حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا شیخ محمد مصطفیٰ جو ہر 14 ذیقعده سن 1312ہجری میں سرزمین حسین گنج ضلع سیوان صوبہ بہار پرپیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بھاگل پور میں حاصل کی۔آپ اپنے والد کی خواہش پرعلم دین حاصل کرنے کی غرض سے عازم لکھنؤ ہوئےاور سلطان المدارس میں داخلہ لیا اور وہاں رہ کر مہربان اور تجربے کار اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ سن 1341ہجری میں سلطان المدارس کی آخری سند" صدرالافاضل" حاصل کی ۔
ماہ صفر ۱۳۴۴ ہجری میں مولانا محمد مصطفیٰ جو ہر مدرسہ عباسیہ پٹنہ کے نائب مدرس اعلیٰ منتخب ہوئے اور اسی سال ۱۳ رجب ۱۳۴4 ہجری میں مدرس اعلی کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
سن ۱۹۴۵عیسوی سے پہلے آپ کانپور تشریف لے گئے اور سنہ ۱۹۴۹عیسوی کے اوائل تک پٹکاپور کی مسجد میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف رہے۔ آپ نےکھارادر کراچی میں چار سال محرم کی مجالس سے صبح و شام خطاب فرمایا جو دوسرے دن گجراتی زبان میں شائع کرکے مفت تقسیم کی جاتی تھیں ۔
موصوف نماز مغربین کے بعد تفسیر قرآن، حدیث، تاریخ اور دوسرے دینی موضوعات پر تقریر کرتے تھے اور پیچیدہ دینی مسائل کے حل پیش کرتے۔ ان اجتماعات میں برادران اہل سنت کے معزز فقہاء اور علماء بھی پوری رغبت سے شرکت کرتے تھے۔ اور وقتا فوقتا صاحبان نظر بھی شریک ہوتے رہتے تھے جن میں سے جوش ملیح آبادی، علامہ رشید ترابی، پروفیسرعلی حسنین شیفتہ محمد على ،آغا سلطان احمد مرزا دہلوی اور تہذیب الحسن (چیف انجینئر) وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں ۔ مولانا جوہر نے ان تقریروں کا سلسلہ اپنی سخت علالت کے باوجود بھی جاری رکھا تھا۔
علامہ کا حافظہ نہایت قوی تھا کتابوں کا مطالعہ ان کی زندگی تھی اور جو چیز ایک بار پڑھ لی وہ مرتے دم تک یاد رہی کہ یہ بات کسی کتاب کے کس صفحہ پر ہے۔
علامہ کو کتب بینی کا بہت شوق تھا جس کو دیکھتے ہوئے حسین گنج ضلع سیوان کے رئیس اعظم ابو یوسف محمد مرحوم کا کتابخانہ بھی آپ کو حاصل ہوگیا تھا۔مولانا جوہر کو انگریزی زبان پر کافی عبور تھا، ایک مرتبہ ان پر خارش کا اتنا زبردست حملہ ہوا کہ جسم کا کوئی حصہ محفوظ نہ رہا یہاں تک کہ انگلیوں سے بھی خون وغیرہ نکلتا رہتا تھا۔ ایک طرف تو مطالعہ کے بغیر وقت گزارنا ناممکن تھا دوسری طرف دینی کتاہیں ہاتھ میں لیتے ہوئے ڈرتے کہ کہیں اور اق نجس نہ ہو جائیں۔ لہذا اس کا حل یہ نکالا کہ الف لیلہ کا انگریزی ترجمہ منگوایا اور اسے پڑھنا شروع کیا۔ ادہر مرض ختم ہوا ادہر کتاب ختم ہوئی اور مولانا انگریزی کے ماہر ہو گئے۔
موصوف نے بہت ہی سادہ زندگی بسر کی ، معمولی صاف ستھرا لباس پہنتے سادہ اور قلیل مقدار میں غذا صرف کرتے ۔ آپ دنیا سے بے نیاز تھے موصوف نےپوری زندگی مجلس پڑھنے کی اجرت کسی سے نہیں مانگی۔ کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کیا۔
موصوف مقرر ہونے کے ساتھ اچھے شاعر بھی تھے اور جوہرؔ تخلص کرتے تھے شاعری میں آپ کا استادانہ در جہ پٹنہ اور دوسرے ادبی مراکز میں مسلم تھا۔ پٹنہ میں قیام کے دوران بہت سے لوگ آپ کی شاگردی کے فیض سے مستند شاعر بن گئے آپ کے قصائد ، سلام اور رباعیاں اگر زیور طباعت سے آراستہ ہو جائیں تو مدح اہلبیت کا ایک قیمتی ذخیر ہ قوم کے ہاتھوں میں آجائے۔
اللہ نے آپ کو ایک بیٹی اور دو بیٹے عطا کئے جنکو ابوالقاسم جوہری اور مشہور خطیب مولانا طالب جوہری کے نام سے پہچانا جا تا ہے۔
موصوف نے اپنی تمام تر مصروفیات کے با وجود تصنیف وتالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا جن میں: ثبوت خدا، توحید و عدل: نہج البلاغہ کی روشنی میں ،عقائد جعفر یہ،اصول جعفری، جناب سیدہ کے تاریخی خطبہ فدک کا ترجمہ جو آغا سلطان احمد مرزا کی کتاب سیرت فاطمہ الزہرا میں شامل ہے اور الغد یر کی پہلی جلد کا اردو ترجمہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
آخرکار یہ علم و ہنر کا آفتاب ۹ صفر ۱۴۰۶ہجری بروز پنجشنبہ سرزمین کراچی پر غروب ہو گیا ۔ آپ کے چاہنے والوں پرغم کے بادل چھا گئے،نماز جنازہ کے بعد "سخی حسن کے قبرستان "میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص 147دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020