حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید محمد حسین 14/رمضان المبارک 1327 ہجری محلہ کٹرہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا سیدمحمد ہادی علم دوست اور علمی شخصیت کے مالک تھے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے محلہ کی تعلیم گاہ" عابدیہ "میں مولانا کاظم حسین اور گھر پر اپنے والد سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ کی مشہور معروف درس گاہ جامعہ سلطانیہ سلطان المدارس میں داخل ہوئے اور تعلیمی سلسلہ کو آٹھویں درجہ سے آگے بڑھایا اور وہاں کے ماہر اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ جن میں مولانا عالم حسین، مولانا عبدالحسین وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
سنہ 1351ہجری میں صدرالافاضل کی سند حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے عراق کا رخ کیا حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آیت اللہ شیخ عبد الحسین رشتی، آیت اللہ ابولحسن اصفہانی، آیت اللہ مرزا حسین کمپانی، آیت اللہ ضیاءالدین عراقی سے کسب فیض کیا اور انہوں نے آپ کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اجازات سے نوازا۔
آپ نے آیت اللہ ضیاء الدین عراقی کی تقریرات درس کو عربی زبان میں لکھا ۔ مولانا محمد حسین رضوی سنہ 1938 عیسوی کو نجف اشرف سے اپنے وطن واپس تشریف لائے اور درس و تدریس میں مصروف ہوگئے۔ یکم نومبر 1941 عیسوی کو شیعہ عربی کالج میں استاد کی حیثیت سے منتخب کرلیے گئے اور گیارہ سال تک وظیفہ تدریس کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔
جولائی 1954 عیسوی میں خان بہادر مہدی حسن کے اصرار پر سلطان المدارس میں تدریس کی ذمہ داری قبول کی اور وہاں بھی پوری توجہ کے ساتھ تشنگان علوم کو سیراب کرتے رہے۔ آپ کو درس و تدریس سے حد درجہ لگاؤ تھاموصوف دن بھر پڑھنے اور پڑھانے میں لگے رہتے تھے طلاب ،تحصیل علم کے لیے گھر پر بھی آتے تھے تو آپ محنت اور دلچسپی کے ساتھ ان کو پڑھاتے تھے۔
آپ کے بعد آپ کے فرزند آیت اللہ محمد جعفر رضوی نے سلطان املدارس میں مدیریت و درس و تدریس کی ذمہ داری بنحو احسن انجام دی اور اب آپ کے پوتے مولانا محمد اسحاق رضوی مدرسہ کی مدیریت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اللہ نے مولانا سید محمد حسین رضوی کو چار بیٹیاں اور چاربیٹوں سے نوازا۔ آپ نے چاروں صاحبزادوں کو اپنے خاندانی دستور کے مطابق علوم دینیہ سے آراستہ کیا جومولانا سید محمد صالح، مولانا سید محمد مصطفیٰ، مولانا سید محمد مجتبیٰ اور آیت اللہ سید محمد جعفر رضوی¬¬¬¬ کے نام سے پہچانے گئے۔
آپ محلے اور شہر کے لوگوں کا بہت احترام فرماتے تھے کبھی کسی کی غیبت نہیں کرتے اور نہ ہی سنتے تھے موصوف کے بزرگ بھی بہت احترام اور ادب کے ساتھ ملتے تھے مگر آپ بھی عاجزی، انکساری، اور پوری بزرگداشت سے پیش آتے تھے۔ طلاب کا بہت احترام فرماتے تھے علوم دین سے اسقدر عشق رکھتے تھے کہ شب و روز فقہ و اصول اور حدیث کا مطالعہ اور اس کا درس دیتے رہتے تھے۔علم فقہ و اصول میں بہت زیادہ مہارت تھی آپ کا یہ شیوہ تھا کہ اگر کسی عالم نے آپ سے مسئلہ شرعی دریافت کیا ہے تو اس کے جواب میں حکم شرعی کے ساتھ دلائل و وجوہ استنباط بھی تحریر فرمایا کرتے تھے۔ آپ کے پڑھانے کا انداز بھی مشفقانہ اور دل و دماغ میں اترجانے والا تھا۔ آپ کے شاگردمولانا مرتضی حسین اپنی کتاب " مطلع انوار "میں تحریر فرماتے ہیں : میں نے جناب سے کتاب" شرائع الاسلام " سے کتاب " مکاسب " تک اور عماد الکلام میں دو سال کا نصاب پڑھا ان کی تقریر دل میں اترجاتی تھی ۔ ان کے کریمانہ اخلاق اور مشفقانہ محبت آج تک میرے دل میں گھر کیے ہوئے ہے۔ مجھے اور ان کے دیگر طلبہ کو ان کی شاگردی پر فخر ہے۔
آپ نےاپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود کاغذ اور قلم کو نہیں چھوڑا اور صاحبان ذوق کے لئے اپنی تحریریں یادگار کے طور پر چھوڑیں جن میں: زجز الظلوم فی نصره المظلوم، سعوط المجانین و عطوس المصابین اور تحفه العوام پر مہرتائید فرمائی۔
آپ باوقار، ہنس مکھ، کشادہ پیشانی، فراخ حوصلہ اور انتہائی قانع اور صابر تھے۔مولانا مرتضی حسین فاضل بیان فرماتے ہیں : مولانا کے صبر و تحمل کا ایک واقعہ میرے لیے ناقابل فراموش ہے۔ ان کی پشت پر کینسر ہوگیا تھا بلرام پور اسپتال کے سامنے ڈاکٹر بھاٹیہ کا پرائیویٹ اسپتال تھا استاد محترم کو آپریشن کے لئے ایڈمیٹ کرایا گیا میں نے دیکھا مرض کی ابتدا سے آخر تک شدت درد کا کسی کو احساس تک نہ ہونے دیا نہ کبھی کراہتے اور نہ چیختے تھے جب کبھی ضبط باقی نہ رہتا تو یا علی یاعلی کہتے تھے۔ آپریشن کے دن میں آپریشن روم میں موجودتھا، ہاتھ کی ہتھیلی سےبڑا آپریشن تھا پورے کینسر کو نکالا گیا ۔
بہت دیرتک ڈاکٹر بھاٹیہ چیرپھاڑ میں لگے رہے ڈاکٹر کا بوڑھاپا تھا مگر مولانا کے احترام اور محبت سے متاثر ہوکر خود مصروف عمل رہے پسینے میں شرابور تھے مولانا کا رنگ زرد تھا کیونکہ بے ہوشی کے لئے دوا سونگنے سے انکار کردیا تھا اسی لئے پورے ہوش و حواس میں تھے بس تسبیح اور نام علی زبان پر جاری تھا۔ آپریشن کے بعد ڈاکٹر نے ہمت اور صبر پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا مولوی صاحب ہم نے اپنی زندگی میں ایسا مریض نہیں دیکھا، اب آپ ضرور صحتیاب ہوجائیں گے۔ اسپتال سے گھر آکر غسل صحت کیا اور اس کے بعد آستانہ حسینی کے لئے روانہ ہوگئے مرض نے کمزور کردیا تھا بخار کی حرارت بدن میں رہنے لگی تھی۔
آخر کار اس موذی مرض نے 24/ جمادی الاول سن 1385 ہجری میں شمع حیات گل کردی اور یہ علم و عمل کا درخشاں ماہتاب چاہنے والوں کے درمیان سے پنہان ہوگیا۔مؤمنین، طلاب، علمائے کرام اور شاگردوں کی موجودگی میں حسینیہ غفرانمآب میں سپرد لحد کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔