۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
باقر العلوم آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر رضوی اعلیٰ اللہ مقامہ

حوزہ/ 16 شعبان المعظم 1346 ہجری بروز جمعرات صبح دس بجے یہ آفتاب علم و عمل کربلائے معلی میں غروب ہو گیا۔ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں قتل گاہ کے قریب دفن ہوئے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر رضوی اعلیٰ اللہ مقامہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے روز ولادت 7 صفر المظفر 1286 ہجری کو وزیر گنج لکھنو میں پیدا ہوئے۔ دادیہال اور نانیہال دونوں اعتبار سے آپ کا تعلق بر صغیر بلکہ عالم تشیع کے مشہور و معروف دینی اور علمی خانوادہ سے ہے۔ آپ کے دادا آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، والد ماجد فقیہ احسن نادرۃ الزمن آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو رحمۃ اللہ علیہ تھے اور آپ کے نانا آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے جنت مآب آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد تقی نقوی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
سرکار باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ اسکے بعد فقہ و اصول کی مقدماتی تعلیم فقیہ اعظم مفتی سید محمد عباس موسوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردان رشید محقق کامل مولانا شیخ تفضل حسین طاب ثراہ فتح پوری اور عالم جلیل مولانا سید حیدر علی طاب ثراہ سے حاصل کی اور اپنے والد ماجد کے درس میں شامل ہوئے اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ جیسا کہ آپ کے والد ماجد نے بعض اکابرین سے فرمایا تھا کہ "الحمد للہ سید محمد باقر سلمہ درجہ اجتہاد پر فائز ہیں۔"
درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اکثر اسلامی علوم عربی ادب، فقہ، اصول، فلسفہ، منطق، حدیث، تفسیر اور درایت میں کامل تسلط کے باوجود جب تک نجف اشرف جا کر باب مدینۃ العلم کی بارگاہ میں کسب فیض نہیں کیا تب تک کسی کو اپنی تقلید کی اجازت نہیں دی۔
1302 ہجری میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ نجف اشرف تشریف لے گئے لیکن عام طلاب کے برخلاف اپنی علمی استعداد کے سبب ابتدائی دروس کے بجائے درس خارج میں شرکت کی۔

سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ
1۔ والد ماجد آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف آغا ابّو صاحب رحمۃ اللہ علیہ
2۔ محقق کامل مولانا شیخ تفضل حسین فتح پوری طاب ثراہ
3۔ عالم جلیل مولانا سید حیدر علی لکھنوی طاب ثراہ
4۔ صاحب کفایۃ الاصول آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد کاظم خراسانی المعروف بہ آخوند خراسانی رحمۃ اللہ علیہ
5۔ آیۃ اللہ العظمیٰ مرزا خلیل تہرانی رحمۃ اللہ علیہ
6۔ صاحب (کتاب) عروۃ الوسقیٰ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی رحمۃ اللہ علیہ
7۔ آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ شریعت فتح اللہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ
8۔ صاحب مستدرک الوسایل آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ میرزا حسین بن محمد تقی بن علی محمد نوری طبرسی المعروف بہ محدث نوری رحمۃ اللہ علیہ
9۔ آیۃ اللہ العظمیٰ محمد حسین شهرستانی رحمۃ اللہ علیہ
حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تقریبا 11 برس مذکورہ فقہاء و مجتہدین کے درس خارج میں شرکت کی اور ان سے سند اجتہاد حاصل کی۔ نجف اشرف میں قیام کے دوران ہی آپ کے والد ماجد نے 1312 ہجری کو کربلائے معلی میں رحلت فرمائی اور امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہوئے۔
سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ جب لکھنو آئے تو آپ کے والد کے مقلدین نے آپ کی جانب رجوع کیا۔ نیز ملک کی مشہور شیعہ دینی درس گاہ سلطان المدارس جو آپ کے والد مرحوم کی یادگار ہے اس کے مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔ آپ کے علم، زہد و تقویٰ کی شہرت ہوئی تو پورے ملک (ہند و پاک) سے علوم آل محمد علیہم السلام کے مشتاقان کا لکھنو آنے کا سلسلہ جاری ہو گیا۔

شاگرد:

آپ کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے سلطان المدارس میں آپ کی 30 سالہ دور تدریس میں کسب فیض کیا جو اپنے زمانے کے جید علماء میں شمار ہوتے تھے۔ ذیل میں ان میں سے چند کے اسمائے گرامی ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ حجۃ الاسلام و المسلمین سید شبیر حسین طاب ثراہ (سابق استاد وثیقہ عربی کالج فیض آباد)
2۔ سرکار مفتی اعظم آیۃ اللہ سید احمد علی موسوی رحمۃ اللہ علیہ
3۔ سرکار ظفرالملت آیۃ اللہ سید ظفرالحسن رحمۃ اللہ علیہ
4۔ آیۃ اللہ سید راحت حسین گوپالپوری رحمۃ اللہ علیہ
5۔ شمس العلماء آیۃ اللہ سید سبط حسن نقوی رحمۃ اللہ علیہ
6۔ سید المتکلمین حجۃ الاسلام مولانا سید محمد رضا طاب ثراہ
7۔ عمدۃ المحققین مولانا سید عالم حسین طاب ثراہ (سابق استاد سلطان المدارس لکھنو)
8۔ عمدۃ العلماء مولانا سید کلب حسین نقوی طاب ثراہ (کبن صاحب)
9۔ سید العلماء مولانا سید علی نقی نقوی رحمۃ اللہ علیہ (نقن صاحب)
10۔ سرکار شریعت مولانا سید وصی محمد صاحب طاب ثراہ
11۔ استاد الفقہاء آیۃ اللہ سید محمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ (فرزند سرکار باقر العلوم رہ)
12۔ مولانا ڈاکٹر سید مجتبیٰ حسن صاحب کامونپوری۔
13۔ نادرۃ الزمن مولانا سید ابن حسن صاحب نونہروی طاب ثراہ
13۔ حجۃ الاسلام مولانا زین العابدین طاب ثراہ (ملتان)
14۔ حجۃ الاسلام مولانا سید حیدر حسین نکہت صاحب طاب ثراہ (صدر الافاضل)
15۔ حجۃ الاسلام مولانا محسن نواب صاحب طاب ثراہ
16۔ حجۃ الاسلام مولانا سید نجم الحسن رضوی کراروی طاب ثراہ
مذکورہ اسمائے گرامی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب شاگردان ایسے جید علماء تھے تو استاد کس منزل پر ہوں گے۔ خدا رحمت نازل فرماے۔

سلطان المدارس :

ملت جعفریہ کا عظیم سرمایہ سلطان المدارس ہے۔ آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابو رحمۃ اللہ علیہ نے 1892 عیسوی میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھی اور تا حیات اس کی بقاء اور ارتقاء کے لئے کوشاں رہے۔ بانی مدرسہ کی رحلت کے بعد آپ کے فرزند سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ اس کے مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔انہوں نے بھی اپنے والد مرحوم کی طرح طلاب کی تعلیم و تربیت کے علاوہ مدرسہ کو نمایاں ترقی دی۔
1892 عیسوی سے 1911 عیسوی تک تقریبا بیس برس مدرسہ سلطان المدارس کی اپنی کوئی عمارت نہیں تھی۔ ابتداء میں گول دروازہ چوک کے قریب کرائے کے مکانات میں، اس کے بعد آصفی مسجد کے حجروں میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا۔ سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے نمایاں کارناموں میں سے ایک میڈکل کالج کے سامنے مدرسہ سلطان المدارس کی ذاتی عمارت ہے جسمیں آج بھی مدرسہ قائم ہے۔
اسی طرح آپ نے کربلائے معلی عراق میں مدرسہ ایمانیہ کی بنیاد رکھی۔ اسی مدرسہ میں مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تعلیم حاصل کی۔
اسی طرح آپ نے دوران سفر مشہد مقدس میں بھی ایک مدرسہ اور حسینیہ کی بنیاد رکھی۔

تحریک تعمیر و تجدید مساجد

سرکار باقر العلوم رہ نے مساجد کی تعمیر و تجدید کی تحریک چلائی تا کہ مساجد آباد ہوں اور انمیں نماز جماعت کا سلسلہ جاری ہو۔ آپ نے بہت سی مساجد کی تجدید فرمائی۔ اسی طرح بہت سی مساجد آپ کے ذریعہ تعمیر ہوئیں جنمیں ردولی کے حسینیہ ارشاد حسین مرحوم کی مسجد آپ ہی کے حکم پر تعمیر ہوئی اور اس کا سنگ بنیاد 1925 عیسوی میں آپ ہی کے دست مبارک سے رکھا گیا۔

حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے رابطہ

سرکار باقرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے مولا و آقا حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے خاص لگاو تھا۔ ظاہر ہے امام معصوم سے رابطہ یقین، ایمان و عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنی زندگی معصومین علیہم السلام کی سیرت و احادیث کی روشنی میں بسر کرے۔ اس کے سیرت و کردار سے معصومین علیہم السلام کے سیرت و کردار کی خوشبو آئے۔ سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا اخلاص، زہد و تقویٰ اس منزل پر تھا کہ آپ کو دیکھ کر لوگوں کو اہلبیت علیہم السلام کی یاد آتی تھی۔ آپ انتہائی درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے کہ ایک بار ناظم صاحب کے امام باڑے میں وعظ فرما رہے تھے کہ کسی سامع نے متاثر ہو کر کہا "کیا عالمانہ بیان ہے۔" کوئی اور ہوتا تو خوش ہو جاتا لیکن یہ سنتے ہی آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو گیا اور فرمایا: عالم صرف اہلبیت علیہم السلام ہیں۔
ظاہر ہے ایک فقیہ اعظم کا بیان اقوال معصومین علیہم السلام کا ائینہ دار ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں کی تین قسمیں ہیں۔ علماء، متعلمین اور غثاء (یعنی جو ہر ہوا پر حرکت کرے اور ہر آواز کے پیچھے چل پڑے) ہم (آل محمد علیہم السلام) علماء ہیں، ہمارے شیعہ متعلم ہیں اور باقی لوگ غثاء ہیں۔
اسی طرح منقول ہے کہ ایک بار اہل سنت کے کچھ علماء سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے شریعت کدہ پر حاضر ہوئے، سلام و احوال پرسی کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ آپ شیعوں کے یہاں جو امام مہدی علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا جاتا ہے کافی مضحکہ خیز ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دریا میں عریضہ ڈالا جائے اور وہ ان تک پہنچ جائے۔ مچھلیاں کھا لیتی ہوں گی یا پانی میں گل جاتا ہوگا۔ آپ نے حکم دیا کہ شیشہ کے برتن میں پانی لایا جائے۔ جب وہ لایا گیا تو آپ نے ان لوگوں کے سامنے عریضہ لکھا اور شیشہ میں موجود پانی کے سپرد کر دیا اور مہمانوں سے محو گفتگو ہو گئے تھوڑی دیر بعد مہمانوں سے کہا کہ ابھی آپ کے سامنے ہی میں نے عریضہ لکھ کر اپنے مولا کی خدمت میں بھیجا۔ یہ برتن اور پانی آپ کے سامنے ہے بتائیے میرا عریضہ کہاں ہے؟ اب جو سب نے غور سے پانی میں دیکھا تو عریضہ کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اعتراض کرنے والے شرمندہ ہوئے۔ اس واقعہ میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے اگر آپ چاہتے تو عریضہ کے سلسلہ میں زبانی عقلی اور نقلی دلیلیں دے سکتے تھے لیکن آپ نے عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کے بعد مشاہدہ کرنے والوں کے دل میں انکار تو بڑی بات شک بھی نہ پیدا ہو۔ لیکن یہ عملی نمونہ وہی پیش کر سکتا تھا اور پیش کر سکتا ہے جو نہ صرف زبان بلکہ اپنے عمل سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے نزدیک ہو اور مستقل اپنے امام سے رابطے میں ہو۔
منقول ہے کہ کثرت مطالعہ کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کا سینہ زخمی ہو گیا تھا اور مستقل درد رہتا تھا لیکن یہ درد آپ کو مطالعہ سے نہ روک سکا۔ آخر ایک دن امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا کرم ہوا اور درد کافور ہو گیا۔

رشحات قلم
درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور مدرسہ سلطان المدارس کے جیسے دیگر انتظامی امور میں مصروفیات کے سبب سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کو تصنیف و تالیف کے لئے وقت نکال پانا مشکل تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ آپ کی ہر تالیف اپنی مثال آپ ہے جنمیں سے چند کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
الافادات الباقریہ، مجالس باقریہ، منہج الیقین و صحیفۃ المتقین، المواعظ الباقریہ، صوب الدیم النوافث، القول المصون فی فسخ نکاح المجنون، اجوبۃ المسائل (شرعی سوالات کے جوابات)، اجوبۃ المسائل (فتاویٰ)، الروضۃ الغناء فی عدم جواز استماع الغناء ، سوال و جواب، اسداء الرغایب بکشف الحجاب عن وجہ السنۃ والکتاب، تصحیح الاعمال، رسالہ صومیہ اور شہادت ولایت وغیرہ۔ اسکے علاوہ آپ کی کچھ کتابیں مفقود بھی ہو گئیں ہیں۔
سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ عظیم شاعر بھی تھے۔ آپ نے عربی زبان میں اشعار کہے ہیں۔ منقول ہے کہ سلطان المدارس لکھنو کے سابق استاد علامہ سبط حسن صاحب طاب ثراہ نے ایک دن ناساز طبیعت کے سبب چھٹی کی درخواست بھیجی جو منظوم عربی زبان میں تھی۔ سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ نے منظوم عربی میں ہی درخواست کی منظوری تحریر فرمائی۔

اولاد
اللہ نے آپ کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کی۔
1۔ استاد الفقہاء آیۃ اللہ سید محمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ (سابق پرنسپل سلطان المدارس لکھنو)
2۔ حافظ نہج البلاغہ، مفسر صحیفہ سجادیہ آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ (سابق پرنسپل سلطان المدارس لکھنو)
3۔ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید رضی رضوی طاب ثراہ
4۔ بڑی بیٹی آیۃ اللہ العظمیٰ سید حسن رحمۃ اللہ علیہ (ساکن کربلائے معلی عراق) کی زوجہ تھیں۔
5۔ منجھلی بیٹی آیۃ اللہ سید حسین رحمۃ اللہ علیہ کی زوجہ تھیں۔
6۔ چھوٹی بیٹی آقائے شریعت حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید کلب عابد نقوی طاب ثراہ کی زوجہ اور آفتاب شریعت مولانا سید کلب جواد نقوی صاحب قبلہ امام جمعہ لکھنو کی والدہ گرامی تھیں۔

غروب آفتاب
16 شعبان المعظم 1346 ہجری بروز جمعرات صبح دس بجے یہ آفتاب علم و عمل کربلائے معلی میں غروب ہو گیا۔ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں قتل گاہ کے قریب دفن ہوئے۔

(ڈاکٹر محمد جعفر صاحب کی تحریر اور آل باقرالعلوم مولانا سید حیدر عباس رضوی صاحب قبلہ کے بیان سے ماخوذ)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .