۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
آیت اللہ سید ظفر الحسن

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | ظفر الملت "آیت اللہ ظفر الحسن" سنہ 1329ھ بمطابق 1910ءمیں اپنی نانیہال سرزمین" خطیب پور" ضلع اعظم گڑھ پرپیدا ہوۓ ، آپ کے والد مولوی"سید ضمیر الحسن" نے آپ کا تاریخی نام ظفر الحسن رکھا، ظفر الملت نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی، اسکےبعد " مدرسہ اسلامیہ نظام آباد ضلع اعظم گڑھ "میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے" مدرسہ ایمانیہ بنارس"چلے گۓ اسکے بعد مدرسہ "سلطان المدارس لکھنؤ "کا رخ کیا اور وہاں رہ کر سنہ 1935ء میں صدرالافاضل کی سند حاصل کی ،لکھنؤ کی رہائش کے دوران لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی و فارسی کے امتحانات میں امتیاز حاصل کیا ۔

مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدسنہ 1935ءسے سنہ1937ء تک مدرسہ باب العلم مبارکپور (اعظم گڑھ) میں مدرس اعلیٰ رہے۔

ظفرالملت سنہ 1937ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے نجف اشرف تشریف لے گۓ ، انکے ہم درس و برادر نسبتی " ضیاء العلماء مولانا سید وصی محمد"کے بقول آپ نجف میں روزانہ دس گیارہ دروس میں شریک ہوتے خصوصاً آیت اللہ سید جواد تبریزی کے درس معقولات میں شرکت فرماتے تھے ، انکے اساتذہ ان کے بڑے قدردان تھے ،حافظہ خدا داد تھا ،وقار علم وعمل ، صدق مقالی اور زبان پروری نے انکی ساکھ جما دی تھی ،بیحد خوش اخلاق تھے،ہمیشہ قوم کے مفاد پر نگاہ رہی، جس سے ایک بار ملاقات ہو گئی وہ ان کا ہوکر رہ گیا -

آپ نے آیت اللہ عبد الحسین رشتی ،آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی، آیت اللہ سید ضیاء الدین عراقی ،آیت اللہ سید جواد تبریزی ،آیت اللہ ابراہیم رشتی، آیت اللہ سید جمال گلپائگانی اور آیت اللہ عبد اللہ شیرازی سے کسب فیض کیا، فراغت کے بعد ان مجتہدین اور دوسرے علماء سے اجازات اجتہاد لیکرسنہ 1940ءمیں نجف سے ہندوستان واپس آگۓ –

آپ کی ایک اردو تصنیف " انتظار قائم آل محمد" بہائیوں کی کتاب "ظہور قائم آل محمد" کے جواب میں تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے، امیر المومنین کا وہ فی البدیہہ خطبہ جس میں کہیں حرف الف نہیں آیا ہے، آپ نے اس معجزانہ حیثیت کے حامل خطبہ کا اردو میں اس طرح ترجمہ کیا کہ اس میں بھی کہیں الف نہیں ہے ، آپ نے عربی میں "کفایۃ الاصول" کی شرح دو جلدوں میں بخط خود تحریر فرمائی ہے ،اسکے علاوہ عربی میں متعدد کتابوں پر حواشی قلم بند کۓ اور عربی زبان میں ان کے قصائد بھی طبع ہو چکے ہیں ۔

جنوری سنہ 1950ء میں ماہنامہ الجواد کا اجراءکیا اور ایک لمبے عرصے تک اسکو ایسے مقالہ نگاروں کا تعاون حاصل رہا جن کی تحریر تحقیق کا مرقع ہوتی تھی۔ علامہ ایک عظیم شاعر بھی تھے ،آپ کے عربی اور اردو قصائد، ٖٖفصاحت وبلاغت اور روانی و سلاست پر مشتمل ہوتے تھے۔

ظفر الملت زندگی بھر "ادارہ تنظیم المکاتب" کے صدر رہے،ادارہ کے قائم ہونے کے بعد آپ نے اپنے ایک معتقد کو ممبئی خط لکھا جسمیں ادارہ کے مکاتب کی مدد کیلۓ سفارش کی تو اس مرد مومن نے 40 مکاتب کے خرچ کو اپنے ذمہ لے لیا ،40 مکاتب کے قیام سے ادارہ کی ساکھ بڑھی تو دوسرے علماء بھی اس ادارہ میں شامل ہوتے چلے گۓ تنظیم المکاتب کا پہلا جلسہ بنارس میں ہوا جسکے مہتمم آپ ہی تھے، ادارہ کا جب بھی اور جس شہر میں جلسہ ہوتا تو آپ خطبہ صدارت پڑھتے تھے۔

اسکے علاوہ آپ نے اعظم گڑھ میں انجمن رفاہ المومنین کی بنیاد رکھی جسکا ایک بنیادی مقصد یہ تھا کہ مومنین میں اگر کوئی تنازعہ پیدا ہو تو کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے کے بجاۓ شریعت کے مطابق اسکا فیصلہ کرا لیں،اس انجمن کے ذریعہ بہت ساری سماجی اصلاحات ہوئیں اور مؤمنین میں اتحاد واتفاق کا جذبہ پیدا ہوا ۔

آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جن میں: آپ کے فرزند ارجمندمولانا سید شمیم الحسن، علامہ سعید اختر رضوی گوپالپوری،ڈاکٹر امیر حسن عابدی،مولانا سید محمد زنگی پوری، مولانا شیخ ممتاز علی ،مولانا سید کرار حسین واعظ، مولانا سید احمد حسن ، مولانا علی ارشاد مبارکپوری، مولانا حسین مہدی حسینی اورمولانا سید ضمیر الحسن رضوی وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں۔

اللہ نے آپ کو چھ نعمتوں اور چار رحمتوں سے نوازا موصوف نے ان کی تعلیم اور تربیت پر خاص توجہ دی، آپ کے فرزندوں کے اسماء کچھ اس طرح ہیں( 1)مولانا شمیم الحسن پرنسپل" مدرسہ جوادیہ بنارس " (2) سید در الحسن انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ ذاکر اور پیش نماز بھی ہیں، (3)حکیم سید خوشنود حسن، نظام آباد میں مطب کر رہے ہیں، (4)سید علی الحسن رضوی جامعہ ملیہ شعبہ انجینیرنگ کے سابق ہیڈ (5) سید رضی الحسن انجینئر بندرگاہ امام خمینی ایران (6)اورسید ولی الحسن تہران ریڈیو "ایران" میں مشغول ہیں۔

ظفر الملت ایک عظیم اور عہد آفرین ہستی کے مالک تھے آپ کو بیک وقت مجتہد،فقیہ ،مفسر حدیث ، متکلم،فلسفی، منطقی، ادیب ،شاعر،صحافی، ناقد، مصنف، بہترین مترجم، مذہب حق کا نگراں ،مدارس دینیہ کا پاسبان، جامعہ جوادیہ کا زعیم ،قوم وملت کا نگہبان،مجالس¬ومحافل کی¬جان ،غرباء و مساکین کا ہمدرد، بے نوا یتیموں اور بیواؤں کا ملجا وماویٰ،مسجدوں اور امام باڑوں کیلۓ مرکز نصرت ،محراب و منبر کیلۓ باعث زینت ،پیکر خلق و انکسار اور عابد شب زندہ دار سبھی کچھ کہنا بجا ہے۔

آخر کار یہ علم و عمل کا آفتاب ہائی بلڈ پریشرکی بیماری میں مبتلاء ہونے کی وجہ سے شب 17 ربیع الاوّل سنہ1403 ھ میں سرزمین بنارس پر غروب ہو گیا اور نماز جنازہ کے بعد مومنین کی ہزار آہ و بکاءکے ہمراہ"مسجد مظاہر صاحب بنارس "کے صحن میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج6، ص137، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .