۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
آیت الله مدرسی

حوزہ/ معروف عراقی عالم دین آیت اللہ مدرسی نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کو لاحق ثقافتی یلغار سے خبردار کیا ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، معروف عراقی عالم دین آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی نے کربلا میں سادات الاعرجیہ کے سربراہ وحید الدمواک الاعرجی اور ان کے ہمراہ وفد کے استقبال کے موقع پر، ان کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کو لاحق ثقافتی چیلنجوں کی جانب متوجہ کراتے ہوئے کہا کہ یہ ذرائع ابلاغ کچھ بے عمل افراد کو ہمارے جوانوں کیلئے نمونۂ عمل قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے ان کوششوں کو عراقی معاشرے کو تباہ کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہ کہا کہ ان سازشوں کا آغاز خاندان اور پھر قبیلے کی تباہی سے ہوا، اس ثقافتی یلغار کا عراقی ثقافت سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے اور اسے ہمارے معاشرے میں رائج کی جا رہی ہے جو کہ ملک کی تباہی کا باعث ہے۔

آیت اللہ مدرسی نے مزید کہا کہ اسلام نے خاندان کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور توجہ دی ہے اور اس کے استحکام کیلئے ایک مخصوص نظام قائم کیا ہے جو اسے فتنوں سے بچاتا ہے، کیونکہ خاندان معاشرہ کی اکائی، ستون اور بنیاد ہے، معاشرے کا استحکام اور ایمان کا قلعہ اسی کے ذریعہ ممکن ہے۔ اگر خاندان کی اصلاح ہو گئی تو پورا معاشرہ سدھر جائے گا اور اگر وہ بگڑ جائے گا تو پورا معاشرہ بگڑ جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں خاندان ماں باپ اور بچوں پر مشتمل ہے نیز اس کے وسیع معنی میں، قبیلہ، معاشرے اور اداری زندگی کو بھی شامل ہو جاتا ہے، اسی لئے دشمن اور فتنہ انگیز افراد ہر طرف سے اسلامی خاندانی نظام کی بنیادوں کو تباہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

معروف عراقی عالم دین نے خاندانی نظام کی حفاظت کیلئے اس کی بنیادوں کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کرنے والے منحرف افکار سے دور رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔

آیت اللہ مدرسی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خاندان دینی اقدار اور اچھے اخلاق کا محور ہے لہٰذا ہم جتنا زیادہ اس میں ان اقدار کو پروان چڑھائیں گے اتنا ہی یہ معاشرے کیلئے بہتر ہو گا، کہا کہ زندگی سے بہترین انداز میں لطف اندوز ہونا اور اس سے فائدہ اٹھانا خاندان کی حفاظت اور اس کی مضبوطی کا باعث ہے نیز یہ عمل خاندان کی ترقی کا بھی سبب بنتا ہے۔

انہوں نے مختلف قبائل کے سرداروں کو اپنے اپنے قبیلوں کے رسم و رواج سے واقفیت کے ساتھ ساتھ دین کو سمجھنے اور شرعی احکام کو جاننے اور تعلیم و تربیت کے فنون سیکھنے کی دعوت دی، کیونکہ یہی امر تشدد پسندوں، منحرف نظریات اور غیر ملکی ثقافتوں کی لہر سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے اور ایک مضبوط نسل کی پرورش کا ضامن ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .