۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب

حوزہ/ استقبال ماہ عزا کی مناسبت سے جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب میں بعنوان ’’عزاداری اور ہماری ذمہ داری‘‘ دو روزہ ویبنار کا انعقاد کیاگیا جسکی آخری دو نشستیں آج ’’یوم نزول سورہ انسان‘‘  (۲۵ ؍ ذی الحجہ)منعقد ہوئیں۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،استقبال ماہ عزا کی مناسبت سے جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب میں بعنوان ’’عزاداری اور ہماری ذمہ داری‘‘ دو روزہ ویبنار کا انعقاد کیاگیا جسکی آخری دو نشستیں آج ’’یوم نزول سورہ انسان‘‘  (۲۵ ؍ ذی الحجہ)منعقد ہوئیں۔ 

مولانا سید صفدر عباس صاحب فاضل جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم سے جلسہ کا آغاز کیا۔ 

مولانا سید محمد فہیم رضوی مبلغ جامعہ امامیہ اور جناب سیف عباس صاحب نے بارگاہ اہلبیتؑ میں منظوم نذارانہ عقیدت پیش کیا۔ 

مولانا محمد عباس معروفی صاحب مبلغ و استاد جامعہ امامیہ نے قرآن کریم کے سورہ مبارکہ توبہ کی ۱۲۹ نمبر آیت ’’ائے اہل ایمان ! تقویٰ اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے میدان منیٰ میں جو تاریخی خطبہ دیا اسمیں حکومت کے مظالم، امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل، امربالمعروف و نہی عن المنکر اور علماء کو انکی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ کیا۔ 

مولانا سید علی مہذب خرد نقوی صاحب مبلغ جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے عظیم پیغام میں رہتی دنیا کو شعور و بصیرت اور حریت کا وہ عظیم درس دیا جو رہتی دنیا تک بشریت کو دینداری اور راہ حریت کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ 

مولانا سید محمد علی عابدی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ عزادری رسم ورواج نہیں ہے بلکہ عزاداری کو موثر اور با مقصد ہونا چاہئیے۔ لہذا ضروری ہے کہ بیان میں معتبر روایات ہی محور ہو۔جیسے جناب ام البنین سلام اللہ علیہا کی عزاداری سے ظالم و جابر بھی متاثر ہوا۔ 

مولانا سید نقی عسکری صاحب رکن مجلس انتظام تنظیم المکاتب نے خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ کی خطابت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ فاتحہ کے بعد مختصر اور جامع خطبہ کی تلاوت کرتے ، عربی عبارتوں سے گریز کرتے تا کہ پیغام رسانی میں زیادہ وقت مل سکے۔ پوری مجلس میں موضوع کا خیال رکھتے۔ ماہ رمضان المبارک میں عشرہ محرم کی تیاری فرماتے۔ 

مولانا سید منور حسین صاحب انچارج جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ امام حسین علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور حاکم شام کی صلح کا خیال رکھتے ہوئے دس برس حاکم شام کی ظالمانہ حکومت کو برداشت کیا اگرچہ جب بھی کسی مظلوم پر ظلم ہوا یا ناحق خون بہا تو آپ خاموش نہیں رہے اور نہ یزید کی ولی عہدی پر آپ نے سکوت اختیار کیا بلکہ اس کی کھل کر مخالفت کی لیکن جب یزید بر سر اقتدار ہوا تو آپ نے دس دن بھی ظالمانہ نظام کو برداشت نہیں کیا ۔ یزیدیت کو ہمیشہ کے لئے بے نقاب کر دیا کہ خود یزید اپنے ظلم پر شرمندہ ہوا اور اس کا بیٹا حکومت سے دستبردار ہو گیا ۔ 

مولانا سید ممتاز جعفر نقوی صاحب مربی اعلیٰ جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ مرجعیت اور عزاداری تشیع کی پاسبان ہیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے عزاداری کی بنیاد رکھی اور پہلی مجلس شام میں منعقد کی۔ یہی عزاداری ہے جو انسانیت کو آزادی کا درس دیتی ہے۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا عالمہ غیر معلمہ تھیں ۔ آپ کو تمام مسائل کا علم تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے تاراجی خیام کے ہنگام امام سجاد علیہ السلام سے مسئلہ پوچھ کر بتا دیا کہ مسائل اپنے امام زمان یا انکے نائبین سے دریافت کرو۔ 

مولانا سید تہذیب الحسن صاحب استاد جامعہ امامیہ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر ۹۶ ’’ اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں نازل کرتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کی گرفت کی۔‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ عزاداری ہمارے لئے مایہ برکت ہے۔ اس کے ذریعہ ہمارے اندر مشکلات میں صبر و استقامت کا درس ملتا ہے۔ اسمیں رحمت الہی کا نزول ہوتا ہے۔ انفاق اور ایثار کا جزبہ پیدا کرتی ہے اور امام حسین علیہ السلام کے مقصد سے روشناس کراتی ہے۔عزاداری میں دو جہاں کی برکتیں ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .