حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید محمد عباس رضوی آل باقرالعلوم 17/فروری 1927 عیسوی میں سرزمین کربلائے معلیٰ عراق پر پیدا ہوئے۔ موصوف کا تعلق لکھنؤ کے علمی گھرانے سے ہے۔آپ کے والد آیت اللہ سید علی رضوی عظیم المرتبت علمی شخصیت کے مالک تھے۔ آیت سید علی کو علماء نجف نے اجازات اجتہاد سے نوازا جن میں آیتاللہضیاءالدین عراقی ، آیت اللہہادی آل کاشف الغطاء ،آیت اللہمحمد کاظم اور آیت اللہ ابراہیم رشتی کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ آیت اللہ عبدالحسین رشتی ، آیت اللہ ابوالحسن موسوی اور آیت اللہ محسن الامین آملی نے نقل روایت کی اسناد عطاء فرمائیں۔
آپ کے دادا آیت اللہ باقرالعلوم بھی علمی دنیا کے چمکتے ہوئے آفتاب تھے جنہوں نے مدرسہ سلطان المدارس میں درس خارج دینا شروع کیا جس میں ہادی الملت سید محمد ہادی کے چھوٹے بھائی شمس العلماء سید سبط حسن اور عمدۃ المحققین سید عالم حسین وغیرہ نےشرکت فرمائی۔ باقرالعلوم کے دیگر شاگردوں میں آیت اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی، مولانا سید شبیر حسن (سابق استاد وثیقہ عربی کالج فیض آباد) مفتی اعظم آیت اللہ سید احمد علی موسوی ، ظفرالملت سید ظفرالحسن ، آیت اللہ سید راحت حسین گوپالپوری ، خطیب اعظم سید سبط حسن نقوی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
مولانا سیدمحمد عباس بہترین خوش نویس، نہایت متقی ، پرہیزگار، متواضع ، شریف النفس اور کم سخن عالم دین تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں حاصل کی اور پھر مدرسہ سلطان المدارس میں داخل ہوکر وہاں کے بزرگ اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا۔ سن 1954 عیسوی میں آپ نے تعلیم مکمل کی اور سلطان المدارس کی آخری سند صدرالافاضل مدرس اعلیٰ کے ہاتھوں سے حاصل کی۔
سن 1955 عیسوی میں فقہ و اصول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس خارج کے لئے نجف اشرف عراق کا رخ کیا اور حوزہ علمیہ نجف میں جید اساتذہ جیسےآیت اللہ محسن الحکیم، آیت اللہ سید محمد شاہرودی، آیت اللہ ابوالقاسم خوئی، آیت اللہ فانی اصفہانی اور آیت اللہ روح اللہ امام خمینی وغیرہ سے 24سال کسب فیض کیا ۔
سن 1979 عیسوی میں نجف اشرف عراق سے ہندوستان واپس آئے اور شہر لکھنؤ میں درس و تدریس، امامت نماز پنجگانہ وغیرہ میں مشغول ہوگئے ۔ میسور کرناٹک میں امام جمعہ والجماعت کی حیثیت سے وظائف دینی کو 8 سال تک بنحواحسن انجام دیتے رہے۔
آپ کے والد آیت اللہ سید علی رضوی کی رحلت کے بعد مدرسہ سلطان المدارس کی پرنسپلی آپ کو پیش کی گئی تو موصوف نے اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور گوشہ نشینی کو پرنسپلی پر ترجیح دی۔آپ نے کچھ عرصہ سلطان المدارس میں تدریس کے فرائض بھی انجام دئیے اور بہت سے شاگردوں کی تربیت کی۔ آپ فقہ و اصول و دیگر علوم میں مہارت کے ساتھ بہترین شاعر بھی تھے اور اختر تخلص فرماتے تھے۔
اللہ نے مولانا سید محمد عباس رضوی کو چار بیٹیاں جو مولانا لیاقت رضا، علی جواد حسینی، علی جعفر اور آفتاب شریعت مولانا کلب جواد سے منسوب ہیں اور ایک بیٹا عطافرمایا جو مولانا سید محمد باقر رضوی کے نام سے پہچانا گیا۔مولانا باقر علم وعمل میں اپنے والد کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ مولانا سید محمد باقر اپنے والد کی مانند متقی، پرہیزگار، عالم باعمل اور علم دوست تھے۔ تحصیل علم کے لیے قم المقدسہ میں مقیم تھے اسی اثنا میں مریض ہوگئے ایران سے ہندوستان آئے بہت علاج کرایا مگر شفاء نہ مل سکی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
مولانا سید محمد عباس رضوی نےجوان بیٹے مولانا سید محمد باقر صدرالافاضل کی وفات کا بہت صدمہ لیا اور فرزند کی رحلت کے بعد خود بھی صاحب فراش ہوگئے۔ جواں فرزند کی یاد میں اپنے گھر کو امامبارگاہ میں تبدیل کردیا اور اس کا نام بھی اپنے بیٹے کے نام پر حسینیہ باقریہ رکھا جو آج بھی باپ اور بیٹے کی یادگار بنا ہوا ہے۔
آخر کار یہ علم و فضل کا آفتاب 18/ ذی الحجہ 1417ہجری میں سرزمین لکھنؤ پر غروب ہوگیا علماء ، افاضل، طلاب، مؤمنین کا مجمع آپ کے شریعت کدہ پر اومنڈ پڑا اور نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ حسینیہ غفرانمآب میں سپرد لحد کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔