حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو/ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت پر جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب میں آن لائن جلسہ سیرت منعقد ہوا۔
مولانا محمد عباس معروفی صاحب مبلغ و استاد جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم سے جلسہ سیرت کا آغاز کیا۔
مولانا سید منہال حیدر زیدی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے امام زین العابدین علیہ السلام کی مشہور دعا دعائے مکارم اخلاق کا فقرہ ’’خدایا! جب تک میری زندگی تیری اطاعت میں بسر ہو زندہ رکھنا لیکن جب میری زندگی شیطان کی چراگاہ بن جائے تو میری روح قبض کر لینا۔ ‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ کربلا کے بعد اس ہولناک موحول میں بھی امام زین العابدین علیہ السلام نے دین کی تبلیغ اور پاسبانی فرمائی۔دشمن نے اسلامی تعلیمات کے مخالف نظریات پیش کئے ، شبھات ایجاد کئے جنکا امام عالی مقام نے مقابلہ کیا اور قانع کنندہ جواب دیا۔
مولانا سید علی ہاشم عابدی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے امام زین العابدین علیہ السلام کے خطبہ کے ابتدائی فقروں ’’ائے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا کی گئی ہیں اور سات فضلتیں دی گئی ہیں۔ علم ، حلم، بزرگواری، فصاحت، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا کی ہے۔ ہمیں فضیلت دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہیں، صدیق ( حضرت امیرالمومنین علیہ السلام) ہم میں سے ہیں، طیار (جناب جعفر طیار علیہ السلام) ہم میں سے ہیں، اللہ و رسولؐ کے شیر (حضرت حمزہ علیہ السلام) ہم میں سے ہیں، اس امت کے دو سبط (امامین حسنین کریمین علیہماالسلام) ہم میں سے ہیں اور اس امت کے مہدی (حضرت امام زمانہ علیہ السلام ) ہم میں سے ہیں۔ ‘‘کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ جب یزید کے حکم پر اس کے درباری مقرر نے اہلبیت علیہم السلام کی شان میں گستاخی کی تو اگرچہ دربار یزید کا تھا، افراد اس کے تھے لیکن اس کے باوجود امام زین العابدین علیہ السلام نے شجاعت سے فرمایا : ائے خاطب تجھ پر وائے ہو تو نے مخلوق کی خوشنودی کی خاطر اللہ کو غضبناک کیا ۔ تیرا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اس کے بعد یزید کو مخاطب کر کے فرمایا:’’ ائے یزید کیا میں اس لکڑی پر جاوں تا کہ وہ کلام کروں جو اللہ کی خوشنودی اور لوگوں کی معرفت کا سبب ہو۔ ‘‘ امام سجاد علیہ السلام نے اس جملہ سے رہتی دنیا تک خطباء کو پیغام دے دیا کہ دو باتیں ہمیشہ پیش نظر رہیں ایک خوشنودی خدا دوسرے لوگوں کی معرفت۔
مولانا سید منور حسین رضوی صاحب انچارج جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ کربلا کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کا دستور تھا کہ آپ غلام خریدتے اور عید کے دن انہیں آزاد کرتے تھے۔ انکی ایسی تربیت کرتےکہ وہ آزادی کے بعد دین کے مبلغ بنتے۔ نیز آپ مدینہ منورہ کے چار سو گھرانہ کی کفالت فرماتے کہ ان میں سے اکثر کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ انکا مسیحا کون ہے جب آپ کی شہادت واقع ہوئی اور امداد کا سلسلہ بند ہوا تو انہیں پتہ چلا کہ امداد کرنے والے امام زین العابدین علیہ السلام تھے۔
مولانا سید ممتاز جعفر نقوی صاحب مربی اعلیٰ جامعہ امامیہ نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا: عبادت انسان کا مقصد خلقت اور اولیائے خدا کا خاصہ رہا ہے ۔ انبیاء و ائمہ علیہم السلام کی پوری زندگی اللہ کی فرمانبرداری میں بسر ہوئی وہ اللہ کے عبادت گذار بندے تھے ۔ امام عالی مقام کا مشہور لقب زین العابدین اورسید الساجدین ہے یعنی آپ عبادت گذاروں کی
زینت اور سجدہ کرنے والوں کے سردار ہیں۔ اسی طرح دوسروں کی مدد بھی آپ کے اوصاف حمیدہ میں شامل ہے واقعہ حرہ کے موقع پر آپ نے اپنے دیرینہ دشمن جو نہ صرف خاندانی دشمن تھا بلکہ دین کا بھی دشمن تھا اس کی مدد کی اور آبرو کو تحفظ بخشا۔ ایسے ہولناک موحول میںکہ جب سب اہلبیت علیہم السلام سے دور تھے اور کوئی انکی بات سننے والا نہیں تھا امام سجاد علیہ السلام نے دعا اور مناجات کے ذریعہ بشریت کی کامیابی کا نصاب معین کیا۔