تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | طوفان الاقصٰی، فلسطینیوں اور قابض اسرائیلیوں کے درمیان شروع ہوئے قریب چھ ماہ ہونے کو ہے۔ اس جنگ کے نتیجے کے سلسلے میں کوئی پیشن گوئیاں سامنے نہیں آئی ہے لیکن کچھ کردار، چہرے، حکمران اور ملک بےشک بے نقاب ہو چکے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں تباہی کرنے والے یورپی ممالک اور امریکہ جس طرح سے عرب اور ایشیائی ممالک پر اپنے اسلحہ، طاقت، سازش، مکاری اور دہشت گردی سے ان ملکوں پر جنگ مسلط کر معصوم انسانوں کا قتل کیا، تباہی مچائی، پٹرول، گیس اور معدنیات کو لوٹ رہے تھے اور ان علاقوں میں اپنا فوجی اڈہ بناکر حکومت سازی اور حکومتوں کا خاتمہ کر رہے تھے وہ اب ماضی کی داستان اور تاریخ کے اوراق کی بد نما کردار و چہرہ کے طور پر لوگوں کی نظریں دیکھیں گی۔
موجودہ حالات کے لیے قرآن مجید، حدیث پاک اور امت مسلمہ کے علم، عمل، ادب، کردار اور ذمے داری پر غور و فکر پر توجہ مبذول کروائی جانی چاہیے۔
قرآن کریم میں 'مومنین' اور 'مسلمین' ہے۔ مومن اور مسلم میں فرق سمجھنا ہوگا۔ لفظٍ مومن ایمان سے ماخوذ ہے اور لفظٍ مسلم اسلام سے ماخوذ ہے۔ ایمان اور اسلام کی تعریفات اور ان دونوں کے درمیان فرق میں بہت تفصیلی کلام ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان کا تعلق باطن سے ہے اور اسلام کا تعلق ظاہر سے ہے۔ یعنی ایمان عقائد (مثال کے طور پر اللہ تعالٰی پر، اصولوں پر، فرشتوں پر، قیامت کے دن وغیرہ پر ایمان لانا) اور قلبی صفات و اعمال (مثال کے طور پر توکل، اللہ پاک سے عشق، خوف وغیرہ) کا نام ہے۔ جبکہ اسلام ظاہری اعمال (مثال کے طور پر زبان سے شہادتین کا اقرار، نماز، روزہ، زکات، حج اور دیگر مالی و بدنی عبادات) کا نام ہے۔
قارئین کرام کے لیے حقیقت کو اجاگر کرنا ضروری ہے کہ غزہ پر ظلم و بربریت، قتل و غارتگری، جبر و تشدد، وحشیانہ بمباری، محاصرہ، مسلم حکمرانوں کی مکاری، عیاری، دغابازی اور منافقت نے معصوم بچوں، خواتین، ضعیفوں اور مریضوں کی زندگی کو تنگ کر دیا ہے۔ بہرحال وہ اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ یہ حالات کیوں درپیش ہے؟ کیونکہ امت مسلمہ نے اللہ پاک، رسول اکرمؐ، قرآن مجید کی آیات مبارکہ و شریفہ، فرشتوں، احادیث نبویؐ پر یقین کامل نہیں کیا۔ اپنے آپ کو پہچانا نہیں۔ آلام و مصائب سے متعلق حکمت الٰہی کو سمجھا نہیں۔ امت مسلمہ کی حقیقت سے دوریاں اختیار کی۔ حدیث ثقلین کو بھلا دیا۔ جس کے دامن سے وابستہ ہونا تھا اسے چھوڑ دیا۔ اللہ رب العزت نے ہمارے اوپر احکام لازم قرار دیا اس کی پیروی سے گمراہ رہے۔ ہمارے اوپر انعامات و نعمتوں کا وعدہ کیا اور عطاء کیں اس کی اہمیت کو سمجھا اور پہچانا ہی نہیں، قدر کرنا تو دور کی بات رہی۔ اور امت مسلمہ کے کیا فضائل ہیں اس پر تدبر و تفکر نہیں کیا۔ یہود و نصارٰی سے رشتہ داری قبول و قائم کی۔
کیا امت مسلمہ نے کبھی غور و فکر کی کہ سیاسی وجود کا فقدان، اقتصادیات کی نابودی، تعلیمی نظام میں عدم دلچسپی، فوجی، اسلحہ اور دفاعی نظم و نسق سے لاتعلقی، اور اللہ راہ میں قربانی دینے کا جذبہ سے نابلد ہونا۔ اسلحہ بنانے والے، اسلحہ ساز و سامان فروخت کرنے والے، اور سیاسی سازشوں میں ملوث اور دہشت گردوں کی پرورش، تربیت اور اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے والے ملکوں کو سپرد کر رکھا ہے۔ مسلم ملکوں میں جہاں اقلیتی فرقہ ہے وہاں مسلم حکمران ظلم و ستم اور ان کے حقوق کی پا مالی کرتے ہیں اور آزادی پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ اور جہاں امت مسلمہ اقلیت میں ہے وہاں ہم وطنوں کے ظلم و ستم اور حقوق کی پامالی پر صدائیں بلند کی جاتی ہیں تو ان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر مزید مظالم کئے جاتے ہیں۔ غلط الزام عائد کر جیل میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ حالات سنگین اور غیر متوقع ہیں۔
عام مسلمان اور غیر مسلم یوٹیوب نیوز چینل اپنی اپنی خبروں میں نشر کر رہے ہیں اور مذاق اڑا رہے ہیں کہ حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے عشاق کہاں ہیں، وہ لاکھوں کی تعداد میں قاری، حافظ، قاضی، امام صاحب، پیش نماز، نمازی، حاجی، تبلیغی جماعت کے امیر، وظیفہ خوار، دانشوران، سیاسی رہنما، سیاسی جماعت، مصنفین، صحافی، سرمایہ دار، تجار، ماہر تعلیم، سماجی اہلکار، قلم کار، فنکار، مدرس عالیہ، شعراء کرام، علماء عظام، مقررین، مبلغین، انسانیت کے پرستار، انصاف پسند حضرات، امن نوبل انعام یافتہ اور مختلف تنظیموں سے منسلک کارندے کہاں ہیں؟ ان سبھی حضرات کو اپنی اپنی ذمے داریوں کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ آج ہر فرد و بشر کے ایمان و معرفت پر آنسوؤں سے لبریز آنکھیں غزہ کے معصوم بچوں اور خواتین کو صیہونیوں کے ہاتھوں بھوکے پیاسے قتل شہید ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ سعودی عربیہ کی تمام مسجدوں کے امام محمد بن سلمان کی ڈر سے لب کشائی نہیں کر رہے ہیں۔ کیا غزہ پر ظلم و جور برپا دیکھ ویسے قاری، حافظ، قاضی، امامٍ حرمین شریفین، جماعتی امیر اور پیش نماز کی خاموشی قابل مذمت و ملامت نہیں ہے؟ ویسے قاری، قاضی اور حافظ جو مسجد نبویؐ میں نماز پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، منارہ مسجد کی زیارت کرتے ہیں، خانہ کعبہ میں نماز ادا کرتے ہیں، اس کے گنبد کی زیارت کرتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کی قبر مقدسہ کی روح پرور زیارت کرتے ہیں، اور جنھوں نے اپنے دلوں میں قرآن کریم حفظ کر ڈال رکھا ہے لیکن اس سے ان کی فکر، روح، دل و دماغ منور نہیں ہوا، ایمان میں پختگی نہیں اور معرفت الٰہی نہیں تو عام امت مسلمہ کے بارے میں کیا خیال رکھا جائے اور کیا تحریر کی جائے!
عقیدے کا حساب بعد میں کر لیں گے
پہلے یہ ثابت تو کریں کہ انسان ہیں ہم
احتجاج کرنے والوں کی فضیلت کے بارے میں آیات قرآن کا بیان کرنا ضروری ہے، سورۃ نحل، آیت مبارکہ و شریفہ نمبر ۱۲۵ "حکمت موعظ حسنہ اور اچھی اچھی باتوں کے ذریعہ لوگوں کو راہ خدا کی طرف بلاؤ اور لوگوں کے نزدیک سب سے اچھے طریقے سے بحث و مباحثہ کرو۔" سورۃ عنکبوت، آیت مبارکہ نمبر ۴۶ "تم اہل کتاب سے بحث و مباحثہ نہ کرو مگر احسن اور عمدہ طریقے سے۔" اور سورۃ بقرہ، آیت نمبر ۲۵۸ "کیا تم نے ابراہیمؑ کو اپنے پروردگار کے بارے میں احتجاج و مباحثہ کرتے نہیں دیکھا۔" علاوہ ازیں سورۃ انعام، آیت مبارکہ نمبر ۷۵ اور ۸۳ کا احتجاج کے سلسلے میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا "میرے آباؤ و اجداد سے مجھ تک پہنچا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت رسول اکرمؐ نے یہود، نصارٰی، دہریہ، مانویہ اور بت پرست ان پانچ فرقوں سے احتجاج و مناظرہ کیا۔" (ابو منصور احمد ابن علی ابن ابی طالب طبرسی، صفحہ ۲۶)
بہت ایسے مواقع اسلامی تاریخ میں بیان کیے گئے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے مشرکین و منافقین سے احتجاج کیا ہے۔ 'کتاب طبرسی' میں احتجاجٍ حضرت علیؑ، جناب سلمان فارسی، جناب ابوذر غفاری، جناب مقدار ابن اسود، جناب بریدہ اسلمی، جناب عمار یاسر، جناب ابی ابن کعب، جناب خزیمہ ابن ثابت، جناب عثمان ابن حنیف اور جناب ابو ایوب انصاری وغیرہ کا نام سر فہرست درج ہے۔
قابل ذکر ہے کہ برطانیہ، امریکہ، اسپین، اٹلی، فرانس، جرمنی، بلجیئم، آسٹریلیا، کینیڈا، پولینڈ، اور رومانیہ کے مختلف شہروں میں عوام اسرائیل کے وحشیانہ بمباری، غزہ کے معصوم بچوں و خواتین کے قتل پر سڑک پر ₩0احتجاج کرنے کے لئے نکلی لیکن نام نہاد مسلم ممالک جیسے سعودی عربیہ، ترکیہ، مصر، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، ملیشیا، اردن، متحدہ عرب امارات، عمان، کویت، اور بحرین وغیرہ کی عوام جن میں نمازی، حاجی، حافظ، قاضی، قاری، امام، پیش نماز و تبلیغی جماعت کے امیر اور حکمران معصوم بچوں اور خواتین کے قتل پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کو احکام الٰہی اور حدیث پاک، آخرت اور قیامت پر ایمان نہیں ہے۔ اگر خوف خدا ہوتا تو وہ خوف یہود و نصارٰی میں مبتلا ۰نہ ہوتے۔
دوسری طرف قابل ستائش ہیں حوثی، حزب اللہ، حماس، حشد الشعابی اور دیگر مزاحمتی تنظیمیں جو ایران، عراق، شام، لبنان، یمن اور فلسطین سے تعلق رکھتی ہیں وہ ۷، اکتوبر، ۲۰۲۳ کو اٹھے طوفان کے حصہ ہیں، اب تک بڑے شدت سے جاری ہے جس کا اثر دور دراز امریکہ، افریقہ، یوروپ، ایشیا اور عرب ملکوں میں اس طوفان کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس میں مزید شدت اختیار کرنے کی پیشن گوئیاں کی جا رہی ہیں۔
شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام ایک تبلیغی مذہب ہے جس کی نشر و اشاعت کی ذمہ داری ایک مکمل فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کام حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے سپرد رہی ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث نبویہؐ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے اور نہ مسلمان کا ایسا مزاج رہا ہے۔ پیغمبر اسلامؐ کے سپاہ سالار، حیدر کرار حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کی تلوار صرف تسخیر ممالک اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے تھی جبکہ دلوں کو تو اسلام بلند اخلاق، عدل و انصاف، نرمی، صبر و تحمل، ایثار اور بے مثال نظریہ حیات کی بے نیام تلوار سے کرتا رہا ہے۔ حُر ابن ریاحی جو سید الشہداء، حضرت امام حسین علیہ السلام کو گھیر کر کربلا تک لایا اُن کو، ان کے لشکر اور ان کے گھوڑے تک کو پانی سے سیراب کیا۔ اسلامی جنگوں میں کبھی پانی اور خوراک کا محاصرہ نہیں کیا گیا۔ بچوں، عورتوں، ضعیفوں، مریضوں اور جس نے تلوار نہیں اُٹھائ اس پر تلوار نہیں چلائی گئی۔
اسلام کی زیادہ تر اہم جنگیں رسول اکرم ﷺ اور شیر خدا، حضرت علی علیہ السلام کی قیادت میں یہودیوں کے خلاف مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ارد گرد ہوئی تھی۔ اس یہودی نسل کی اولادیں سعودی عربیہ میں آج بھی موجود نظر آ رہی ہیں، اس بات سے سبھی متفق ہیں۔
کیا یہ مسلم ممالک کے حکمران اور عوام قرآن مجید کے احکام سے نابلد ہیں یا اس احکام پر عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں؟ دونوں ہی حالات میں خلاف الٰہی اور ایمان جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے۔ سورۃ البقرہ کی آیت مبارکہ نمبر ۷۶ کا امت مسلمہ بغور مطالعہ کرے "یہ یہودی ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لے آئے اور آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا تم مسلمانوں کو توریت کے مطالب بتا دو گے کہ وہ اپنے نبی سے تمھارے استدلال کریں کیا تمھیں عقل ہے کہ ایسی حماقت کروگے۔" سورۃ البقرہ کی ایک اور آیت مبارکہ و شریفہ نمبر ۱۱۱ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ یہودی کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے پیارے بندے ہیں اور ان کو دنیا میں سبھی انسانوں پر مقدم قرار دیا گیا اور جنت میں ان کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہوگا "یہ یہودی کہتے ہیں کہ جنت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوگا۔ یہ صرف ان کی امیدیں ہیں۔ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لے آؤ۔" مسلم ممالک کے حکمران اور عوام الناس سورۃ البقرہ کی ۱۹۰ویں آیت پر غور کیوں نہیں کرتے "جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں تم بھی ان سے راہٍ خدا میں جہاد کرو اور زیادتی نہ کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔"
سورۃ آلٍ عمران کی ۸۷ اور ۸۸ آیات میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ "خبردار صاحبان ایمان۔ مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔۔۔" ایسا لگتا ہے کہ واقعی میں محمد بن سلمان، طیب اردوغان، فتح السیسی، شاہ عبداللہ، اور شیخ تمیم نے اللہ پاک کو چھوڑ کر اسرائیل اور امریکہ کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے اور اللہ پاک سے اپنا تعلق منقطع کر دیا ہے۔ بہرحال، ان حکمرانوں اور ان ملکوں کی عوام کو سورۃ آلٍ عمران کی ۸۷ اور ۸۸ آیت مبارکہ کے ذریعے پیغام پہنچا دیا جائے کہ "ان لوگوں کی جزا یہ ہے کہ ان پر خدا، ملائکہ اور انسان سب کی لعنت ہے۔ یہ ہمیشہ اسی لعنت میں گرفتار رہیں گے۔ ان کی عذاب میں تخفیف نہ ہوگی اور نہ انھیں مہلت دی جائے گی۔"
ابھی کل ۵۷ مسلم ممالک ہیں ان کے لیے شیخ سعدی کی الفاظ جس میں عقل اور اتحاد کی قوت پوشیدہ ہے۔ کاش ان کو یہ دانشمندی سمجھ پاتے اور عمل میں لاتے "اگر چڑیوں میں اتحاد قائم ہو جائے تو وہ شیر کی بھی کھال اتار دیتی ہیں۔"