا شکار ہیں ۔

ہمارے علمانے علم کلام ،فلسفہ اور دیگر علوم میں بے پناہ آثار پس انداز کئے ہیں ۔ان آثار کے احیاکے لئے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔اودھ میں موجود علمی و ادبی میراث دیگر خطوں سے زیادہ اور انفرادیت و امتیاز کی حامل ہے ،اس لئے اودھ کو فراموش کرنا گویا اپنی تاریخ کو فراموشی کے ملبے میں دفنادیناہے۔

حضرت غفران مآب نے ۱۹ رجب ۱۲۳۵ھ کو لکھنؤ میں انتقال فرمایا اور اپنے ہی امام باڑہ میں آسودۂ خاک ہوئے ۔اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے علمی فیوض و برکات کو عام کرنے کی ہم سب کو سعادت نصیب فرمائے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .