۶ مهر ۱۴۰۳ |۲۳ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 27, 2024
علامہ محمد ہارون زنگیپوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | اپنے زمانہ کے جیّد عالم دین، ابوداؤد علامہ سید محمد ہارون زنگی پوری بتاریخ 24 ربیع الثانی سن 1292ہجری میں زنگی پور ضلع غازی پور کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد "سیدعبدالحسین" خاندان کے بزرگ اور باشرف انسان تھے۔

مولانا ہارون عالم، ذہین، صاحب زبان اور صاحب قلم انسان تھے۔ انہیں زمانہ کے تقاضوں کا بخوبی ادراک تھا اور دینی تعلیمات کو زمانہ کے تقاضوں کے مطابق زینے طے کرا رہے تھے۔

آپ نے ابتدائی تعلیم مولوی محمد سمیع زنگی پوری، مولوی محمد ہاشم اور مولانا سید علی حسین کی خدمت میں رہ کر حاصل کی اس کے بعد بنارس پہنچے اور جوادالعلماء مولانا سید علی جواد کی خدمت میں رہ کر کسب فیض کیا، کچھ عرصہ کے بعد بنارس سے لکھنؤ کا رخ کیااور جامعہ ناظمیہ میں تعلیم کو آگے بڑھاتے ہوئے ممتازالافاضل کی سند حاصل کی، پنجاب یونیورسٹی سے مولوی کی سند دریافت کی اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد اورینٹل کالج میں استاد کے عنوان سے پہچانے گئے۔

علامہ سید باقر طباطبائی، آیت اللہ شیخ محمد حسین مازندرانی، علامہ شیخ محمد مہدی کشمیری حائری اور آیت اللہ سید کلب باقر ہندی وغیرہ نے علامہ ہارون کو اجازات روایت سے نوازا۔

علامہ کی تعریف میں آپ کے معاصر رطب اللسان دکھائی دیئے۔ سنی ہوں یا شیعہ، بلاتفریق مذہب و ملت موصوف کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔ علامہ ابوداؤد عربی و فارسی نثر و نظم میں ماہر تھے، آپ نے اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ تبلیغ دین میں اپنا دن رات ایک کردیا۔

علامہ ہارون نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک تصنیف و تالیف کا دامن نہ چھوڑا۔ آپ نے سن 1328ہجری میں عراق کی زیارات کا پہلا سفر کیا اور وہاں سے واپسی کے بعد اپنا سفرنامہ تحریر فرمایا جس میں نظم و نثر کی صورت میں پورا سفر بیان کیا۔

باوجود اس کے کہ علامہ کی مکمل عمر پینتالیس سال ہوئی، اس کے باوجود آپ نے چالیس تالیفات اپنی نسل کے سپرد کیں۔ علامہ زنگی پوری میدانِ شاعری کے وہ سورما تھے جن کی شاعری امام حسین علیہ السلام کی مرہونِ منت تھی۔ آپ آسانی سے کربلا نہیں جاسکتے تھے لیکن جب خواب کے عالم میں بشارت ہوئی تو آپ نے فوراً کربلا کا رخ کیا اور امام حسین کی زیارت کے بعد عربی زبان میں نہایت خوبصورت اشعار لکھے۔

جب علامہ عراق کی زیارتوں سے فارغ ہوئے تو واپسی کا قصد کیا، واپسی میں کچھ دن لاہور میں قیام کیا اور اپنی کتاب "توحید القرآن" کی تلاش میں نکلے جو لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ موصوف اپنی محنت کو ثمرآور دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔

علامہ ابوداؤد عراق پہنچے تو متعدد علمائے اعلام اور مراجع کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جن میں سے: علامہ ہبۃ الدین حائری، آخوند خراسانی اور شیخ الشریعۃ اصفہانی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ موصوف نے علامہ ہبۃ الدین سے ملاقات کی تو انہوں نے آپ کی خدمت میں یہ پیشکش رکھی کہ ان کی کتاب "الھیئۃ و الاسلام" کا اردو زبان میں ترجمہ کریں، موصوف نے پیشکش کو قبول کیا اور اس کا سلیس اردو میں ترجمہ کرکے "البدرالتّمام فی ترجمۃ الھیئۃ والاسلام" کے نام سے موسوم کیا۔

منشی محبوب علی نے جب علامہ کی کارکردگی کے حسن کو ملاحظہ کیا تو ان کو روزنامہ "پیسہ" کا مدیر قرار دے دیا، اس وقت اخبار کے مدیر کی تنخواہ پندرہ روپیہ ماہانہ تھی۔

کچھ عرصہ بعد لکھیم پور کھیری پہنچے اور تدریس میں مشغول ہوگئے اس کے بعد دہلی کالج کا رخ کیا لیکن بیماری کے باعث دہلی کو کرکے "مُونگَیر-حسین آباد" میں آکر قیام پذیر ہوگئے۔

یوں تو علامہ موصوف کی تالیفات و تصنیفات بہت زیادہ ہیں لیکن ان میں سے کچھ کتابیں بہت زیادہ اہم ہیں مثلاً: براہین الشہادہ، شہید الاسلام، تعلیم الاخلاق(3جلد)، السیف الیمانی، الہیئۃ والاسلام، ترجمہ صحیفہ کاملہ، نوادر الادب، آثار الشہادہ، مکالمہ علمیہ، ترجمہ احقاق الحق، انیس المتہجّد، علوم القرآن، صنادید وطن، اوراد القرآن، توحیدالقرآن، توحید الائمہ، حجت العصر، المعراج، ثبوت شہادت اور امامۃ القرآن وغیرہ۔ ان کی تالیفات مومنین کے لئے ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

علامہ ہارون کے یہاں صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کو آپ نے "شبیر حسین" کے نام سے موسوم کیا تھا، بیٹا جوان ہوا یہاں تک کہ اس کی شادی بھی ہوگئی لیکن نہ جانے قدرت کو کیا منظور تھا، جس سال شادی ہوئی اسی سال خطرناک وبا پھیلی اور موصوف کا بیٹا اس وبا کا شکار ہوکر علامہ کو داغِ مفارقت دے گیا۔ جوان بیٹے کا صدمہ جان لیوا ہوتا ہے، موصوف نے خود کو کیسے سنبھالا! یہ اللہ ہی جانے۔ علامہ نے اپنے بیٹے کی فرقت پر مرثیہ تحریر کیا جس کا ایک شعر یہ ہے: ؎

زندگی سے تری وابستہ تھا جینا میرا - اب یہ جینا نہیں اے جان! یہ ہے سخت نکال

علامہ زنگی پوری جوان بیٹے کی مفارقت کے بعد زیادہ دن قیدِ حیات میں نہ رہ سکے، بیٹے کے غم میں بیمار ہوگئے اور ان کی بیماری کافی طولانی ہوگئی، اس کے باوجود مدرسۃ الواعظین کے شعبہ تصنیف و تالیف کو ترک نہیں کیا لیکن یہ چراغ سحری آخر کب تک ٹمٹماتا! آخرکارطوفان کے تھپیڑوں کی تاب نہ لاتے ہوئے بتاریخ 14 جمادی الاولیٰ سن 1339ہجری میں گل ہوگیا اور زمانہ اس چراغِ علم کے فیض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص 289دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2021

تبصرہ ارسال

You are replying to: .