۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
مولانا کلب عابد نقوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | آقاۓ شریعت رحمت مآب" مولانا سید کلب عابد نقوی" بتاریخ یکم جمادی الثانیہ سنہ 1341ھ مطابق 19 جنوری سنہ1923ءمیں سرزمین لکھنؤ پر پیدا ہوۓ ، موصوف کے والد بھی عالم دین تھے جنکو "عمدۃ العلماء مولانا سید کلب حسین" کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔آپ کا شمار خانوادہ غفرانمآب علا مہ دلدار علی نقوی کے متدیّن علماء میں ہوتا ہے ۔

صفوۃ العلما نے ابتدایئ تعلیم اپنے محلّے میں تجربہ کار اساتذہ سے حاصل کی، سنہ 1930 ء میں مدرسہ سلطان المدارس میں داخلہ لیا اور سنہ 1945ء میں فرسٹ ڈویژن سے صدر الافاضل کی سند حاصل کی۔

آپ کے اساتذہ میں سے : مولانا الطاف حیدر ، مولانا عبد الحسین، مولانا ابن حسن،مولانا سید محمداور مولانا سید حسین کے اسماء سر فہرست ہیں ۔

سنہ 1946ء میں عراق تشریف لےگۓ جہاں آیت اللہ سید مہدی شیرازی ، آیت اللہ سید محسن الحکیم، آیت اللہ سید محمود شاھرودی اور دوسرے اساتذہ سے کسب فیض کرکے وطن واپس آگۓ ،عراق سے واپسی کے بعد دسمبر 1950 ء سے جون 1972ء تک مدرسہ سلطان المدارس میں نائب مدرس اعلیٰ کی حیثیت سے تدریسی اور انتظامی فرائض انجام دۓ ،وقتاً فوقتاً مسجد آصفی میں اپنے والدماجد "مولانا کلب حسین" کی عدم موجودگی میں نماز جمعہ پڑھایا کرتے تھے، کچھ عرصہ بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شیعہ تھیولوجی کے ڈین کی حیثیت سے بلاۓ گۓ جہاں سنہ 1974 ء سے سنہ1983ء تک اس عہدے پر فائز رہے ، اپنے والد کی وفات کے بعد مسجد آصفی میں امام جمعہ کا منصب مستقل طور پر سنبھال لیا اور آخری عمر تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے ۔

سنہ 1943 ء میں آیت اللہ باقر العلوم کی صاحبزادی سے آپ کا عقد ہوا جن سے تین بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوۓ آپ کے بیٹے آفتاب شریعت مولانا کلب جواد و جناب سید کلب نقی عرف تنویر کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جن میں سے : مولانا آغا جعفر (پاکستان) مولانا رضی جعفر (پاکستان) مولانا مرزا محمد عالم،مولانا مرزا محمد اطہر، مولانا سید حسن نقوی، مولانا افتخار حسین (کشمیر) اور مولانا منظور محسن وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں۔

آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے نائب صدر تھے ، جسکی صدارت مولانا ابولحسن علی¬حسنی ندوی کے ہاتھوں میں تھی ۔ سینٹرل حج کمیٹی اور اردو اکیڈمی کے ممبر رہے اپریل سنہ 1964 کی 11و12 تاریخ کو آل انڈیا شیعہ کانفرنس کا 44واں سالانہ اجلاس جب امام باڑہ غفران مآب لکھنو میں منعقد ہوا تھا تو اسکے صدر حسین بھائی لال جی تھے اور اجلاس کی استقبالیہ کمیٹی کے صدر صفوۃ العلما تھے ،مسلم یونیورسٹی کے کورٹ کے ممبر تھے ، موصوف کی ذات میں یہ مختلف عہدے ان کی شخصیت کو واضح کرتے ہوۓ علمی شان و شوکت کو بیان کرتے ہیں۔

بقول پروفیسر مولانا شبیہ الحسن نونہروی" ان میں سنجیدگی اور متانت کے آثار بچپن ہی سے موجود تھے ، متانت اور حفظ مراتب کے ساتھ انکی شگفتگی اور کشادہ دستی ان کے اوصاف میں چار چاند لگا دیتی تھی، ان میں حقیقتا ایک طرح کی مقناطیسیت تھی انکے احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا جن میں طرح طرح کے لوگ شامل تھے اور سب ہی انکی نیک نفسی اور خیر خواہی کے معترف تھے ، سادگی اور اخلاص کے ساتھ وہ اپنے احباب اور بزرگوں کی اتنی مدارات کرتے تھے کہ انکے یہاں جانے والا مبہوت ہوکر رہ جاتا تھا ، احساس پروری اور سادگی کے یہ اوصاف بھی انکے ذاتی محاسن کے علاوہ ایسی وراثت تھے جو انہیں ان کے پدر بزرگوار" عمدۃ العلماء" سے براہ راست پہنچے تھے ۔

عمر کے ساتھ¬ساتھ¬ان میں قیادت و خطابت کے نہفتہ اوصاف بھی رفتہ رفتہ ظہور پذیر ہونے لگے اور پھر اس قدر مصروف ہوۓ کہ ان کی پوری زندگی معرکے سر کرنے میں گذر گئ، ان کی عملی جدو جہد اور مجاہدانہ عزم و بصیرت کے جوہر اس وقت کھل کر سامنے آۓ کہ جب مدرسہ سلطان المدارس کے تحفظ کی تحریک نے بر صغیر اور بیرونی ممالک میں ہل چل سی پیدا کر دی، اس مدرسہ کا اپنی موجودہ عمارت میں رہنا جس مجموعی قیادت کا کارنامہ ہے ،اسمیں آپ کی سرفروشانہ جدو جہد نے اہم کردار ادا کیا ۔

1978ء میں محرم کے جلوسوں پر پابندی لگی تو آپ نے فیصلہ کی تاریخ کا اعلان کیا ، آپ کی ایک آواز پر ہزاروں کا مجمع کرفیو توڑ کر گھروں سے باہر نکل پڑا،آپ 1978ء سے 1986ء تک ہر سال روز عاشورا آصفی امامباڑے سے احتجاجی گرفتاریاں پیش کرتے رہے

ان تمام مصروفیات کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف کا دامن نہیں چھوڑا ، آپ کے آثار میں سے کتاب عماد التحقیق کا نام سر فہرست ہے ۔

13 دسمبر 1986 ء مطابق 10 ربیع الثانی 1407 ھ میں نصیرآباد ضلع راۓ بریلی سے مجلس پڑھکر ، الٰہ آباد کیلۓ واپسی ہو رہی تھئ کہ تقریباً 15 کلو میٹر پہلے" پھاپھا مؤ ضلع الٰہ آباد "کے قریب ساڑھے آٹھ بجے رات کو ایک ٹرک نے اس کار کو پیچھے سے ٹکّر ماری جسمیں آپ سفر کر رہے تھے اس سے آپ کا ایکسیڈینٹ ہو گیا آپ اس حادثہ کا شکار ہوکر جاںبحق ہو گۓ اور اپنے معبود حقیقی سے جا ملے،14 دسمبر کی صبح ہوئی تو ریڈیو اور دیگر ذرائع ابلاغ نے اس خبر کو چاروں طرف پھیلا دیا ایک عالم گیر زلزلہ آگیا ،نواب گنج تھانہ سے ایمبولنس کے ذریعہ لاش" میڈیکل کالج الٰہ آباد "لائی گئی تو سینکڑوں کا مجمع نعرہ لگا رہا تھا کہ مولانا کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دینگے لہذا ڈاکٹری معائنہ کے بعد پوسٹ مارٹم کے بغیر میّت زیارت کیلۓ لائی گئی اور پھر دوبارہ ایمبولنس میں رکھی گئی، تین بجے سہ پہر کے قریب ایمبولنس آہستہ آہستہ لکھنؤ کیلۓ روانہ ہوئی ،ہر قدم پر قافلہ کا احاطہ بڑھتا جا رہا تھا۔

لکھنؤ سے چالیس کلو میٹر پہلے ایک کثیر مجمع استقبال کیلۓ کھڑا تھا وہیں آپ کے جسد اطہر کو تابوت میں منتقل کرکے ایک کھلی گاڑی میں رکھا گیا ۔ رات 9 بجے کے قریب اعلان کیا گیا کہ نماز جنازہ کل صبح 9 بجے ادا کی جاۓگی ، پورے لکھنؤ میں کہرام مچا تھا ، مجمع رات ہی سے بڑے امامباڑے کی طرف بڑھا جاتا تھا جہاں غسل و کفن کے بعد تابوت مسجد آصفی کے مرکزی دروازہ میں رکھا تھا ، "تاج العلماء سید محمد زکی " نے نماز جنازہ پڑھائی ، نماز جنازہ کی صفیں امامباڑے کے صحن سے سیڑھیوں تک اور وہاں سے لان تک پہنچیں پھر بھی سب لوگ شرف نماز حاصل نہ کر سکے ، آگے بڑھے تو ٹیلہ والی مسجد کے قریب برادران اہلسنت نماز جنازہ پڑھنے کیلۓ کھڑے تھے، اجازت لیکر تابوت کو صحن مسجد میں لے گۓ ،مولانا فضل الرحمٰن امام جمعہ وجماعت اہلسنت کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی گئی،

موصوف اتحاد بین المسلمین کے علمبردار تھے اور کسی بھی صورت اتحاد کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیا، یہی وجہ تھی کہ آپ کے جنازے میں اہلسنت حضرات کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی –

نماز کے بعد تابوت چالیس پچاس علموں کے زیر سایہ امام باڑہ غفران مآب کیلۓ روانہ ہوا اورآپ کے والد "عمدۃ العلماءسید کلب حسین "کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص 147دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/cdgPLMN45jQ?si=EzDRSsiT9mtk6tPZ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .