۱۳ آذر ۱۴۰۳ |۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 3, 2024
آیۃ اللہ سیدمحمد باقر لکھنؤی اعلیٰ اللہ مقامہ

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | باقر العلوم آیۃ اللہ سید محمد باقر رضوی شب جمعہ7/ صفر المظفر 1286 ہجری شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد آیت اللہ سید محمد ابو الحسن اور جد پدری آیت اللہ سید علی شاہ کشمیری لکھنوی تھے -

باقر العلوم کے جد مادری ممتاز العلماء سید محمد تقی صاحب تھے - اس لئے آپ کی ولادت بر صغیر کے دو بڑے خاندانوں کی خوشی کا باعث بنی-

باقر العلوم نے ابتدائی زندگی اپنے والد کے زیر سایہ گذاری ، اسکے بعد ادب، ریاضیات، ہیئت،منطق و فلسفہ ، کلام ، ابتدائی فقہ و اصول ،درایت و حدیث اور تفسیر کی تعلیم استاد ریاضیات و معقولات مولانا شیخ تفضل حسین فتح پوری اور منقولات مولانا سید حیدر علی لکھنوی سے حاصل کی،کچھ ہی عرصہ میں تمام مقدمات میں کمال حاصل ہو گیا اسکے بعد تکمیل فقہ واصول کیلۓ اپنے والد علام کے سامنے زانوۓ ادب تہہ کیا اور 15 سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ اجتہاد کی تائید آپ کے والد ماجد نے بعض اکابرعلماء سےاس انداز میں کی "الحمد للہ سید محمد باقر سلمہ درجہ اجتہاد پر فائز ہیں"۔

1301 ھ میں آیت اللہ سید محمد ابراہیم کی دختر نیک اختر سے عقد مسنون ہوا-

باقر العلوم سنہ 1302 ہجری میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ نجف اشرف تشریف لے گئے ،عام طور سے جو طلاب عراق جاتے تھے وہ پہلے سطحی دروس میں شریک ہوتے تھے پھر ان کو درس خارج کی اجازت ملتی تھی مگر باقر العلوم کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ کو جاتے ہی درس خارج میں شرکت کی اجازت مل گئ ، کیونکہ آپ نجف اشرف جانے سے پہلے ہی عربی ادب، فقہ، اصول، فلسفہ، منطق، حدیث، تفسیر اور درایت پرکامل تسلط رکھتے تھےاور درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔

آپ نے اپنے والد علام آیۃ اللہ سید ابوالحسن رضوی ، آیت اللہ شیخ مرزا حبیب اللہ رشتی ، ، ، آیۃ اللہ شیخ محمد کاظم خراسانی ، آیۃ اللہ مرزا حسین خلیلی تہرانی ، آیۃ اللہ سید محمد کاظم یزدی ، آیۃ اللہ فتح اللہ اصفہانی ، آیۃ اللہ شیخ میرزا حسین ، اور آیۃ اللہ محمد حسین شہرستانی سے کسب فیض کیا۔

انکے علاوہ باقر العلوم کے اساتذہ میں آیت اللہ میرزائے شیرازی اور آیت اللہ شیخ محمد حسن مامقانی کے اسماء بھی سر فہرست ہیں۔

آپ نے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تقریبا 11 / سال فقہاء و مجتہدین کے درس خارج میں شرکت کی اور ان سے سند اجتہاد و روایت حاصل کرکے 1316ھ میں لکھنؤ واپس آۓ۔

آیۃ اللہ باقر العلوم جب لکھنؤ آئے تو آپ کے والد کے مقلدین نے آپ کی جانب رجوع کیا، بر صغیر کے علاوہ افریقہ یوروپ تک آپ کے مقلدین پھیلے ہوۓ تھے ،1313 ھ میں آپ کے والد علام "آیت اللہ ابو الحسن ابو صاحب "نے رحلت فرمائی ، انکے انتقال کے بعد آپ انکے وصی اور جانشین مقرر ہوئےآپ ہندوستان کی مشہور و معروف درس گاہ مدرسہ سلطان المدارس میں مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔ آپ کے علم اور زہد و تقویٰ کی شہرت ہوئی تو پورے برصغیر سے علوم آل محمد علیہم السلام کے مشتاق افراد کا لکھنو آنے کا سلسلہ جاری ہو گیا۔

بر صغیر میں درس خارج کا رواج نہیں تھا ؛ سطحی تعلیم کے بعد اگر کسی کو درس خارج میں شرکت کا ارادہ ہوتا تو عراق کا رخ کرتا تھا باقر العلوم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے مدرسہ سلطان المدارس میں درس خارج دینا شروع کیا ،جس میں ہادی الملت سید محمد ہادی صاحب مرحوم کے چھوٹے بھائی شمس العلماء سید سبط حسن اور عمدۃ المحققین سید عالم حسین شرکت کرتے تھے-

موصوف نے بہت زیادہ طلاب کو زیور علم وادب سے آراستہ کیا جن میں سے: مولانا سید شبیر حسن (سابق استاد وثیقہ عربی کالج فیض آباد) مفتی اعظم آیۃ اللہ سید احمد علی موسوی ، ظفرالملت آیۃ اللہ سید ظفرالحسن ، آیۃ اللہ سید راحت حسین گوپالپوری ، آیۃ اللہ سید سبط حسن نقوی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

باقر العلوم نے طلاب کو دروس دینے کے لئے کربلائے معلیٰ میں مدرسہ ایمانیہ کی بنیاد رکھی جس میں آیت اللہ العظمیٰ سید شھاب الدین مرعشی نجفی نے بھی آپ سے کسب فیض کیا ، باقر العلوم علم و عمل زہدو ورع کے مرقع تھے جس کے سبب اپنے تو اپنے ہندو بھی متاثر ہوتے تھے -
باقر العلوم انتہائی درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے ، ایک مرتبہ وعظ فرما رہے تھے کہ کسی نے آپ کی وعظ سے متاثر ہو کر کہا " کیا عالمانہ بیان ہے۔" یہ سنتے ہی آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو گیا اور فرمایا: عالم صرف اہلبیت علیہم السلام ہیں۔

درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور مدرسہ سلطان المدارس کے انتظامی امور کی مصروفیات کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ آپ کی ہر تالیف اپنی مثال آپ ہے جن میں سے : الافادات الباقریہ، مجالس باقریہ، منہج الیقین و صحیفۃ المتقین، المواعظ الباقریہ، صوب الدیم النوافث، القول المصون فی فسخ نکاح المجنون، وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں ، اسکے علاوہ آپ کی کچھ اور بھی کتابیں تھیں جو مفقود ہو گئیں۔

باقر العلوم عربی، فارسی اور اردو کےعظیم شاعر تھے،مولانا عالم حسین صاحب نے آپ کے اشعار کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ بتائی ہے، ایک مرتبہ مدرسہ کے استاد علامہ سبط حسن صاحب نے طبیعت کے ناساز ہونے کےسبب چھٹی کی درخواست منظوم عربی زبان میں بھیجی تو آپ نے منظوم عربی میں ہی درخواست کی منظوری تحریر فرمائی۔

آپ ایک ادیب ،شاعر ، متکلم ، فقیہ اور اصولی کے ساتھ ساتھ زبردست عابد وزاہد بھی تھے ، مولانا سید مرتضیٰ حسین مطلع انوار میں لکھتے ہیں "آپ کو امام حسین اور کربلاء سے خاص عشق تھا ، متعدد مرتبہ زیارت سے مشرف ہوئے اور 1346ھ میں آخری سفر تو یوں کیا جیسے خاص طور سے طلب کا حکم آیا ہو مجھے ان کے ایک رفیق سفر نے بتایا کہ جناب کی کرامات اور جذبہ و خلوص کے جو حالات میں نے سفر میں دیکھے ان سے معلوم ہوا کہ لکھنؤ میں ان کے بارے میں جو واقعات مشہور ہیں وہ یکے از ہزار ہیں"

آپ کی مشہور کرامات میں سے اہلسنت عالم کے سامنے عریضے کا گلاس سے غائب ہونا ، نماز کی ادائیگی اور ٹرین کا نہ چلنا ،(جس پر انگریز گارڈ نے کہا کاش یہ ہماری قوم میں ہوتے)،انتقال کے وقت کا علم ہونا اور ایک صاحب کو انگوٹھی دینا جو 16 شعبان کو چٹخ گئی،سامراء میں ضریح اقدس سے برآمد ہونا وغیرہ ہیں -
اللہ نے آپ کو تین بیٹے عطا کیے جن کے اسماء گرامی اسطرح ہیں: آیۃ اللہ سید محمد رضوی ، آیۃ اللہ سید علی رضوی ، مولانا سید رضی رضوی اس وقت آپ کی نسل فقط آپ کے فرزند مولانا سید علی رضوی سے باقی ہے ۔

آخر کار یہ علم و عمل کا آفتاب 16/شعبان المعظم 1346 ہجری بروز جمعرات صبح دس بجےدن کربلائے معلٰی میں غروب ہو گیا، حرم کے مناروں سے انتقال کی خبر سنائی گئی ،باقر العلوم کے ہمدرس مرجع عالی قدر آیۃ اللہ سید ابوالحسن اصفہانی نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں تقریباً پانچ ہزار لوگوں نے شرکت کی اور کربلائے معلیٰ امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں قتل گاہ کے قریب باب زینبیہ بائیں طرف سے تیسرا ہجرہ اپنے والد علام کے پاس سپرد خاک کردیا گیا اور تین دن تک فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری رہا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص159 ، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء۔


لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .