۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
مولانا عروج علی

حوزہ/ حضرت عبّاس علیہ السلام کی ولادت درسِ وفا دیتی ہے یہ تو معلوم ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام نے اس بات کی تمنّا فرمائی کہ ایسا فرزند عالم و قوع میں آئے جو نہایت ہی جری اور بہادر ہو مگر یہ نہ واضح ہوا کہ آپ نے اس بات کی تمنّا کیوں فرمائی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مظفّر نگر تسہ سادات میں عشرہ ثانی کی آٹھویں مجلس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید عروج علی نے کہا کہ حضرت عبّاس علیہ السلام کی ولادت درسِ وفا دیتی ہے یہ تو معلوم ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام نے اس بات کی تمنّا فرمائی کہ ایسا فرزند عالم و قوع میں آئے جو نہایت ہی جری اور بہادر ہو مگر یہ نہ واضح ہوا کہ آپ نے اس بات کی تمنّا کیوں فرمائی۔

مولانا نے کہا دراصل اس کا راز یہ تھا کہ حضرت علی علیہ السّلام بعلم امامت اور ارشاد جناب سرور کائنات ان جملہ واقعات ہالہ سے واقف تھے جو سرزمین کربلا پر ہونے والے تھے۔

مولانا نے مزید کہا کہ چاہنے والے باپ کا یہ فریضہ تھا کہ اپنے چاہتے بیٹے کے لیے اس قیامت خیز موقع کا کوئی نہ کوئی سامان ضرور کر دیتے اسی لیے آپ نے اس بات کی تمنّا فرمائی کہ خدا ایسا فرزند عطا کرے جو اس ہولناک جگہ پر کام آئے اور میرے فرزند امام حسین کی اسی طرح ساتھ دے کہ جیسے میں رسول اللہ کا ہر وقت ساتھ دیتا تھا، مولا عباس علیہ السلام کو حسین سے وہی نسبت ہو جو مجھ کو جناب سرور کائنات سے تھی وہ حسین کا اسی طرح فدائی ہو جیسے میں رسول االلہ کا جانثار ہوں وہ بھی ہمیشہ اپنے آقا کی پیروی کرے جیسے میں انا عبد من عبید محمد، کا کلمہ پڑھتا ہوں جس طرح جناب محمد مصطفیٰ صلی االلہ علیہ وسلم کو مجھ پر وسق تھا ویسے ہی امام حسین کو اس پر اعتماد کامل ہو جس طرح میں رسول االلہ کے پسینے کی جگہ خون بہانہ آسان سمجھتا رہا اسی طرح وہ بھی حسین کہ ہمراہ اپنے خون جگر سے مدد کرنے والا ہو۔

مولانا نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جس يقیں کے ساتھ مولا علی نے اللہ سے حضرت عبّاس کو مانگا تھا اسی پر حضرت عبّاس نے محکم ثبوت پیش کیا اور زندگی بھر حضرت امام حسین کی اطاعت کرتے رہے۔ آپ نے مزید بیان کرتے ہوئے حضرت عباس کے متعلق صادق آلِ محمد کا بصیرت افروز ارشاد بیان کیا کہ ہمارے چھٹے امام حضرت امام صادق علیہ السلام مقام مدح حضرت عباس میں فرماتے ہیں کہ چچا عبّاس بن علی علیہ السلام نہایت مستقل مزاج اور بڑے سوجھ بوجھ کے کامل انسان تھے جو امر معقول ہوتا تھا اس کے کر گزرنے میں۔ ایک پل کی بھی تاخیر نہ ہونے دیتے تھے اور ایمان کے آخری منازل پر فائز تھے۔

حضرت عباس علیہ السلام کی فضیلتِ بیان کرتے ہوئے مولانا نے آخر مجلس میں غازی عبّاس اور بالی سکینہ کے مصائب پڑھے اور عزاداروں نے امام زمانہ کو انکے جد امجد کا پرسا پیش کیا اور حضرت عباس کا تابوت و علم برآمد کیا مجلس کے بعد انجمن عباسیہ نے نوحہ خوانی و سینا زنی کی۔اس عظیم الشان مجلس کی نظامت نامہ نگار عطش کربلائی نے کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .