۱۶ آبان ۱۴۰۳ |۴ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 6, 2024
جواد العلماء آیت اللہ سيد علی جواد

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | آیت اللہ سید علی جواد سنہ 1274 ھ بمطابق 1885 ء میں سرزمین "زنگی پور ضلع غازی پور " پر پیدا ہوۓ ،آپ کے والد ماجد "سید محمد طاہر" شہر بنارس میں رہتے تھے لہذا علامہ بھی اپنے والد کے ہمراہ بنارس آ گۓ جسکی وجہ سے آپ بنارسی مشہور ہوۓ جبکہ آپ کا اصل وطن زنگی پور ہے ،دس برس کی عمر میں سایہ پدری سے محروم ہو گۓ تو موصوف کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے نانا "سید عنایت حسین زنگی پوری "نے اپنے کاندھوں پر لے لی ۔

آپ نے ابتدائی تعلیم "مولوی امداد علی بنارسی" اور "مولوی رضا حسین نونہروی" سے حاصل کی اسکے بعد عازم لکھنؤ ہوۓ اور وہاں مدرسہ ایمانیہ میں داخلہ لے لیا ، یہ مدرسہ 1289ھ میں" علامہ کنتوری " اور" ابّو صاحب" کی تحریک پر قائم ہوا تھا "مولانا سید علی حیدر مجتہد" اس مدرسہ کے مدرس اعلیٰ تھے ،آپ مدرسہ سے وظیفہ نہیں لیتے تھے بلکہ صرف آنے جانے کا کرایہ لیتے تھے، موصوف نے مولانا علی حیدر مجتہد کے علاوہ آیت اللہ ابوالحسن ابّو ،آیت اللہ سید حسن اور تاج العلماء علی محمد سے بھی کسب فیض کیا اور درجہ اجتہاد تک پہنچے ، آپ کی علمی صلاحیت کے پیش نظر آیت اللہ شیخ زین العابدین نے اجازہ بھی مرحمت فرمایا تھا۔

علامہ علی جواد نے اہل بنارس کو اسطرح اسلامی اخلاق سے ہمکنار کیا کہ جسکی مثال نہیں ملتی آپ نے اپنی پاک طینتی اور وعظ و نصیحت سے بنارس کے لوگوں میں دینی بیداری پیدا کر دی ، انہیں اسلامی تعلیمات سے باخبر کیا ، ان میں عزت نفس اور احساس دینداری پیدا کیا، ہندو مسلم میں بھائی چارگی پیدا کرکے محبت اور اخلاق کا درس دیا ،آپ کی مجلسوں میں تمام مذاہب کے لوگ شریک ہوتے تھے، تقریر اتنی با اثر اور حکمت آمیز ہوتی کہ تین چار گھنٹے کے بیان میں کسی کو تھکن کا احساس نہیں ہوتا تھا ،انکی تقریر میں فضول واقعات نہیں ہوتے تھے ، کسی طرح کی دل شکنی کی بات نہیں کرتے بلکہ ایسی خوبی سے مضامین بیان کرتے کہ ہر مذہب کا انسان غور سے سنتا ، اللہ نے آپ کی زبان میں تاثیر اور بیان میں درد دیا تھا جس کی وجہ سے لوگ آپ کی عید غدیر ،عید میلاد النبی، 13 رجب اور 28 صٖفر کی تقریریں سننے دور دور سے بنارس آتے تھے۔

جواد العلما ء بر صغیر کی قدیم ترین دینی درسگاہ جامعہ ایمانیہ بنارس کے دوسرے مدیر اعلیٰ تھے، اس مدرسہ کو بنارس کے ایک معروف زمیندار مولوی خورشید علی خاں نے قاضی القضاۃ مولانا سید بندہ علی کی تحریک پر قائم کیا تھا ، جامعہ جوادیہ بنارس، جوادالعلماء کے نام سےہی موسوم ہے جسے آپ کے فرزند اکبر علامہ سید محمد سجاد نے ٢ ستمبر ١٩٢٨ء میں قائم کیا تھا، جامعہ جوادیہ سے ماہنامہ الجواد آپ ہی کی یاد میں شائع ہوتا ہے جو پہلی مرتبہ علامہ رضی زنگی پوری کے دور میں شعبہ نشر و اشاعت کی جانب سے شائع ہوا تھا،

آپ کے زریں دور میں مدرسہ ایمانیہ نے علمی اور روحانی ترقی کی،درس و تدریس کے چرچے زبان زد خاص و عام تھے،بیشمار طلاب تعلیم و تربیت سے مالا مال ہوئے،موصوف خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے، آپ کا قلم بھی بے حد مضبوط تھا ،مختلف موضوعات پر بے شمار تحقیقی مضامین تحریر کئے لیکن افسوس کہ اکثر ضائع ہو گئے، ان کی بعض تحریریں ابھی بھی موجود ہیں۔

اسکے علاوہ آپ نے لوگوں میں علمی اضافے کیلۓ ایک "کتب خانہ جعفریہ " قائم کیا تھا ، بنارس کے امام جمعہ کے منصب پر فائز رہتے ہوۓبے شمار دین اسلام کی خدمات انجام دیں ۔

آپ نے مسلمانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تجارت کی طرف بھی ترغیب دلائی ،"فلاح الاخوان اور "تہذیب الاخلاق " کے نام سے دو ادارے قائم کۓ جنکے ذریعہ معاشی فلاح وبہبود اور تجارتی ترقی کے منصوبے بروۓ کار لاۓ گۓ، ان دونوں اداروں نے لوگوں کی مالی حالت بہتر بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ، آپ نے قوم کیلۓ غیر معمولی خدمات انجام دیں جس کے سبب آج تک لوگ آپ کے علم و عمل ،شخصیت اور کردار کو یاد کرتے ہیں۔

جواد العلماء کی کوششوں سے مختلف محلوں اور مختلف گھروں میں "مجالس" قائم ہونے لگیں ، چند سال ایسے گذرےکہ سال کے 365 دنوں میں کوئی دن مجالس اہلبیتؑ سے خالی نہیں رہا ، غریب مومنین کے یہاں اپنی جیب سے تبرک کا انتظام کیا، عزاداری سے متعلق ماتمی انجمن" نصیر المومنین" قائم کی جسکو بنارس کی سب سے قدیم ماتمی انجمن کہا جا سکتا ہے ۔

موصوف کی مشغولیت بہت زیادہ تھی مثلاً اصلاح معاشرہ، درس و تدریس،حکمت آمیز وعظ و نصیحت ،ان تمام مصروفیات کی وجہ سے موصوف کی تالیفات بہت کم ہیں اگر ہیں بھی تو مسودات کی صورت میں موجود ہیں ، اللہ نے آپ کو دو فرزند نرینہ عطا کۓ جنکی تربیت بنحو احسن انجام دی ان کے ایک بیٹے مولانا محمد سجاد تھے جنکو آپ نے اپنی زندگی میں پیشنمازی اور تدریس کی خدمت سونپ دی تھی، دوسرے فرزند سید محمد مرتضیٰ تھے جو آپ کی وفات سے چھ مہینے پہلے رحلت کر گۓ تھے۔

آخر کار یہ علم وعمل کا درخشاں ماہتاب 13 ربیع الاول 1339 ھ میں سرزمین بنارس پر غروب ہو گیا اور مجمع کی ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ شہر بنارس کے" صدر امام باڑہ " میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص113، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/PhnCFQ3RH

KE?si=FZCj5a70zWCiSj5q

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .