۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مدیر موسسۂ نور ہدایت فاؤنڈیشن

حوزہ/ماضی میں سلطانیہ کی زمین حکومت کو دے کر چند لوگوں نے حکومتی فائدے اٹھائے پھر ای- ڈی - ایم کو مدرسہ کا مینیجر بناکر پرنسپل کا منصب حاصل کیاگیا اور اب ایک گھر کے پرنسپل اور چند ٹیچر بنانے کے لئے دوسری بار مدرسہ کی منتقلی کی اندر اندر سازشیں کی جارہی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مدیر موسسۂ نور ہدایت فاؤنڈیشن اور ماہنامہ شعاع عمل نے اپنےبیان میں کہا،مدرسۂ سلطانیہ جو اعلمِ عالم سلطان العلماء آیۃ اللٰہ العظمیٰ سید محمد نقوی رضوان مآب ( پہلے اور آخری ولی فقیہ ہند ) کے حکم سے بنا جس کی وجہ سے اس کا نام سلطانیہ ہوا یہ سلطانیہ پہلے ۔۔۔۔ نواب سعادت علی خان کے مقبرہ ، اس کی دوسری عمارتوں اور غلام گردش میں تھا جب طلاب کی کثرت ہوگئی تو نواب واجد علی شاہ نے مدرسہ کو آصفی امامباڑہ، مسجد اور بہت سی بڑی عمارتوں کے ساتھ سیکڑوں کمروں کی غلام گردش دے دی ۔

واضح رہے کہ اس مدرسہ کی بہت سی تعلیمی شاخیں بھی لکھنؤ اور دوسرے شہروں میں قائم ہوئی تہیں جن میں فیض آباد کا مدرسہ سلطانیہ بھی اہم تھا جس کے پرنسپل آیۃ اللٰہ علامہ سید محمد عابدی امام دوم جمعۂ فیض آباد و شاگرد رشید حضرت غفران مآب تھے اس مدرسہ کے بانی سلطان العلماء سید محمد رضوان مآب ابن حضرت غفران مآب ، بادشاہ متشرع اودھ نواب امجد علی شاہ اور نواب آمین الدولہ امداد حسین بانی امین آباد صاحبان تھے۔  اس مدرسہ میں درس اجتہاد دینے والے اساتذہ میں  غفران مآب کے  چار مجتہد بیٹے ،بارہ مجتہد پوتے ، اور مکتب فقہی و کلامئ غفران مآب کے مجتہدین و قریبِ اجتہاد تلامذہ شامل تھے ۔ پہلے پرنسپل مدرسہ سلطانیہ لکھنؤ کے فخر المدرسین آیۃ اللٰہ العظمیٰ ممتاز العلماء سید محمد تقی جنت مآب ابن سید العلماء ہوئے اور پورے اودھ کے نظام تعلیم اور خاص کر سلطانیہ اور اس کی تعلیمی شاخوں کے نگران و سرپرست آیۃ اللٰہ العظمیٰ سید العلماء سید حسین علیٖین مکان ابن غفران مآب ہوئے ۔ جب 1857عیسوی میں اودھ پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا تو یہ حوزۂ علمیہ اور اس کی شاخیں سب ختم ہوگئیں ۔
جنت مآب نے کچھ برسوں کے بعد مدرسۂ ایمانیہ قائم کیا تو اپنے داماد مولانا سید ابو الحسن رضوی کشمیری کو اس کا پرنسپل بنایا ، یہ مدرسہ ممتاز العلماء جنت مآب اور زبدۃ العلماء سید علی نقی فرزندان سید العلماء کے امام باڑوں میں قائم ہوا تھا جسکی بہت سی شاخیں جنت مآب کے شاگرد علامۂ کنتوری آیۃ اللٰہ سید غلام حسنین نے رؤساء سے مل کر ان کی مالی کمک سے قائم کروائیں جن میں اب صرف دو مدرسہ بچے ہیں۔
1- مدرسۂ ایمانیہ بنارس
2- مدرسۂ ایمانیہ ناصریہ جونپور ۔۔۔ 
اس مدرسہ میں ناصریہ کی لفظ جونپور کے ایک بڑے عالم جنت مآب کے شاگرد رشید آیۃ اللٰہ سید ناصر حسین مصنف کتب کثیرہ کی رحلت کے بعد بڑھائی گئی ہے جنت مآب کے بعد ان کے فرزند ارجمند اور سید العلماء آیۃ اللٰہ العظمیٰ سید علی نقی نقوی نقن صاحب کے دادا یعنی سید العلماء آیۃ اللٰہ العظمیٰ سید محمد ابراہیم صاحب فردوس مکان نے پوری قوم کو لے کر پوری طاقت کے ساتھ سر سے کفن باندھ کر آصفی مسجد اور امامباڑہ کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لئے نکل پڑے نتیجے میں مسجد ، امامباڑہ اور ٹیلہ والی مسجد بھی قوم کے ہاتھ آئی اب نمازیں اور عزاداری شروع ہوگئیں اور آصفی امامباڑہ کی عمارتوں میں مدرسۂ سلطانیہ بھی جاری کردیا  یعنی سلطانیہ کے محیی یا احیاگزار سید ابراہیم صاحب ہوئے ابراہیم صاحب نے اپنے بہنوئی آیۃ اللٰہ مولانا سید ابو الحسن کو مدرسہ کا پرنسپل بنادیا ۔

 یاد رہے کہ پرنسپل ملازم ہوتا ہے بانی نہیں،مدرسۂ سلطانیہ کو ایک سازش کے تحت آصفی امامباڑہ سے انگریزوں سے مل کر ہٹایاگیا جس میں آغا ابو کا بڑا ہاتھ رہا صرف اس مدرسہ سے خاندان اجتہاد کو دور کرنے کےلئے ،جس میں آغا ابو اور دوسرے خاندان اجتہاد کے آستین کے سانپ کامیاب بھی ہوئے  اس لئے کہ خاندان اجتہاد انگریزوں کا مخالف تھا ( انہیں آغا ابو نے انگریزوں سے سازش کرکے امامباڑہ جنت مآب کے مسائل بھی الجھائے تھے ) جس کے نتائج سلطانیہ آج تک بھگت رہاہے

 اگرچہ اس مدرسہ پر جب جب مصیبت آئی تو خاندان اجتہاد ہی کام آیا ( اگرچہ دوسرے کچھ گھرانے اس کو حکومت کو دینے کو تیار تھے ) جس میں خاص طور پر بانئ مجلسِ شام غریباں عمدۃ العلماء آیۃ اللٰہ سید کلب حسین عرف کبن صاحب کا بڑا کار نامہ ہے اور اب بھی خاندان اجتہاد ہی بچائے گا جس کےلئے خاندان اجتہاد کا خود متحد ہونا ضروری ہے۔ 
ماضی میں سلطانیہ کی زمین حکومت کو دے کر چند لوگوں نے حکومتی فائدے اٹھائے پھر ای- ڈی - ایم کو مدرسہ کا مینیجر بناکر پرنسپل کا منصب حاصل کیاگیا اور اب ایک گھر کے پرنسپل اور چند ٹیچر بنانے کے لئے دوسری بار مدرسہ کی منتقلی کی اندر اندر سازشیں کی جارہی ہیں اس سے علماء و مؤمنین کو ہوشیار رہنا چاہیئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .