حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنو/ ۲۸ ؍ رجب المرجب آغاز قیام حسین علیہ السلام کی مناسبت سے جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب میں آن لائن جلسہ سیرت منعقد ہوا۔
جلسہ کا آغاز مولوی سید میثم رضا موسوی متعلم جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم سے کیا، مولوی سید ظفر عباس فاضل جامعہ امامیہ ، مولوی سید صفدر عباس فاضل جامعہ امامیہ اور مولانا سید علی مہذب خرد نقوی صاحب نے بارگاہ مظلوم کربلا میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
’’مقصد قیام، امام حسینؑ کے ارشادات کی روشنی میں‘‘ کے عنوان پر مولانا محمد رضا صاحب مبلغ جامعہ امامیہ نے مقالہ پیش کیا ، مولوی قمرالحسن فاضل جامعہ امامیہ اور مولوی سید نثار حسین فاضل جامعہ امامیہ نے تقریر کی۔
مولانا سید فیض عباس صاحب نے سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت ۱۶۹ ’’جو لوگ راہ خدا میں قتل کر دئیے گئے انکو ہرگز مردہ تصور نہ کرنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں۔‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ کی سنت کو ترک کیا گیا اور بدعتوں کو رواج دیا گیا ، ان بدعتوں میں پہلی بدعت انکار غدیر اور انعقاد سقیفہ ہے، اسی کے ساتھ ساتھ اہل بیتؑ پر معیشتی پابندی لگانے کے لئے فدک کو غصب کیا گیا، اسی طرح اس ۵۰ ؍ برس میں بہت سی بدعتوں نے جنم لیا، سماج کی اصلاح کے لئے ضروری تھا کہ ان بدعتوں کو ختم کیا جائے لہذا امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا ، بدعتوں کا خاتمہ امام حسین ؑ کے قیام کے اہم مقاصد میں شامل ہے۔
مولانا سید علی ہاشم عابدی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ ۲۸ ؍ رجب ۶۰ ھ کو اس عظیم قیام کا آغاز ہوا جس نے نہ صرف اسلام بلکہ انسانی اقدار کو تحفظ بخشا ، جس میں قرآن وسنت پر عمل کرتے ہوئے جاہلیت کی رسموں اور تعصبات کو ختم کیا گیا، نیکیوں کا حکم دیا گیا، برائیوں سے روکا گیا، کربلا میں جو بھی لشکر حسینی میں شامل ہوا تو اس کو بھی وہی مرتبہ ملا جو اہل حرم کا مرتبہ تھا، امام حسین علیہ السلام نے جو محبت اپنے بیٹے جناب علی اکبر ؑ سے فرمائی وہی محبت جناب جون ؑ کے بھی شامل حال ہوئی، اور یہاں قرآنی آیت ’’تم میں کرامت والا وہی ہے جو صاحب تقویٰ ہے۔‘‘ کو جلا ملی۔
مولانا سید تہذیب الحسن رضوی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے امام حسین علیہ السلام کی حدیث ’’مجھے میرے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا ہے اور میں اسے نافذ کرنا چاہتا ہوں ‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ ہماری زندگی کا محور ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت ہی ہونا چاہئیے، جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے امام حسن ؑ اور امام حسینؑ کو وصیت فرمائی کہ کبھی بھی توحید اور سنت رسولؐ سے دور نہ ہونا۔ اور جب مامون نے امام علی رضاؑ سے نماز عید پڑھانے کی گذارش کی تو آپؑ نے فرمایا ’’میں اسی طرح نماز پڑھاوں گا جس طرح میرے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازقائم کرتے تھے۔ ‘‘ کیوں کہ سماج کی اصلاح قرآن و سنت کے بغیر ممکن نہیں لہذا امام حسین ؑ نے فرمایا ’’میں نانا رسولؐ خدا اور بابا علی مرتضیٰ ؑکی سنت و سیرت کو زندہ کروں گا۔ ‘‘